سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
40. بَابُ : الاِئْتِمَامِ بِالإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا
40. باب: امام بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔
Chapter: Following an Imam who prays sitting down
حدیث نمبر: 834
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: جاء بلال يؤذنه بالصلاة فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" قالت: قلت يا رسول الله إن ابا بكر رجل اسيف وإنه متى يقوم في مقامك لا يسمع الناس فلو امرت عمر، فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" فقلت لحفصة قولي له فقالت: له فقال: إنكن لانتن صواحبات يوسف مروا ابا بكر فليصل بالناس قالت فامروا ابا بكر فلما دخل في الصلاة وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم من نفسه خفة قالت: فقام يهادى بين رجلين ورجلاه تخطان في الارض فلما دخل المسجد سمع ابو بكر حسه فذهب ليتاخر فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان قم كما انت قالت فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قام عن يسار ابي بكر جالسا فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس جالسا وابو بكر قائما يقتدي ابو بكر برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يقتدون بصلاة ابي بكر رضي الله عنه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قالت: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ فِي مَقَامِكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ فَقَالَتْ: لَهُ فَقَالَ: إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً قَالَتْ: فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ فَذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ قُمْ كَمَا أَنْتَ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ جَالِسًا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سنا سکیں گے ۱؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تو میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۲؎، ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر نماز میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو، ام المؤمنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 39 (664)، 67 (712)، 68 (713)، صحیح مسلم/الصلاة 21 (418)، سنن ابن ماجہ/إقامة 142 (1232)، (تحفة الأشراف: 15945)، مسند احمد 6/34، 96، 97، 210، 224، 228، 249، 251، سنن الدارمی/المقدمة 14 (82) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر ایسی رقت طاری ہو جائے گی کہ وہ رونے لگیں گے، اور قرأت نہیں کر سکیں گے۔ ۲؎: اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، جیسے قرآن میں صرف «امرأۃ العزیز» مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ «عائشہ امرأۃ العزیز» کی طرح دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھیں، اور اظہار کسی اور بات کا کر رہی تھیں، وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ کی وفات ہو گئی تو لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو منحوس سمجھیں گے، اس لیے بہانہ بنا رہی تھیں رقیق القلبی کا، ایک موقع پر انہوں نے یہ بات ظاہر بھی کر دی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 778
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، وهناد بن السري، عن حسين بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله، قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت الانصار: منا امير ومنكم امير فاتاهم عمر، فقال: الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد" امر ابا بكر ان يصلي بالناس فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر قالوا نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قالتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَأَتَاهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10587)، مسند احمد 1/396، 405 (حسن الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لیے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ ۲؎: اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق «اقرأکم أبی» فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقدم کیا۔ ۳؎: اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 787
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا بكر بن عيسى صاحب البصرى، قال: سمعت شعبة يذكر، عن نعيم بن ابي هند، عن ابي وائل، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها" ان ابا بكر صلى للناس ورسول الله صلى الله عليه وسلم في الصف".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى صَاحِبُ الْبُصْرَى، قال: سَمِعْتُ شُعْبَةَ يَذْكُرُ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ صَلَّى لِلنَّاسِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّفِّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 152 (362)، (تحفة الأشراف: 17612)، مسند احمد 6/159 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 794
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عبدة، عن حماد بن زيد، ثم ذكر كلمة معناها قال: حدثنا ابو حازم، قال سهل بن سعد كان قتال بين بني عمرو بن عوف فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فصلى الظهر ثم اتاهم ليصلح بينهم ثم قال لبلال:" يا بلال، إذا حضر العصر ولم آت فمر ابا بكر فليصل بالناس" فلما حضرت اذن بلال، ثم اقام فقال لابي بكر رضي الله عنه تقدم فتقدم ابو بكر فدخل في الصلاة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم: فجعل يشق الناس حتى قام خلف ابي بكر وصفح القوم وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت فلما راى ابو بكر التصفيح لا يمسك عنه التفت فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده فحمد الله عز وجل على قول رسول الله صلى الله عليه وسلم له امضه، ثم مشى ابو بكر القهقرى على عقبيه فتاخر فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم تقدم فصلى بالناس فلما قضى صلاته قال:" يا ابا بكر ما منعك إذ اومات إليك ان لا تكون مضيت"، فقال: لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال للناس:" إذا نابكم شيء فليسبح الرجال النساء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا قال: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قال سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ قَالَ لِبِلَالٍ:" يَا بِلَالُ، إِذَا حَضَرَ الْعَصْرُ وَلَمْ آتِ فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" فَلَمَّا حَضَرَتْ أَذَّنَ بِلَالٌ، ثُمَّ أَقَامَ فَقَالَ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَقَدَّمْ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَدَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَجَعَلَ يَشُقُّ النَّاسَ حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ وَصَفَّحَ الْقَوْمُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ فَلَمَّا رَأَى أَبُو بَكْرٍ التَّصْفِيحَ لَا يُمْسَكُ عَنْهُ الْتَفَتَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ امْضِهْ، ثُمَّ مَشَى أَبُو بَكْرٍ الْقَهْقَرَى عَلَى عَقِبَيْهِ فَتَأَخَّرَ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقَدَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ لَا تَكُونَ مَضَيْتَ"، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ لِلنَّاسِ:" إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ النِّسَاءُ".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں آپس میں لڑائی ہوئی، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر ان کے پاس آئے تاکہ ان میں صلح کرا دیں، اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بلال! جب عصر کا وقت آ جائے اور میں نہ آ سکوں تو ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ جب عصر کا وقت آیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آگے بڑھیے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور نماز پڑھانے لگے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور لوگوں کو چیرتے ہوئے آگے آئے ۱؎ یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے، تو لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ جب وہ نماز شروع کر دیتے تو کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوتے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ برابر تالی بج رہی ہے تو وہ متوجہ ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تم نماز جاری رکھو، تو اس بات پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ اپنی ایڑیوں کے بل الٹے چل کر پیچھے آ گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ نے آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر جب اپنی نماز پوری کر چکے تو آپ نے فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ تو انہوں نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: جب تمہیں نماز کے اندر کوئی بات پیش آ جائے، تو مرد سبحان اللہ کہیں، اور عورتیں تالی بجائیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأحکام 36 (7190)، سنن ابی داود/الصلاة 173 (941)، مسند احمد 5/332، سنن الدارمی/الصلاة 95 (1404)، تحفة الأشراف: 4669) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صفوں کو چیر کر اندر داخل ہونا درست نہیں، پھر یا تو امام کے لیے یہ جائز ہو، یا پھر آپ نے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھی ہو اُسے پُر کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 798
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثني ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن موسى بن ابي عائشة، قال: سمعت عبيد الله بن عبد الله يحدث، عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" امر ابا بكر ان يصلي بالناس قالت وكان النبي صلى الله عليه وسلم بين يدي ابي بكر فصلى قاعدا وابو بكر يصلي بالناس والناس خلف ابي بكر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو دَاوُدَ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قال: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ قَالَتْ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّى قَاعِدًا وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ وَالنَّاسُ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16319) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 835
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا العباس بن عبد العظيم العنبري، قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، قال: حدثنا زائدة، عن موسى بن ابي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله قال: دخلت على عائشة فقلت: الا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اصلى الناس" فقلنا: لا وهم ينتظرونك يا رسول الله فقال:" ضعوا لي ماء في المخضب" ففعلنا فاغتسل ثم ذهب لينوء فاغمي عليه، ثم افاق فقال:" اصلى الناس" قلنا: لا هم ينتظرونك يا رسول الله فقال:" ضعوا لي ماء في المخضب" ففعلنا فاغتسل، ثم ذهب لينوء، ثم اغمي عليه، ثم قال: في الثالثة مثل قوله قالت: والناس عكوف في المسجد ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر ان صل بالناس فجاءه الرسول فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك ان تصلي بالناس وكان ابو بكر رجلا رقيقا فقال: يا عمر صل بالناس فقال: انت احق بذلك فصلى بهم ابو بكر تلك الايام، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فجاء يهادى بين رجلين احدهما العباس لصلاة الظهر فلما رآه ابو بكر ذهب ليتاخر فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا يتاخر وامرهما فاجلساه إلى جنبه فجعل ابو بكر يصلي قائما والناس يصلون بصلاة ابي بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا فدخلت على ابن عباس فقلت الا اعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نعم فحدثته فما انكر منه شيئا غير انه قال اسمت لك الرجل الذي كان مع العباس قلت: لا، قال: هو علي كرم الله وجهه.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قال: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ" فَقُلْنَا: لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ" فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ" قُلْنَا: لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ" فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ قَوْلِهِ قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ صَلِّ بِالنَّاسِ فَجَاءَهُ الرَّسُولُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا فَقَالَ: يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَجَاءَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَأَمَرَهُمَا فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ فَحَدَّثْتُهُ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ.
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بیہوش ہو گئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر رضی اللہ عنہ سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چنانچہ ان ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے) نماز ظہر کے لیے آئے، تو جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ (عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا: کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 51 (687)، صحیح مسلم/الصلاة 21 (418)، (تحفة الأشراف: 16317)، مسند احمد 2/52، 6/249، 251، سنن الدارمی/الصلاة 44 (1292) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 1819
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا هارون بن عبد الله، حدثنا معن، قال: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يتمنين احد منكم الموت إما محسنا فلعله ان يزداد خيرا , وإما مسيئا فلعله ان يستعتب".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمُ الْمَوْتَ إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ خَيْرًا , وَإِمَّا مُسِيئًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو و تمنا نہ کرے، (کیونکہ) یا تو وہ نیک ہو گا تو ہو سکتا ہے زیادہ نیکی کرے، یا برا ہو گا تو ہو سکتا ہے وہ برائی سے توبہ کر لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14117)، مسند احمد 2/236 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس لیے زندہ رہنا ہی اس کے لیے بہتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.