سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
45. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ عَسْبِ الْفَحْلِ
باب: نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1273
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي قَبُولِ الْكَرَامَةِ عَلَى ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کام پر بخشش قبول کرنے کی اجازت دی ہے، جمہور کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإجارة 21 (2284)، سنن ابی داود/ البیوع 42 (3429)، سنن النسائی/البیوع 94 (4675)، (تحفة الأشراف: 8233)، و مسند احمد (2/4) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ مادہ کا حاملہ ہونا قطعی نہیں ہے، حمل قرار پانے اور نہ پانے دونوں کا شبہ ہے اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1273 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1273
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ مادہ کا حاملہ ہونا قطعی نہیں ہے،
حمل قرارپانے اور نہ پانے دونوں کا شبہ ہے اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1273
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3429
´نر سے جفتی کرانے کی اجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3429]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
مویشی پالنے والے جانتے ہیں۔
کہ چراگاہوں میں ریوڑوں کے ریوڑ چرتے پھرتے ہیں اور فطری طریقے پر جانوروں کا ملاپ ہوتا رہتا ہے۔
اس عمل کی اجرت یا قیمت نہ طے ہوسکتی ہے، نہ اس کی اجرت وصول کرنے کی غرض سے جانوروں کو فطری ملاپ سے روکنا روا ہے۔
حدیث مبارک مادہ جانوروں کا حق ہے۔
کہ نر جانور ان سے ملاپ کریں۔
(صحیح مسلم، حدیث: 988) اسی چیز پردلالت کرتی ہے۔
رسول اللہﷺنے اس قیمت پر یا اجرت طلب کرنے پر منع فرمایا ہے۔
البتہ ایک صحابی نے جب اصرار سے پوچھا کہ ہم جب (طلب کرنے پر) اپنا نر جانور لے جاتے ہیں۔
تو وہاں ہمارا اکرام کیا جاتا ہے۔
اور کچھ نہ کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔
تو آپﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔
اس اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدہ خریدوفروخت سے ہٹ کر جانور رکھنے والوں کی سہولت کےلئے لین دین کا جو رواج موجود ہے۔
اسے ختم کرکے سسٹم کو خراب کرنا مقصود نہیں۔
چراگاہوں کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر بعض اوقات نرجانور آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتے۔
اس صورت کو سامنے رکھ کر امام مالک نے نسل کے زیاں سے بچنے کےلئے اس کی اجازت دی ہے۔
(فتح الباري:582/4) جب سے جانوروں کے مالکوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دودھ وغیرہ کے حصول کےلئے اچھی نسل کے جانوروں کی پیدائش ضروری ہے۔
تو اچھی نسل کے نروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔
بلکہ اب تو مصنوعی نسل کشی کا جدید طریقہ رائج ہوگیا ہے۔
اب اچھی نسل کے نراسی غرض سے پالے جاتے ہیں۔
ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔
اور ان سے حاصل ہونے والے مادے سے مصنوعی طور پر نسل کشی کی جاتی ہے۔
اگر اس کےلئے باقاعدہ قیمت یا اجرت کا تعین کرنے کی بجائے اکرام کے تحت لین دین کا طریقہ رائج ہوجائے۔
تو شرعا اس پراعتراض نہیں ہوگا۔
قدیم فقہاء اور مفسرین نے ملاپ کے عمل پر اجرت یا قیمت نہ لینے کی یہ وجہ ذکر کی ہے۔
کہ جس چیز کی اجرت لی جا رہی ہے۔
اس کی نہ مقدار کا تعین ہوسکتا ہے۔
نہ اس کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔
اس لئے یہ غیر معلوم اور غیر معلوم اور غیر یقینی چیز کی اجرت ہوگی۔
جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
اگر حرمت کی یہ وجہ صحیح تسلیم کرلی جائے۔
تو مصنوعی طریقوں کی وجہ سے اب یہ غیر معلوم اور غیر یقینی چیز نہیں رہی۔
جدید تکنیک کے ذریعے سے باقاعدہ متعین مقدار میں نر جانور کا مواد مادہ جانور کے رحم میں داخل کردیا جاتا ہے۔
اس طرح تو اجرت کا بھی جواز پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے۔
کہ خود مصنوعی نسل کشی شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے جواز پر تابیر (کھجور کے پھل دینے والے درختوں پر نرکھجور کا بورلاکر ڈالنا) کی حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو پیداوارحاصل کرنے کے اس مصنوعی طریقے کو آپ نے فطری طورپر ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا لیکن جب معلوم ہوا کہ اس سے کھجوروں کی پیدا وار کم ہوگئی ہے۔
تو آپ نے باقاعدہ اس کی اجازت دے دی۔
اس حدیث کی رو سے نرکا مواد مصنوعی طریقے سے مادہ تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے کی اجازت موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان تجارتی طریقوں کی بجائے فطری طریقوں کورائج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ رفاہ عامہ کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں تاکہ فطری طریقوں سے اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں اور لوگ تجارتی بنیادوں پراس کا انتطام کرنے کی مجبوری سے بچ جایئں۔
رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے حق کے حوالے سے جو اشارہ فرمایا ہے۔
وہ رفق بالحیوانات (جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنا) کی بہترین مثال ہے۔
ان حقوق کو پورا کرنے کی بھی یہی صورت ہے کہ حکومتیں بڑے پیمانے پر اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3429
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2284
2284. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی ﷺ نے جفتی کرانے کا معاوضہ لینے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2284]
حدیث حاشیہ:
اس کی صورت یہ ہے کہ ایک ریوڑ والا اپنی ضرورت کے پیش نظر دوسرے ریوڑ والے سے سانڈ مانگے اور وہ اجرت لیے بغیر سانڈ نہ دے بلکہ اس پر کرایہ وصول کرے، اجارے کی یہ صورت ناجائز اور حرام ہے۔
ہاں،عاریتاً نر جانور کا دینا جائز ہے کیونکہ اسے بھی ناجائز قرار دیا جائے تو اس سے نسل ختم ہونے کا اندیشہ ہے، اسی طرح اگر مادہ والا غیر مشروط طور پر نر والے کو ہدیہ کے طور پر کچھ دے تو اس کے لینے میں کوئی قباحت نہیں، البتہ جفتی کرانے کا کرایہ وصول کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے معلوم نہیں کہ مادہ جفتی سے بار آور ہوتی ہے یا نہیں،نیز حیوان کا نطفہ کوئی قیمتی چیز نہیں اور نہ اس کا دینا کسی کے بس میں ہے۔
(فتح الباري: 582/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2284