(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، حدثنا حماد بن سلمة، عن ابي الزبير، عن علي بن عبد الله البارقي، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان إذا سافر فركب راحلته كبر ثلاثا، ويقول: سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين {13} وإنا إلى ربنا لمنقلبون {14} سورة الزخرف آية 13-14، ثم يقول: اللهم إني اسالك في سفري هذا من البر والتقوى، ومن العمل ما ترضى، اللهم هون علينا المسير واطو عنا بعد الارض، اللهم انت الصاحب في السفر والخليفة في الاهل، اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في اهلنا "، وكان يقول: إذا رجع إلى اهله: " آيبون إن شاء الله تائبون عابدون لربنا حامدون ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَارِقِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ كَبَّرَ ثَلَاثًا، وَيَقُولُ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِي هَذَا مِنَ الْبِرِّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا الْمَسِيرَ وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَ الْأَرْضِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا "، وَكَانَ يَقُولُ: إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ: " آيِبُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر فرماتے تو اپنی سواری پر چڑھتے اور تین بار «اللہ اکبر» کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے: «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون»۱؎ اس کے بعد آپ یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك في سفري هذا من البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم ہوں علينا المسير واطو عنا بعد الأرض اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا»”اے اللہ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا طالب ہوں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے تو راضی ہو، اے اللہ تو اس سفر کو آسان کر دے، زمین کی دوری کو لپیٹ کر ہمارے لیے کم کر دے، اے اللہ تو سفر کا ساتھی ہے، اور گھر میں (گھر والوں کی دیکھ بھال کے لیے) میرا نائب و قائم مقام ہے، اے اللہ! تو ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں رہ، اور گھر والوں میں ہماری قائم مقامی فرما“، اور آپ جب گھر کی طرف پلٹتے تو کہتے تھے: «آيبون إن شاء الله تائبون عابدون لربنا حامدون»”ہم لوٹنے والے ہیں اپنے گھر والوں میں ان شاءاللہ، توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں، حمد بیان کرنے والے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمر بن علي المقدمي، حدثنا ابن ابي عدي، عن شعبة، عن عبد الله بن بشر الخثعمي، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر فركب راحلته قال باصبعه ومد شعبة باصبعه، قال:اللهم انت الصاحب في السفر والخليفة في الاهل، اللهم اصحبنا بنصحك واقلبنا بذمة، اللهم ازو لنا الارض وهون علينا السفر، اللهم إني اعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب ". قال ابو عيسى: كنت لا اعرف هذا إلا من حديث ابن ابي عدي، حتى حدثني به سويد. حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله ابن المبارك، حدثنا شعبة بهذا الإسناد، نحوه بمعناه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث ابي هريرة لا نعرفه إلا من حديث ابن ابي عدي، عن شعبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرٍ الْخَثْعَمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ قَالَ بِأُصْبُعِهِ وَمَدَّ شُعْبَةُ بِأُصْبُعهِ، قَالَ:اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا بِنُصْحِكَ وَاقْلِبْنَا بِذِمَّةٍ، اللَّهُمَّ ازْوِ لَنَا الْأَرْضَ وَهَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: كُنْتُ لَا أَعْرِفُ هَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، حَتَّى حَدَّثَنِي بِهِ سُوَيْدٌ. حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر نکلتے اور اپنی سواری پر سوار ہوتے تو اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے: «اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا بنصحك واقلبنا بذمة اللهم ازو لنا الأرض وهون علينا السفر اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب»”اے اللہ! تو ہی رفیق ہے سفر میں، اور تو ہی خلیفہ ہے گھر میں، (میری عدم موجودگی میں میرے گھر کا دیکھ بھال کرنے والا، نائب) اپنی ساری خیر خواہیوں کے ساتھ ہمارے ساتھ میں رہ، اور ہمیں اپنے ٹھکانے پر اپنی پناہ و حفاظت میں لوٹا (واپس پہنچا)، اے اللہ! تو زمین کو ہمارے لیے سمیٹ دے اور سفر کو آسان کر دے، اے اللہ! میں سفر کی مشقتوں اور تکلیف سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور پناہ مانگتا ہوں ناکام و نامراد لوٹنے کے رنج و غم سے (یا لوٹنے پر گھر کے بدلے ہوئے برے حال سے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- میں اسے نہیں جانتا تھا مگر ابن ابی عدی کی روایت سے یہاں تک کہ سوید نے مجھ سے یہ حدیث (مندرجہ ذیل سند سے) سوید بن نصر کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا عبداللہ بن مبارک نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی ۱؎، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شعبہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: ابن ابی عدی کے علاوہ شعبہ سے ابن مبارک نے بھی روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم الاحول، عن عبد الله بن سرجس، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سافر يقول: اللهم انت الصاحب في السفر، والخليفة في الاهل، اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في اهلنا، اللهم إني اعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب، ومن الحور بعد الكون ومن دعوة المظلوم ومن سوء المنظر في الاهل والمال ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ويروى الحور بعد الكور ايضا، ومعنى قوله: الحور بعد الكون او الكور وكلاهما له وجه يقال: إنما هو الرجوع من الإيمان إلى الكفر، او من الطاعة إلى المعصية، إنما يعني من الرجوع من شيء إلى شيء من الشر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرَ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ وَمِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ أَيْضًا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ أَوِ الْكَوْرِ وَكِلَاهُمَا لَهُ وَجْهٌ يُقَالُ: إِنَّمَا هُوَ الرُّجُوعُ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَى الْكُفْرِ، أَوْ مِنَ الطَّاعَةِ إِلَى الْمَعْصِيَةِ، إِنَّمَا يَعْنِي مِنَ الرُّجُوعِ مِنْ شَيْءٍ إِلَى شَيْءٍ مِنَ الشَّرِّ.
عبداللہ بن سرجس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو کہتے: «اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب ومن الحور بعد الكون ومن دعوة المظلوم ومن سوء المنظر في الأهل والمال»”اے اللہ! تو ہمارے سفر کا ساتھی ہے، تو ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نائب و خلیفہ ہے، اے اللہ! تو ہمارے ساتھ رہ ہمارے اس سفر میں تو ہمارا نائب و خلیفہ بن جا ہمارے گھر والوں میں، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی تکلیف و تھکان سے اور ناکام نامراد لوٹنے کے غم سے، اور مظلوم کی بد دعا سے اور مال اور اہل خانہ میں واقع شدہ کسی برے منظر سے (بری صورت حال سے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «الحور بعد الكون» کی جگہ «الحور بعد الكور» بھی مروی ہے، اور «الحور بعد الكور» یا «الحور بعد الكون» دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، کہتے ہیں: اس کا معنی یہ ہے کہ پناہ مانگتا ہوں ایمان سے کفر کی طرف لوٹنے سے یا طاعت سے معصیت کی طرف لوٹنے سے، مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد خیر سے شر کی طرف لوٹنا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المناسک 75 (1343)، سنن النسائی/الاستعاذة 41 (5500)، و42 (5502)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 20 (3888) (تحفة الأشراف: 5320)، و مسند احمد (5/82، 83) (صحیح)»