انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ کلاب کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اسے منع کر دیا، پھر اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مادہ پر نر چھوڑتے ہیں تو ہمیں بخشش دی جاتی ہے (تو اس کا حکم کیا ہے؟) آپ نے اسے بخشش لینے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف ابراہیم بن حمید ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي مسعود الانصاري، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن". قال: وفي الباب، عن رافع بن خديج، وابي جحيفة، وابي هريرة، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابي مسعود حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی مٹھائی ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں رافع بن خدیج، ابوجحیفہ، ابوہریرہ، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 113 (2237)، والاجارة 20 (2282)، والطلاق 51 (5346)، والطب 46 (5761)، صحیح مسلم/المساقاة 9 (البیوع 30)، (1567)، سنن ابی داود/ البیوع 41 (3428)، و 65 (3481)، سنن النسائی/الصید والذبائح 15 (4297)، البیوع 91 (4670)، سنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2159)، (تحفة الأشراف: 10010 و موطا امام مالک/البیوع 29 (68)، مسند احمد (1/118، 120، 140، 141) ویأتي عند المؤلف في البیوع 46 (1276)، والطب 24 (2071) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
۲؎: چونکہ زنا کبیرہ گناہ اور فحش امور میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔
۳؎: علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، وابو عمار، قالا: حدثنا إسماعيل بن علية، قال: اخبرنا علي بن الحكم، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل ". قال: وفي الباب، عن ابي هريرة، وانس، وابي سعيد. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وقد رخص بعضهم في قبول الكرامة على ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي قَبُولِ الْكَرَامَةِ عَلَى ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کام پر بخشش قبول کرنے کی اجازت دی ہے، جمہور کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
وضاحت: ۱؎: چونکہ مادہ کا حاملہ ہونا قطعی نہیں ہے، حمل قرار پانے اور نہ پانے دونوں کا شبہ ہے اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن يحيى بن ابي كثير، عن إبراهيم بن عبد الله بن قارظ، عن السائب بن يزيد، عن رافع بن خديج، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " كسب الحجام خبيث، ومهر البغي خبيث، وثمن الكلب خبيث ". قال: وفي الباب، عن عمر، وعلي، وابن مسعود، وابي مسعود، وجابر، وابي هريرة، وابن عباس، وابن عمر، وعبد الله بن جعفر. قال ابو عيسى: حديث رافع حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، كرهوا ثمن الكلب، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد رخص بعض اهل العلم في ثمن كلب الصيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ، وَمَهْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ، وَثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا ثَمَنَ الْكَلْبِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے ۱؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ۲؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے“۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، ابن مسعود، ابومسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کتے کی قیمت کو ناجائز جانا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ اور بعض اہل علم نے شکاری کتے کی قیمت کی اجازت دی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 9 (البیوع 30)، (1568)، سنن ابی داود/ البیوع 39 (3421)، سنن النسائی/الذبائح 15 (4299)، تحفة الأشراف: 3555)، و مسند احمد (3/464، 465)، و 4/141) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «كسب الحجام خبيث» میں «خبيث» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیرشریفانہ ہونے کے معنی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ نے خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی، لہذا پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق خبیث کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے لہسن اور پیاز کو خبیث کہا باوجود یہ کہ ان دونوں کااستعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیرشریفانہ ہے۔ یہاں «خبيث» بمعنی حرام ہے۔ ۲؎: چونکہ زنا فحش امور اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد ہو۔ ۳؎: کتا چونکہ نجس اور ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الا یہ کہ کسی شدید ضرورت سے ہو مثلاً گھر جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ پھر بھی قیمت لینا گھٹیا کام ہے، ہدیہ کر دینا چاہیے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، وعلي بن خشرم، قالا: انبانا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، والسنور ". قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده اضطراب، ولا يصح في ثمن السنور. وقد روي هذا الحديث، عن الاعمش، عن بعض اصحابه، عن جابر واضطربوا على الاعمش في رواية هذا الحديث، وقد كره قوم من اهل العلم ثمن الهر، ورخص فيه بعضهم، وهو قول: احمد، وإسحاق، وروى ابن فضيل، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَالسِّنَّوْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ جَابِرٍ وَاضْطَرَبُوا عَلَى الْأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْهِرِّ، وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَوَى ابْنُ فُضَيْلٍ، عنْ الْأَعْمَشِ، عنْ أَبِي حَازِمٍ، عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے، ۲- یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکار ہیں، ۳- اور ابن فضل نے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بطریق: «الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۴- اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائز کہا ہے، ۵- اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 64 (3479) (تحفة الأشراف: 2309) و انظر أیضا ما عند صحیح مسلم/المساقاة 9 (1569)، وسنن النسائی/الذبائح 61 (4300)، وسنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2161)، و مسند احمد (3/339) (صحیح)»
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1133، 1276 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: غیب کا علم صرف رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اسی لیے اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل اور غلط طریقے سے جو مال لوگوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ حرام ہے، زنا معصیت اور فحش کے اعمال میں سے سب سے بدترین عمل ہے، اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت ناپاک اور حرام ہے، کتا ایک نجس جانور ہے اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ جس برتن میں یہ منہ ڈال دے شریعت نے اسے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے، اسی لیے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، سوائے اس کے کہ گھر، جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔