ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گیہوں اور کھجور میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ وسق کو پہنچ جائے، اسی طرح چاندی میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ اوقیہ کو پہنچ جائے۔ اور اونٹ میں زکاۃ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ پانچ کی تعداد کو پہنچ جائیں“۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ذی الحجہ کے پہلے) عشرہ میں روزے رکھتے تھے، اور ہر مہینہ میں تین دن: دوشنبہ (پیر) اور (دو) جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (صحیح) (’’الخمیسین‘‘ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا بهز بن حكيم، قال: حدثني ابي، عن جدي، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" في كل إبل سائمة في كل اربعين ابنة لبون، لا يفرق إبل عن حسابها، من اعطاها مؤتجرا فله اجرها، ومن ابى فإنا آخذوها وشطر إبله عزمة من عزمات ربنا، لا يحل لآل محمد صلى الله عليه وسلم منها شيء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ أَبَى فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ إِبِلِهِ عَزْمَةٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا، لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا شَيْءٌ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”چرائے جانے والے ہر چالیس اونٹ میں ایک بنت لبون ۱؎ ہے، اونٹوں کو (زکاۃ سے بچنے کے لیے) ان کے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو شخص زکاۃ دینے سے انکار کرے گا تو ہم زکاۃ بھی لیں گے اور بطور سزا اس کے آدھے اونٹ بھی لے لیں گے، یہ ہمارے رب کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے۔ اس میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے کوئی چیز جائز نہیں ہے“۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تقریباً ساڑھے سات کوئنٹل بنتا ہے۔ ۲؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم کا ہوا، اور دو سو درہم موجودہ وزن کے اعتبار سے ۸۵ گرام بنتا ہے۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا المظفر بن مدرك ابو كامل، قال: حدثنا حماد بن سلمة، قال: اخذت هذا الكتاب من ثمامة بن عبد الله بن انس بن مالك، عن انس بن مالك، ان ابا بكر كتب لهم:" إن هذه فرائض الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين التي امر الله عز وجل بها رسوله صلى الله عليه وسلم، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعط، ومن سئل فوق ذلك فلا يعط، فيما دون خمس وعشرين من الإبل، في كل خمس ذود شاة، فإذا بلغت خمسا وعشرين، ففيها بنت مخاض إلى خمس وثلاثين، فإن لم تكن بنت مخاض، فابن لبون ذكر، فإذا بلغت ستا وثلاثين، ففيها بنت لبون إلى خمس واربعين، فإذا بلغت ستة واربعين، ففيها حقة طروقة الفحل إلى ستين، فإذا بلغت إحدى وستين، ففيها جذعة إلى خمس وسبعين، فإذا بلغت ستا وسبعين، ففيها بنتا لبون إلى تسعين، فإذا بلغت إحدى وتسعين، ففيها حقتان طروقتا الفحل إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة، ففي كل اربعين بنت لبون، وفي كل خمسين حقة، فإذا تباين اسنان الإبل في فرائض الصدقات، فمن بلغت عنده صدقة الجذعة، وليست عنده جذعة وعنده حقة، فإنها تقبل منه الحقة، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة، وليست عنده حقة وعنده جذعة، فإنها تقبل منه، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين إن استيسرتا له، ومن بلغت عنده صدقة الحقة، وليست عنده، وعنده بنت لبون، فإنها تقبل منه، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة ابنة لبون، وليست عنده إلا حقة فإنها تقبل منه، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة ابنة لبون، وليست عنده بنت لبون، وعنده بنت مخاض، فإنها تقبل منه، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة ابنة مخاض، وليس عنده إلا ابن لبون ذكر، فإنه يقبل منه وليس معه شيء، ومن لم يكن عنده إلا اربع من الإبل، فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت اربعين، ففيها شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت واحدة، ففيها شاتان إلى مائتين، فإذا زادت واحدة، ففيها ثلاث شياه إلى ثلاث مائة، فإذا زادت ففي كل مائة شاة، ولا يؤخذ في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار، ولا تيس الغنم إلا ان يشاء المصدق، ولا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من اربعين شاة واحدة، فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر، فإن لم تكن إلا تسعين ومائة درهم، فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُظَفَّرُ بْنُ مُدْرِكٍ أَبُو كَامِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخَذْتُ هَذَا الْكِتَابَ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَ لَهُمْ:" إِنَّ هَذِهِ فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِ، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَ ذَلِكَ فَلَا يُعْطِ، فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ، فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَأَرْبَعِينَ، فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ، فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ، فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ، وَعِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، وَعِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمَا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ، وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الْإِبِلِ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ، فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةٌ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةَ دِرْهَمٍ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے: پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے، اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے، اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو چھیالیس سے ساٹھ اونٹ تک میں تین برس کی اونٹنی (یعنی جو ان اونٹنی جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو) ہے، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اکسٹھ سے پچہتر اونٹوں تک میں چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو چھہتر سے نوے اونٹوں تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس اونٹوں تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کے کودانے کے قابل ہو گئی ہوں۔ اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی ایک اونٹنی۔ اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے، اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (یعنی زکاۃ کے لائق اونٹ نہ ہو، اس سے بڑا یا چھوٹا ہو) مثلاً جس شخص پر چار برس کی اونٹنی لازم ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو، تین برس کی اونٹنی ہو۔ تو تین برس کی اونٹنی ہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور وہ ساتھ میں دو بکریاں بھی دے۔ اگر اسے بکریاں دینے میں آسانی و سہولت ہو، اور اگر دو بکریاں نہ دے سکتا ہو تو بیس درہم دے۔ اور جس شخص کو تین برس کی اونٹنی دینی پڑ رہی ہو، اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی نہ ہو، چار برس کی اونٹنی ہو تو چار برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی۔ اور عامل صدقہ (یعنی زکاۃ وصول کرنے والا) اسے بیس درہم واپس کرے گا۔ یا اسے بکریاں دینے میں آسانی ہو تو دو بکریاں دے۔ اور جس کو تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور تین برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں اور دے، اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کو دو برس کی اونٹنی دینی ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو سال کی اونٹنی زکاۃ میں دینی ہو، اور دو سال کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو ایک سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے، اور اس کے ساتھ وہ دو بکریاں دے اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کے اوپر ایک برس کی اونٹنی دینی لازم ہو، اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) اونٹ ہو، تو دو برس کا اونٹ قبول کر لیا جائے۔ (اس کے ساتھ کچھ مزید لینا دینا نہیں ہو گا) اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرائی جانے والی بکریاں جب چالیس ہوں تو ان میں ایک سو بیس بکریوں تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر ایک سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں کوئی بوڑھا، کانا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا، اور نہ بکریوں کا نر جانور لیا جائے گا مگر یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کوئی ضرورت و مصلحت سے مجھے تو لے سکتا ہے، زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مالوں کو یکجا نہیں کیا جا سکتا ۱؎ اور نہ یکجا مال کو جدا جدا ۲؎ اور جب آدمی کی چرائی جانے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تودے سکتا ہے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے، اور اگر ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کوئی زکاۃ نہیں۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور زکاۃ کے محصلین دونوں کے لیے ہے، اس کی تفسیر یہ ہے: مثلاً تین آدمیوں کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، تو اس صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری واجب ہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان تینوں نے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کر دیا کہ ایک ہی بکری دینی پڑے، ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر تین متفرق لوگوں کے پاس انتالیس انتالیس بکریاں ہوں تو ان پر الگ الگ کوئی زکاۃ نہیں، تو عامل ان کو زکاۃ لینے کے لیے یکجا نہ کر دے کہ ایک بکری زکاۃ میں لے لے۔ ۲؎: اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک، ایک سو ایک، بکریاں ہیں، تو کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریاں لازم آتی ہیں، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ ایک ہی ایک بکری لازم آئے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، نیز اسی طرح اگر تین ساجھے داروں کے پاس ساجھا میں ایک سو بیس کی بکریاں ہوں تو اس مجموعہ پر صرف ایک بکری واجب ہو گی، تو عامل زکاۃ لینے کے لیے ان بکریوں کو تین الگ الگ حصوں میں نہ کر دے کہ تین بکریاں لے لے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا معتمر، قال: سمعت بهز بن حكيم يحدث، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" في كل إبل سائمة من كل اربعين ابنة لبون، لا تفرق إبل عن حسابها من اعطاها مؤتجرا له اجرها، ومن منعها فإنا آخذوها، وشطر إبله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد صلى الله عليه وسلم منها شيء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ بَهْزَ بْنَ حَكِيمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا تُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا لَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا آخِذُوهَا، وَشَطْرَ إِبِلِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا شَيْءٌ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ہر چرنے والے چالیس اونٹوں میں دو برس کی اونٹنی ہے۔ اونٹ اپنے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کئے جائیں، جو ثواب کی امید رکھ کر انہیں دے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو دینے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے اسے لے کر رہیں گے، مزید اس کے آدھے اونٹ اور لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے تاکیدی حکموں میں سے ایک حکم ہے، محمد کے آل کے لیے اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا مفضل وهو ابن مهلهل , عن الاعمش، عن شقيق، عن مسروق، عن معاذ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , بعثه إلى اليمن وامره ان ياخذ من كل حالم دينارا او عدله معافر، ومن البقر من ثلاثين تبيعا او تبيعة، ومن كل اربعين مسنة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ وَهُوَ ابْنُ مُهَلْهَلٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ وَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ، وَمِنَ الْبَقَرِ مِنْ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر بالغ شخص سے ایک دینار (جزیہ) لیں یا اتنی قیمت کی یمنی چادریں، اور ہر تیس گائے بیل میں ایک برس کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے اور بیل میں دو برس کی ایک گائے۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن حرب، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن مسروق، عن معاذ، قال: لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن،" امره ان ياخذ من كل ثلاثين من البقر تبيعا او تبيعة، ومن كل اربعين مسنة، من كل حالم دينارا او عدله معافر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ،" أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، َمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ ہر تیس گائے بیل میں ایک سال کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی بچھیا۔ اور ہر بالغ سے (جزیہ میں) ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کی یمنی چادر۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2452 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1578) ترمذي (623) ابن ماجه (1803) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن فضالة بن إبراهيم النسائي، قال: انبانا شريح بن النعمان، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثمامة بن عبد الله بن انس بن مالك، عن انس بن مالك، ان ابا بكر رضي الله عنه كتب له:" ان هذه فرائض الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين، التي امر الله بها رسوله صلى الله عليه وسلم، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعطه، فيما دون خمس وعشرين من الإبل، في خمس ذود شاة، فإذا بلغت خمسا وعشرين، ففيها بنت مخاض إلى خمس وثلاثين، فإن لم تكن ابنة مخاض، فابن لبون ذكر، فإذا بلغت ستة وثلاثين، ففيها بنت لبون إلى خمس واربعين، فإذا بلغت ستة واربعين، ففيها حقة طروقة الفحل إلى ستين، فإذا بلغت إحدى وستين، ففيها جذعة إلى خمسة وسبعين، فإذا بلغت ستة وسبعين، ففيها ابنتا لبون إلى تسعين، فإذا بلغت إحدى وتسعين، ففيها حقتان طروقتا الفحل إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة، ففي كل اربعين ابنة لبون، وفي كل خمسين حقة، فإذا تباين اسنان الإبل في فرائض الصدقات، فمن بلغت عنده صدقة الجذعة، وليست عنده جذعة وعنده حقة، فإنها تقبل منه الحقة، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة، وليست عنده إلا جذعة، فإنها تقبل منه، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة الحقة، وليست عنده، وعنده ابنة لبون، فإنها تقبل منه، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون، وليست عنده إلا حقة فإنها تقبل منه، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون، وليست عنده بنت لبون، وعنده بنت مخاض، فإنها تقبل منه، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة ابنة مخاض، وليست عنده إلا ابن لبون ذكر، فإنه يقبل منه وليس معه شيء، ومن لم يكن عنده إلا اربعة من الإبل، فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت اربعين، ففيها شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت واحدة، ففيها شاتان إلى مائتين، فإذا زادت واحدة، ففيها ثلاث شياه إلى ثلاث مائة، فإذا زادت واحدة ففي كل مائة شاة، ولا تؤخذ في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار، ولا تيس الغنم إلا ان يشاء المصدق، ولا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، وإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من اربعين شاة واحدة، فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر، فإن لم يكن المال إلا تسعين ومائة، فليس فيه شيء إلا ان يشاء ربها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّسَائِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ:" أَنَّ هَذِهِ فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ، فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ، فِي خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَثَلَاثِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَأَرْبَعِينَ، فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ، فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسَةٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَسَبْعِينَ، فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا جَذَعَةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ، وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، وَعِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ، فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَلَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، وَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةً، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً، فَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ لکھ کر دیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے۔ اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے۔ اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے۔ اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے، جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اس میں پچہتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو اس میں نوے تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کودانے کے قابل ہو گئی ہوں، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی ہے، اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے۔ اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو ۱؎(مثلاً) جس شخص پر چار برس کی اونٹنی کی زکاۃ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ میں دو بکریاں بھی دیدے۔ اگر وہ اسے میسر ہوں ورنہ بیس درہم دے۔ اور جسے زکاۃ میں تین برس کی اونٹنی دینی ہو۔ اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے گی، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم دے یا دو بکریاں واپس دیدے، اور جسے تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور یہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم دے، اور جسے زکاۃ میں دو سال کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس صرف تین سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور عامل زکاۃ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو برس کی اونٹنی دینی ہو، اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی نہ ہو صرف ایک برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور دو بکریاں دے اگر بکریاں اسے میسر ہوں بیس درہم دے۔ اور جسے ایک برس کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) کا اونٹ ہو، تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی اور چیز لی نہ جائے، اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرنے والی بکریوں میں جب چالیس ہوں تو ایک سو بیس تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں، اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں بوڑھے کانے اور عیب دار جانور نہیں لیے جائیں گے، اور نہ نر جانور لیا جائے گا الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کسی ضرورت و مصلحت سے لینا چاہے۔ زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مال یکجا نہ کئے جائیں، اور نہ یکجا مال کو جدا جدا کیا جائے۔ اور جب آدمی کی جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے، ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے اور اگر مال ایک سو نوے درہم ہی ہو تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2447 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم ہوا، جو موجودہ وزن کے حساب سے پانچ سو پنچانوے گرام بنتا ہے۔ ۲؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ وسق تین سو صاع کے برابر ہوا جو موجودہ وزن کے حساب سے چھ سو ترپن کیلو گرام بنتا ہے۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 42 (1459)، 56 (1484)، (تحفة الأشراف: 4106)، موطا امام مالک/الزکاة 1 (1)، مسند احمد (3/60) (صحیح)»
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے“۔
ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے“۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلہ میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ کھجور میں یہاں تک کہ یہ پانچ وسق ہو جائیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ ہے“۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ وسق سے کم غلہ میں زکاۃ ہے“۔