(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ابي عمران الجوني، عن ابي بكر بن ابي موسى الاشعري، قال: سمعت ابي بحضرة العدو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ابواب الجنة تحت ظلال السيوف "، فقال رجل من القوم رث الهيئة: اانت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكره؟ قال: نعم، فرجع إلى اصحابه، فقال: اقرا عليكم السلام، وكسر جفن سيفه فضرب به حتى قتل، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث جعفر بن سليمان الضبعي، وابو عمران الجوني اسمه: عبد الملك بن حبيب، وابو بكر ابن ابي موسى، قال احمد بن حنبل: هو اسمه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَثُّ الْهَيْئَةِ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ، وَكَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ، وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ، وَأَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي مُوسَى، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ اسْمُهُ.
ابوبکر بن ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں نے دشمنوں کی موجودگی میں اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں“۱؎، قوم میں سے ایک پراگندہ ہیئت والے شخص نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، چنانچہ وہ آدمی لوٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور بولا: میں تم سب کو سلام کرتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ دیا اور اس سے لڑائی کرتا رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان ضبعی کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 41 (1902)، (تحفة الأشراف: 9139)، و مسند احمد (4/396، 411) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد اور اس میں شریک ہونا جنت کی راہ پر چلنے اور اس میں داخل ہونے کا سبب ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم اي الاعمال افضل، او اي الاعمال خير؟ قال: " إيمان بالله ورسوله "، قيل: ثم اي شيء؟ قال: " الجهاد سنام العمل "، قيل: ثم اي شيء يا رسول الله؟ قال: " ثم حج مبرور "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ، أَوْ أَيُّ الْأَعْمَالِ خَيْرٌ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ "، قِيلَ: ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ؟ قَالَ: " الْجِهَادُ سَنَامُ الْعَمَلِ "، قِيلَ: ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے، یا کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا“، پوچھا گیا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ”جہاد، وہ نیکی کا کوہان ہے“۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ”حج مبرور (مقبول)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں سرحد کی ایک دن کی پاسبانی کرنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، تم میں سے کسی کے کوڑے کے برابر جنت کی جگہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے اور بندے کا اللہ کی راہ میں صبح یا شام کے وقت چلنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا الوليد بن مسلم، عن إسماعيل بن رافع، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لقي الله بغير اثر من جهاد، لقي الله وفيه ثلمة "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من حديث الوليد بن مسلم، عن إسماعيل بن رافع، وإسماعيل بن رافع قد ضعفه بعض اهل الحديث، قال " وسمعت محمدا، يقول: هو ثقة مقارب الحديث، وقد روي من غير هذا الوجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث سلمان إسناده ليس بمتصل، محمد بن المنكدر لم يدرك سلمان الفارسي، وقد روي هذا الحديث عن ايوب بن موسى، عن مكحول، عن شرحبيل بن السمط، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَافِعٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَقِيَ اللَّهَ بِغَيْرِ أَثَرٍ مِنْ جِهَادٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَفِيهِ ثُلْمَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَافِعٍ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ رَافِعٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ " وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: هُوَ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ سَلْمَانَ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، عَنْ سَلْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جہاد کے کسی اثر کے بغیر اللہ تعالیٰ سے ملے ۱؎ تو وہ اس حال میں اللہ سے ملے گا کہ اس کے اندر خلل (نقص و عیب) ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ولید بن مسلم کے واسطے سے اسماعیل بن رافع کی روایت سے ضعیف ہے، بعض محدثین نے اسماعیل بن رافع کی تضعیف کی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: اسماعیل ثقہ ہیں، مقارب الحدیث ہیں، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے، ۳- سلمان کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن منکدر نے سلمان کو نہیں پایا ہے، یہ حدیث «عن أيوب بن موسى عن مكحول عن شرحبيل بن السمط عن سلمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجہاد 5 (2763)، (تحفة الأشراف: 12554) (ضعیف) (اس کے راوی اسماعیل بن رافع کا حافظہ کمزور تھا)»
وضاحت: ۱؎: جہاد کی نشانیاں مثلاً زخم، اس کی راہ کا گرد و غبار، تھکان، جہاد کے لیے مال و اسباب کی فراہمی اور مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنا، ان میں سے اس شخص کے ساتھ اگر کوئی چیز نہیں ہے تو رب العالمین سے اس کی ملاقات کامل نہیں سمجھی جائے گی، بلکہ اس میں نقص و عیب ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2763) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (605)، المشكاة (3835)، ضعيف الجامع الصغير (5833) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1666) إسناده ضعيف / جه 2763 إسماعيل بن رافع: ضعيف الحفظ (تق:442) وقال الھيثمي: وضعفه جمھور الأئمة (مجمع الزوئد 61/8)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا هشام بن عبد الملك، حدثنا الليث بن سعد، حدثني ابو عقيل زهرة بن معبد، عن ابي صالح مولى عثمان، قال: سمعت عثمان وهو على المنبر، يقول: إني كتمتكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم كراهية تفرقكم عني، ثم بدا لي ان احدثكموه ليختار امرؤ لنفسه ما بدا له، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " رباط يوم في سبيل الله، خير من الف يوم فيما سواه من المنازل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وقال محمد بن إسماعيل: ابو صالح مولى عثمان اسمه: تركان.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عُثْمَانَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: إِنِّي كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَنَازِلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: أَبُو صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ اسْمُهُ: تُرْكَانُ.
ابوصالح مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ میں نے منبر پر عثمان رضی الله عنہ کو کہتے سنا: میں نے تم لوگوں سے ایک حدیث چھپا لی تھی جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس ڈر کی وجہ سے کہ تم مجھ سے جدا ہو جاؤ گے ۱؎ پھر میری سمجھ میں آیا کہ میں تم لوگوں سے اسے بیان کر دوں تاکہ ہر آدمی اپنے لیے وہی چیز اختیار کرے جو اس کی سمجھ میں آئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی پاسبانی کرنا دوسری جگہوں کے ایک ہزار دن کی پاسبانی سے بہتر ہے“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كذب علي حسبت انه قال: متعمدا فليتبوا بيته من النار " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه من حديث الزهري، عن انس، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتَهُ مِنَ النَّارِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی“، (انس کہتے ہیں) میرا خیال ہے کہ آپ نے «من كذب علي» کے بعد «متعمدا» کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، ”تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔