(مرفوع) حدثنا علي بن المنذر الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، قال: حدثنا الاعمش، عن عطية، عن ابي سعيد , والاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن زيد بن ارقم رضي الله عنهما، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي، احدهما اعظم من الآخر، كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الارض، وعترتي اهل بيتي , ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما". قال: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي , وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ان دونوں سے ثابت عقیدہ و منہج پر عمل کرنے میں تم کیا کرتے ہو، ان کے مطابق عمل کرتے ہو یا مخالف پہلے یہ بات گزری کہ اہل بیت سے صحیح سند سے ثابت عقیدہ و منہج ہدایت کا ضامن ہے، اور اس شیعیت کا کوئی تعلق نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6144)، الروض النضير (977 - 978)، الصحيحة (4 / 356 - 357)
قال الشيخ زبير على زئي: (3788) إسناده ضعيف عطية العوفي ضعيف (تقدم: 477) و سليمان الأعمش عنعن (تقدم:169) وحديث مسلم (2408) والطحاوي (مشكل الآثار 13/5ح 1760) يغني عنه وانظر المطالب العالية (3943)
(مرفوع) حدثنا نصر بن عبد الرحمن الكوفي، حدثنا زيد بن الحسن هو الانماطي، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول:" يا ايها الناس إني قد تركت فيكم ما إن اخذتم به لن تضلوا، كتاب الله وعترتي اهل بيتي". قال: وفي الباب عن ابي ذر، وابي سعيد، وزيد بن ارقم، وحذيفة بن اسيد، قال: وهذا حسن غريب هذا الوجه، قال: وزيد بن الحسن قد روى عنه سعيد بن سليمان وغير واحد من اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ الْأَنْمَاطِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي". قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَى عَنْهُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری «عترت» یعنی اہل بیت ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- زید بن حسن سے سعید بن سلیمان اور متعدد اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوذر، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور حذیفہ بن اسید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: اہل بیت کا عقیدہ اور منہج جو صحیح سند سے ثابت ہو وہ ہدایت کا ضامن ہی ہے، کیونکہ یہ نفوس قدسیہ بزبان رسالت مآب ہدایت ہیں، اس سے شیعوں کا اپنی شیعیت پر استدلال بالکل درست نہیں کیونکہ صحیح روایات سے اہل بیت سے منقول عقیدہ و منہج موجودہ شیعیت کے بالکل مخالف ہے اہل بیت کیا، کیا شیعہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہونے کے دعویدار نہیں؟ مگر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور تفہیم شیعوں کے طریقے سے آئی ہے کیا وہ صد فی صد ان دونوں کے صحیح مفاہیم کے خلاف نہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ صحیح سند سے سلف کے فہم کے مطابق منقول عقیدہ و منہج ہی ہدایت کا ضامن ہے۔ اور وہ اہل السنہ و الجماعہ اہل حدیث کے پاس ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6143 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (3786) إسناده ضعيف زيد بن الحسن الأنماطي ضعيف (تق:2127) وحديث مسلم (2408) و ابن ماجه (1558) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا محمد بن سليمان الاصبهاني، عن يحيى بن عبيد، عن عطاء بن ابي رباح، عن عمر بن ابي سلمة ربيب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: نزلت هذه الآية على النبي صلى الله عليه وسلم إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا سورة الاحزاب آية 33 في بيت ام سلمة، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة , وحسنا , وحسينا فجللهم بكساء , وعلي خلف ظهره فجلله بكساء، ثم قال:" اللهم هؤلاء اهل بيتي فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا"، قالت ام سلمة: وانا معهم يا نبي الله؟ قال:" انت على مكانك وانت إلى خير". قال: وفي الباب عن ام سلمة، ومعقل بن يسار، وابي الحمراء، وانس، قال: وهذا غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ , وَحَسَنًا , وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ , وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا"، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ". قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، وَأَنَسٍ، قَالَ: وَهَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے «ربيب»(پروردہ) عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا»”اے اہل بیت النبوۃ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (کفر و شرک) کی گندگی دور کر دے، اور تمہاری خوب تطہیر کر دے“[ الاحزاب: ۳۳ ] ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی الله عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی رضی الله عنہ آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپا لیا، پھر فرمایا: «اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا»”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرما دے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے“، ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ، معقل بن یسار، ابوحمراء اور انس رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3205 (صحیح)»
وضاحت: ۲؎: اس آیت کے سیاق و سباق اور سبب نزول سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ”اہل البیت“ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات مراد ہیں یا اس حدیث سے ازواج مطہرات کے علاوہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی الله عنہم کے بھی ”اہل بیت“ میں ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے، اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6291) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلیمان نوفلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی صورت میں اور یہاں متابعت نہیں ہے، اس لیے لین الحدیث یعنی ضعیف الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج فقه السيرة (23) // ضعيف الجامع الصغير (176) //