(مرفوع) قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع: عن ابن القاسم , قال: حدثني مالك , عن ثور بن زيد , عن ابي الغيث مولى ابن مطيع , عن ابي هريرة , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر , فلم نغنم إلا الاموال , والمتاع , والثياب , فاهدى رجل من بني الضبيب يقال له: رفاعة بن زيد لرسول الله صلى الله عليه وسلم غلاما اسود يقال له مدعم فوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى وادي القرى , حتى إذا كنا بوادي القرى بينا مدعم يحط رحل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاءه سهم فاصابه فقتله , فقال الناس: هنيئا لك الجنة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلا والذي نفسي بيده , إن الشملة التي اخذها يوم خيبر , من المغانم , لتشتعل عليه نارا". فلما سمع الناس بذلك , جاء رجل بشراك , او بشراكين , إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" شراك او شراكان من نار". (مرفوع) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ , فَلَمْ نَغْنَمْ إِلَّا الْأَمْوَالَ , وَالْمَتَاعَ , وَالثِّيَابَ , فَأَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ يُقَالُ لَهُ: رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ فَوُجِّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى , حَتَّى إِذَا كُنَّا بِوَادِي الْقُرَى بَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَهُ سَهْمٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ , فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ , مِنَ الْمَغَانِمِ , لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا". فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ , جَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ , أَوْ بِشِرَاكَيْنِ , إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمیں مال ۱؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تیر آ کر اسے لگا اور اسے قتل کر ڈالا، لوگوں نے کہا کہ تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کملی جو اس نے غنیمت کے مال سے خیبر کے روز لے لی تھی (اور مال تقسیم نہ ہوا تھا) اس کے سر پر آگ بن کر دہک رہی ہے“۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چمڑے کا ایک یا دو تسمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں“۔
وضاحت: ۱؎: اسی لفظ میں باب سے مطابقت ہے، کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اموال کے لفظ سے زمینیں (آراضی) مراد لی ہیں (خیبر میں زیادہ زمینیں مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف ”مال“ کی نذر مانے تو اس مال میں زمین بھی داخل گی۔
زید بن خالد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص خیبر میں مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، اس نے اللہ کی راہ میں چوری کی ہے“، تو (جب) ہم نے اس کے اسباب کی تلاشی لی تو ہمیں اس میں یہود کے نگینوں میں سے کچھ نگینے ملے، جو دو درہم کے برابر بھی نہیں تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجھاد 143 (2710)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 34 (2848)، (تحفة الأشراف: 3767)، موطا امام مالک/الجھاد 13 (23)، مسند احمد 4/114 و 5/192 (ضعیف) (اس کے راوی ”ابو عمرہ‘‘ لین الحدیث ہیں، اور موطا میں یہ سند سے ساقط ہیں، کما حررہ ابن عبدالبر)»