Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
42. باب مَا يَقُولُ إِذَا خَرَجَ مُسَافِرًا
باب: جب آدمی سفر کے لیے نکلے تو کیا پڑھے؟
حدیث نمبر: 3439
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرَ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ وَمِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ أَيْضًا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ أَوِ الْكَوْرِ وَكِلَاهُمَا لَهُ وَجْهٌ يُقَالُ: إِنَّمَا هُوَ الرُّجُوعُ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَى الْكُفْرِ، أَوْ مِنَ الطَّاعَةِ إِلَى الْمَعْصِيَةِ، إِنَّمَا يَعْنِي مِنَ الرُّجُوعِ مِنْ شَيْءٍ إِلَى شَيْءٍ مِنَ الشَّرِّ.
عبداللہ بن سرجس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو کہتے: «اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل اللهم اصحبنا في سفرنا واخلفنا في أهلنا اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب ومن الحور بعد الكون ومن دعوة المظلوم ومن سوء المنظر في الأهل والمال» اے اللہ! تو ہمارے سفر کا ساتھی ہے، تو ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نائب و خلیفہ ہے، اے اللہ! تو ہمارے ساتھ رہ ہمارے اس سفر میں تو ہمارا نائب و خلیفہ بن جا ہمارے گھر والوں میں، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی تکلیف و تھکان سے اور ناکام نامراد لوٹنے کے غم سے، اور مظلوم کی بد دعا سے اور مال اور اہل خانہ میں واقع شدہ کسی برے منظر سے (بری صورت حال سے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- «الحور بعد الكون» کی جگہ «الحور بعد الكور» بھی مروی ہے، اور «الحور بعد الكور» یا «الحور بعد الكون» دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، کہتے ہیں: اس کا معنی یہ ہے کہ پناہ مانگتا ہوں ایمان سے کفر کی طرف لوٹنے سے یا طاعت سے معصیت کی طرف لوٹنے سے، مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد خیر سے شر کی طرف لوٹنا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المناسک 75 (1343)، سنن النسائی/الاستعاذة 41 (5500)، و42 (5502)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 20 (3888) (تحفة الأشراف: 5320)، و مسند احمد (5/82، 83) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3888)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3439 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3439  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! تو ہمارے سفر کا ساتھی ہے،
تو ہمارے پیچھے ہمارے اہل وعیال کا نائب وخلیفہ ہے،
اے اللہ تو ہمارے ساتھ رہ ہمارے اس سفر میں تو ہمارا نائب وخلیفہ بن جا ہمارے گھر والوں میں،
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی تکلیف وتھکان سے اور ناکام نامراد لوٹنے کے غم سے،
اور مظلوم کی بد دعا سے اور مال اور اہل خانہ میں واقع شدہ کسی برے منظرسے (بری صورت حال سے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3439   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5503  
´سفر سے لوٹتے وقت کے رنج و غم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور سواری پر سوار ہوتے تو انگلی سے اشارہ کرتے (شعبہ نے اپنی انگلی دراز کی) اور کہتے تھے: «اللہم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل والمال اللہم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب» اے اللہ! تو ہی سفر کا ساتھی ہے، اور گھر والوں اور مال میں ہمارا نگہبان و خلیفہ ہے، اے اللہ! میں سفر پر جاتے وقت کی دشواری و پریشانی اور لوٹتے وقت کے رنج و [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5503]
اردو حاشہ:
اصلی ساتھی کیونکہ دوسرے ساتھی کسی بھی وقت ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ خوشی سے ناخوشی سے۔ نگران عربی میں لفظ خلیفہ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ نائب اورجانشین ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عدم موجودگی میں تو ہی میری جگہ کفایت فرمائے گا۔ اس مفہوم کونگران کےلفظ سےبیان کیا گیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5503   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3888  
´سفر کرتے وقت کون سی دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو یہ دعا پڑھتے: (اور عبدالرحیم کی روایت میں ہے کہ آپ پناہ مانگتے تھے): «اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب والحور بعد الكور ودعوة المظلوم وسوء المنظر في الأهل والمال» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی صعوبتوں اور مشقتوں سے، واپسی کے غم سے، ترقی کے بعد تنزلی سے، اور مظلوم کی بد دعا سے اور اہل و عیال کے سلسلے میں برا منظر دیکھنے سے۔‏‏‏‏ اور ابومعاویہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ سفر سے لوٹتے وقت بھی یہی دعا پڑھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3888]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
پریشان کن واپسی کا مطلب ہے۔
کہ اچانک ایسی ناگہانی صورت حال پیدا ہوجائے کہ انسان کو مجبورا واپس آنا پڑے یا یہ مطلب ہے کہ واپس آئے تو گھر میں کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آچکا ہو سفر میں ایسی صورت حال سفر کی عام تکلیف ومشقت کی موجودگی میں ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔
اس لئے اللہ سے دعا مانگی جاتی ہے۔
کہ وہ اس سے محفوظ رکھے۔

(2) (اَلحَوْرِ بَعْدَ الکَوْرِ)
کا مطلب ہے کہ ایک کام کے صحیح طور پر انجام پانے کے بعد پھر اس میں کمی یاخرابی کاواقع ہوجانا یا اچھی حالت کے بعد برُی حالت میں آجانا مثلاً ایمان کے بعد کفر، نیکی کے بعد گناہ اور خوشحالی کے بعد تنگی دستی اور مقروض ہونا وغیرہ اس لحاظ سے یہ بہت جامع الفاظ ہیں۔

(3)
مظلوم کی بد دعا سے پناہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم کسی پر ظلم نہ کریں تاکہ وہ ہمیں بددعا نہ دے اس لئے اگر کسی پر ظلم کیا ہو تو سفر سے پہلے اس کا ازالہ کردینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3888   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3276  
حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے، تو سفر کی مشقت، رنج دہ واپسی، کمال کے بعد زوال، مظلوم کی بددعا، اور اہل و عیال اور مال و متاع میں برے نظارہ سے پناہ مانگتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3276]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اَلْحَور:
کےمعنی ہیں،
پگڑی کے پیچ یا بل کھول دینا۔
(2)
كوَن:
کا معنی ہے،
حاصل ہونا،
قرار ملنا،
مقصد یہ ہے کہ استقامت ودرستگی کے بعد فساد اور بگاڑ کا پیدا ہوجانا،
یا بقول امام ترمذی،
ایمان سے کفر کی طرف لوٹنا،
اطاعت سے معصیت کی طرف آ جانا،
ایک چیز سے اس سے بدتر کی طرف لوٹ آنا۔
فوائد ومسائل:
سفر میں انسان مختلف حالات سے دوچار ہوتا ہے،
اس میں بہت خطرناک موڑ بھی آتے ہیں،
اور کسی سے ظلم و زیادتی بھی ہو سکتی ہے،
اس لیے آپ صلی اللہ علی وسلم سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنی نیکی واطاعت اور صحیح رویہ پر استقامت و ثبات کی دعا فرماتے کہ کہیں سفری صعوبتوں اور مشکلات کی وجہ سے حالات اصلاح اور بہتری کے بجائے فساد و بگاڑ کا رخ نہ اختیار کر لیں اور میں حاصل شدہ بہتر اشیاء سے محروم نہ ہوجاؤں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3276