أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ فِي الْبُرِّ وَالتَّمْرِ زَكَاةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، وَلَا يَحِلُّ فِي الْوَرِقِ زَكَاةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوَاقٍ، وَلَا يَحِلُّ فِي إِبِلٍ زَكَاةٌ حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَ ذَوْدٍ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2486
اردو حاشہ:
یعنی مذکورہ مقادیر یا ان سے زائد میں زکاۃ واجب ہوگی، ان سے کم میں نہیں۔ اس سے زیادہ صریح روایت کیا ہوگی؟ مگر احناف پھر بھی غلے اور کھجور کے قلیل وکثیر میں زکاۃ کے وجوب کے قائل ہیں۔ وہ اس حدیث کے معنیٰ کرتے ہیں کہ حکومت نہیں لے گی۔ (یعنی قلیل میں)ُ البتہ مالک خود فقراء کو ادا کریں۔ مگر باقی دو، یعنی اونٹوں اور چاندی میں وہ اس مفہوم کے قائل نہیں، لہٰذا یہ مسلک درست نہیں۔ اور یوں زکاۃ کی ادائیگی کی دو شکلیں اختراع کرنا شریعت نہیں، بلکہ ایجاد بندہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2486
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 274
´پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں ہے`
«. . . 402- وبه: عن أبيه قال: سمعت أبا سعيد الخدري يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ليس فيما دون خمس ذود صدقة، وليس فيما دون خمس أواق صدقة، وليس فيما دون خمسة أوسق صدقة.“ . . .»
”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم پر کوئی صدقہ (زکوٰة) نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی سے کم پر کوئی صدقہ نہیں ہے اور پانچ وسق (غلے) سے کم پر کوئی صدقہ (عشر) نہیں ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 274]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1447، من حديث مالك به، ورواه مسلم 979، من حديث عمرو بن يحييٰ بن عمارة به]
تفقه:
➊ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا صدقة فى شئي من الزرع او الكرم حتيٰ يكون خمسة أوسق ولا فى الرقة حتيٰ تبلغ مئتي درهم۔» کھیتی یا انگور میں پانچ وسق سے کم میں کوئی صدقہ (ضروری) نہیں ہے اور دو سو درہم سے کم چاندی میں کوئی صدقہ نہیں ہے۔ [شرح معاني الآثار للطحاوي 2/35 وسنده حسن، وأصله عند ابن ماجه: 1794]
➋ مزید فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے الموطأ حدیث: 92
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 402
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 273
´پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ليس فيما دون خمسة اوسق من التمر صدقة، وليس فيما دون خمس اواق من الورق صدقة، وليس فيما دون خمس ذود من الإبل صدقة . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم کھجوروں میں کوئی صدقہ (عشر) نہیں ہے اور پانچ اوقیوں سے کم چاندی میں کوئی صدقہ (زکوٰة) نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں کوئی صدقہ (زکوة) نہیں ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 273]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1459، من حديث مالك به]
تفقه
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَا صَدَقَةَ فِيْ شَيْءٍ مِنَ الزَّرْعِ أَوِ الْكَرْمِ حَتَّى يَكُوْنَ خَمْسَةُ أَوْسُقٍ وَلَا فِي الرَّقَّةِ حَتَّى تَبْلُغَ مِئَتَيْ دِرْهَمٍ» کسی کھیتی (غلے) یا کھجور میں کوئی عشر نہیں ہے إلا یہ کہ پانچ وسق ہوجائے اور چاندی میں کوئی زکواۃ نہیں ہے إلا یہ کہ دوسو درہم تک پہنچ جائے (3078: شرح معانی الآثار للطحاوی 35/2 و سندہ حسن)
حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ یہ جلیل القدر سنت ہے جسے سب کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ [التمهيد 20/136]
➋ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک حجازی صاع 5 رطل اور ثلث = دو سیر چار چھٹانک یعنی 2 کلوگرام 99 گرام 520 ملی گرام، دیکھئے مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ کی کتاب ”اسلامی اوزان“ [ص59] صاع کے صحیح وزن کے بارے میں علمائے حق کا باہم اختلاف ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ڈھائی کلو (2 کلو 500 گرام) قرار دے کر صدقہ نکالا جائے تاکہ آدمی شک وشبہ سے بچا رہے۔ واللہ اعلم
➌ ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں جو دو چھٹانک چھ ماشہ اور 472۔ 1220 گرام ہوتا ہے۔ دیکھئے: [اسلامي اوزان ص21]
➍ پورا سال گزرنے کے بعد ہی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔
➎ تفقہ نمبر 2 سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کا غلہ فصل وغیرہ 750 کلوگرام یا دوسرے قول میں 630 کلوگرام سے کم ہو تو اس میں عشر ضروری نہیں ہے۔ مذکورہ حد تک پہنچنے کے بعد ہی عشر فرض ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے: [ح 402]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 92
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 494
´بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں`
”سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح اونٹوں کی تعداد پانچ سے کم ہو تو ان پر بھی زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم کھجوروں پر بھی زکوٰۃ نہیں۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 494]
لغوی تشریح:
«اَوَاقٍ» اس پر تنوین ہے۔ اور قاف کے بعد ”یاء“ مشددہ اور مخفصہ کی صورت بھی جائز ہے، اوقیہ کی جمع ہے۔ اوقیہ کے ”ہمزاہ“ پر ضمہ اور ”یا“ پر تشدید ہے۔ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور یوں پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہیں۔ جدید وزنی پیمانے کے مطابق دو سو درہم کا وزن 615 گرام بنتا ہے۔
«اَلْوَرِقِ» ”واو“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ ہے اور ”را“ ساکن بھی پڑھی گئی ہے۔ معنی اس کے چاندی کے ہیں۔
«ذَوْدِ» ”ذال“ پر فتحہ اور ”واو“' پر ساکن ہے اونٹ کے معنی میں ہے۔ یہ اسم جمع ہے۔ اس میں مذکر و مونث اور قلیل و کثیر سبھی شامل ہیں۔ اسی لیے خمس کی اضافت اس کی طرف جائز ہے۔
«اَوْسُقِ» ”ہمزہ“ پر فتحہ ”واو“ ساکن اور ”سین“ پر ضمہ ہے۔ «وسق» کی جمع ہے۔ «وسق» کی ”واو“ پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تین سو وصاع کے ہوئے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور ایک مد ایک رطل اور تہائی رطل کے برابر ہوتا ہے، نیز جدید پیمانے کے مطابق ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو گرام کا ہوتا ہے۔
«اَوْسَاقٍ» «وسق» کی جمع ہے، «اوسق» کی طرح۔
«حَبَّ» ”حا“ پر فتحہ اور ”با“ پر تشدید ہے۔ بیچ، تخم، گندم کا بیج، جو اور مسور وغیرہ۔
لفظ «دُونَ» چاروں جگہ «اَقَلُّ» کے معنی میں ہے، یعنی مذکورہ اشیاء کی اس مقدار سے کم پر زکاۃ واجب نہیں۔
فائدہ:
اس حدیث میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیے بیان ہوا ہے جبکہ اس سے پہلی حدیث میں دو سو درہم ہے۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہو گئے، لہٰذا کوئی تعارض نہ رہا۔ تین سو صاع حجازی ہمارے ملک میں مروج انگریزی وزن کے اعتبار سے تقریباً بیس من ہوتے ہیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جو چار من کے برابر ہے۔
گویا ہمارے ملکی حساب سے بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں، مگر احناف نے کتاب اللہ اور حدیث کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غلہ اور کھجور، خواہ ایک من یا اس سے بھی کم ہی کیوں نہ ہو اس میں بھی زکاۃ ہے۔ مگر پہلی رائے ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود وزن مقرر فرما دیا ہے تو پھر ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں، ہر اس جنس میں جو سال بھر ذخیرہ ہو سکتی ہے اس میں زکاۃ ہے، مثلاً: گندم، چاول، جو، باجرہ، مکئی، ماش، مونگ اور چنے وغیرہ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 494
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1558
´کن چیزوں میں زکوٰۃ واجب ہے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ۱؎، پانچ اوقیہ ۲؎ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ پانچ وسق ۳؎ سے کم (غلے اور پھلوں) میں زکاۃ ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1558]
1558. اردو حاشیہ:
➊ سونے چاندی، مال مویشی اور دیگر اجناس کے لیے مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہے۔ ویسے کوئی دینا چاہے تو صدقہ ہے اور محبوب عمل ہے۔
➋ ایک اوقیہ میں چالیس درہم اور ایک درہم تقریباً 2.975 گرام چاندی کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام، اور پانچ اوقیہ چاندی کا وزن پانچ سو پچانوے گرام ہوا۔ جس کا وزن تولہ کے حساب سے 51 تولہ (اور سابقہ علماء کے حساب سے 52 ½ تولہ) ہوتا ہے۔
➌ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جیسا کہ اگلی روایات میں آرہا ہے، اور ایک صاع میں چار مد۔ ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے۔ اس حساب سے پانچ وسق کا کل سات سو پچاس کلو ہو جائے گا۔ یعنی تقریباً 19من۔ زکوۃ کی ادائیگی میں بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ زکوۃ کس کس مال پر فرض ہے؟ سنن ابوداؤد میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں سے سونا‘ چاندی‘ چرنے والے اونٹ گائیں بھیڑ اور بکریوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔ زرعی اجناس میں جو زکوۃ ادا کی جاتی ہے‘ اسے عشر کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وہ حدیثیں ذکر کی گئی ہیں جن میں قابل زکوۃ (عشر) اجناس کا تفصیل سے ذکر نہیں۔ البتہ یہ وضاحت ہے کہ جو کھیتیاں بارش‘ دریاؤں‘ چشموں یا زمین کی رطوبت سے سیراب ہوتی ہیں ان کی زکوۃ عشر یعنی دسواں حصہ ہے اور جن کو اونٹوں کے ذریعے سے (رہٹ چلا کر یا اونٹوں پر پانی لاد کر)سیراب کیا جاتا ہے ان کی زکوۃ (نصف عشر) یعنی بیسواں حصہ ہے۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زرعی اجناس پر زکوۃ‘ عشر یا نصف عشر ہے۔ اختلاف اجناس کے حوالے سے امام ابوحنیفہ گھاس‘ ایندھن اور بے ثمر درختوں کو چھوڑ کر زمین سے اگائی جانے والی ہر چیز پر عشر کے قائل ہیں۔ انہوں نے حضرت جابر ؓ کی روایت ”جو کھیتوں بارش، دریاؤں اور چشموں سے سیراب ہوں ان میں عشر اور جن کی آبپاشی اونٹوں کے ذریعے سے کی جائے ان میں نصف عشر ہے۔“ کے الفاظ میں پائے جانے والے عموم سے استدلال کیا ہے۔ علاوہ ازیں وہ قرآنی آیت: ﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ﴾ [البقرة:267 ]
کےعموم سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہہ زمیں کی پیدا وار تھوڑی ہو یا زیادہ، اس میں عشر یا نصف عشر ہوگا۔ حالانکہ اس عموم کی تخصیص حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ 19 من سےکم پیداوار عشر سے مستثنی ہے۔ ان کے شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد صرف ان اجناس پر زکوۃ ضروری سمجھتے ہیں جو آسمانی سال تک باقی رہ سکتی ہیں اوران کا لین دین ناپ سے ہوتا ہو یا وزن سے، ان کے مطابق ہر قسم کے غلے، شکر، کپاس وغیرہ پر عشر دینا ہو گا۔ امام مالک انسان کی اگائی ہوئی تمام ایسی رزعی اجناس پر عشر ضروری سمجھتے تھے جو خشک کرکے محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ امام احمد خشک ہونے والے پھل اور ہر قسم کے بیجوں پر زکوۃ کے قائل تھے۔ جلیل القدر فقہائے تابعین امام حسن بصری، امام شعبی، موسیٰ بن طلحہ اور مجاہد صرف گندم، جو، کھجور اور کشمش میں عشر کے قائل ہیں جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے خوج لیا ہے۔ امام بیہقی نے ان تابعین کے حوالے سے وہ ساری روایات ذکر کی ہین جن میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ان اشیاء میں عشر لینے کا حکم دیا ہے۔ یہ روایات مرسل ہیں۔ لیکن حضرت موسیٰ بن طلحہ نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ کی وہ تحریر موجود ہے جو آپ نے لکھوا کر حضرت معاذ بن جبلؓ کوعطا فرمائی تھی۔ اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عشر ان چار چیزوں میں ہے۔ ان سار ی روایات کو ذکر کر کے امام بیہقی کہتے ہیں: ”یہ تمام روایات مرسل ہیں لیکن متعدد اسانید سے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت ابو بردہ ؓ کے طریق سے حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے جو انہی چار چیزوں کے عشر کے بارے میں ہے۔ [السنن الکبری للبیھقي‘ باب الصدقة فیما یزرعه الآدمیون ....]
ابو بردہ ؓ والی روایت کی صحت کے بارے میں امام بیہقی کا فیصلہ ہے: «رواته ثقات وهو متصل» ”یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔“ [نيل الأوطار:الزکوة‘ باب زکوة الزرع والثمار) امام شافعی نے انہی چار چیزوں پر قیاس کر کے یہ کہا ہے: «عشر ما یقات و یدخر» ”عشر ان بنیادی غذائی اجناس پر ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔“ گندم، جو، کھجور، کشمش کی طرح جن علاقوں میں چاول وغیرہ بنیادی غذائی جنس ہیں وہاں ان پر عشر ہو گا۔ کپاس اور دیگر بہت سی قیمتی اشیاء(cash crops) اور تازه سبزياں پر اگرچہ براہ راست عشر نہیں لیکن ان کی آمدنی کے حوالے سے اگر نصاب اور مدت نصاب مکمل ہو جائے تو زکوۃ کی ادائیگی ضرور ہو گی۔ اسی طرح چرنے والے (سائمہ) جانوروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بنا بریں ان کی زکوۃ آمدنی پر ہوگی۔ پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔ سعودی علماء اور پاک و ہند کےعلماء نے کرنسی توٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکوۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء ومساکین کا فائدہ زیادہ ہے۔ اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گا تو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکوۃ دینے والوں میں سے نکل جائیں گے۔ مثال کے طور پر جس کے پاس 75ہزار سے کم فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے، وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہو گا، کیونکہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت (10ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) 75ہزار ہو گی۔ یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارانقصان غرباء مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ مؤقف راجح لگتا ہے۔ بہر حال یہ اجتہادی مسئلہ ہے، اور دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ چاندی کا نصاب بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہوگا اور سونے کو کرنسی کی بنیاد ماننے کی صورت میں 75 ہزار روپے فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا اور اس سے کم رقم رکھنے والا شخص زکوۃ سےمستثنی ہوگا۔ رسول اللہﷺ کے دور میں اور صدیوں بعد تک قیمتی پتھروں، جواہرات اور موتیوں کا استعمال دنیا کے بہت سے حصوں میں زینت اور تفاخر کے لیے تو تھا، قدر یا مالیت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ سونا چاندی ہی تھے۔ جواہرات کے کھرے کھوٹے ہونے کی پہچان چونکہ عام تاجر کے بس میں نہ تھی اور ان کی قیمتی کے تعین کا کوئی ایک باقاعدہ معیار بھی موجود نہ تھا۔ مختلف ماہرین کی رائے قیمتوں کےبارے میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتی تھی۔ سونے چاندی کی طرح معیاری ٹیکسالوں میں ڈھال کر ان کو درہم و دینار کی شکل بھی نہ دی جا سکتی تھی اس لیے یہ کرنسی یا مالیت کے تحفظ کے لیے مناسب نہ تھے۔ مال تجارت کے طور پر ان کی زکوۃ تھی البتہ براہ راست ان پر زکوۃ کی وصولی ممکن نہ تھی۔ لیکن آج کل سائنسی بنیادوں پر ان کی پہچان، قیمت کا تعین اور اس کے لیے قابل قبول معیار سب کچھ آسان ہو گیا ہے۔ ان کی باقاعدہ منڈیاں قائم ہو گئی ہیں اور ان خوبیوں کی وجہ سے یہ زیب و زینت کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالیت قدر کے تحفظ، ذخائر اور بنکوں میں نوٹ جاری کرنے کی غرض سے محفوظ ضمانتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ زکوۃ سے بچنے کے لیے اپنے مالیاتی اثاثے جواہرات کی صورت میں محفوظ کرنے شروع کر دیں۔ امیر خواتین تو اب سونے چاندی کے بجائے ان سے کئی گنا زیادہ قیمتی جواہر کو زیب وزینت اور اثاثوں سے تحفظ کے لیے استعمال کرنے لگی ہیں ان پر زکوۃ بھی نہیں دینی پڑتی۔ یہ صورت حال فقراء اور مستحقین زکوۃ کے مفاد کے خلاف ہے۔ جس طرح حضرت عمر ؓ نے عنبر کے بارے میں، اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں کوئی ہدایت موجود نہ تھی، صحابہ ؓ سے مشورہ کیا تھا اور اس کی روشنی میں خمس کی وصولی کا فیصلہ فرمایا تھا۔ [الموسوعة الفقهية، كويت، زكوة باب زكوة المستخرج من البحار) مزید یہ کہ حضرت عمر ؓ کے پاس شام سے کچھ لوگ آئے کہ ہمیں گھوڑوں اور غلاموں کی صورت میں کچھ مال ملا ہے، ہم ان کی زکوۃ ادا کر کے اسے پاک کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کرکے جن میں حضرت علی بھی شامل تھے، زکوۃ لینے کا فیصلہ کیا۔ [مستدرك حاکم، الزکوة‘ حدیث:1456) اسی طرح اب علماء اگر قیمتی پتھروں کے حوالے سے غور کریں اور متفقہ طور پر ان کی زکوۃ کے بارے میں فیصلہ کریں تو یہ عین مصلحت اسلامی کا تقاضا ہو گا۔ یاد رہے کہ پتھروں پر زکوۃ نہ ہونے کی جو مرفوع روایت عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ کے حوالے سے منقول ہے وہ ضعیف ہے، اس لیے قابل اعتبار نہیں۔ [السنن الکبری للبیھقي، الزکوة‘ ما لا زکوة فیه من الجوهر غير الذهب والفضة]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1558
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2448
´اونٹوں کی زکاۃ کا بیان۔`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2448]
اردو حاشہ:
(1) ”پانچ وسق“ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ صاع ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ اس میں غلے کی ہر قسم کا وزن مختلف ہوگا مگر اوسط وزن 2 سیر 4 چھٹانک اور موجودہ وزن کے مطابق 099۔2 کلو گرام ہوتا ہے۔ گویا وسق 3 من 15 سیر اور موجودہ وزن کے مطابق 971۔125 کلو گرام اور پانچ وسق 855۔629 کلو گرام (تقریباً 16 من) کے ہوتے ہیں۔ اگر زمین کی غلے کی پیداوار اس سے کم ہو تو اس میں زکاۃ (عشر وغیرہ) نہ ہو گی۔
(2) ”پانچ اوقیہ“ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ پانچ اوقیے 200 درہم ہوں گے۔ درہم سکہ بھی تھا اور وزن بھی۔ آج کل اکثر علماء کے نزدیک اس وزن کی چاندی کی قیمت نصاب ہے۔ اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔ 200 درہم کا وزن تقریباً ساڑھے باون تولے ہے۔ اور موجودہ وزن کے مطابق 360۔612 گرام ہوتا ہے۔ مروجہ کرنسی کی زکاۃ اسی حساب سے ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2448
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2475
´چاندی کی زکاۃ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2475]
اردو حاشہ:
فوائد کے لیے دیکھیے حدیث نمبر2474۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2475
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2478
´چاندی کی زکاۃ کا بیان۔`
ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2478]
اردو حاشہ:
یہاں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث کے آخری ٹکڑے کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے قول کے مطابق غلہ تھوڑا پیدا ہوا ہو یا زیادہ (حتیٰ کہ ایک صاع بھی ہو تو اس میں بھی عشر لاگو ہوگا، مگر صاف نظر آرہا ہے کہ یہ صریح حدیث کے خلاف ہے، اسی لیے ان کے شاگردان رشید نے بھی ان کی اس رائے کی تائید نہیں کی۔ والحمد للہ علی ذلك
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2478
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2485
´کھجور کی زکاۃ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم غلے یا کھجور میں زکاۃ نہیں ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2485]
اردو حاشہ:
فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 2478 اور 2480۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2485
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2487
´غلوں کی زکاۃ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلہ میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ کھجور میں یہاں تک کہ یہ پانچ وسق ہو جائیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2487]
اردو حاشہ:
مذکورہ مقادیر کی تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: 2447۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2487
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1793
´جن چیزوں میں زکاۃ واجب ہے ان کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1793]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھجوریں جب خشک کر کے ذخیرہ کرنے کے قابل ہو جائیں، اس وقت اگر ان کا وزن پانچ وسق کے برابر ہو تو ان پر زکاۃ واجب ہوگی۔
ایک وسق سات صاع کے برابر ہوتا ہے اور صاع ایک پیمانہ ہے جس کا وزن تقریباً ڈھائی کلو بنتا ہے۔
اس حساب سے پانچ وسق کا وزن تقریباً بیس (20)
من بنتا ہے جس میں سے ایک من زکاۃ ادا کی جائے گی۔
(2)
پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہے یعنی چاندی کا نصاب دو سو درہم تقریباً ساڑھے باون تولے ہے۔
(3)
اگر کسی کے پاس پانچ سے کم اونٹ ہوں تو ان میں زکاۃ فرض نہیں۔
پانچ اونٹ ہوں تو ایک بکری زکاۃ کے طور پر ادا کی جائے گی۔
اونٹوں کی زکاۃ کی مزید تفصیل باب 9 میں آئے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1793
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1799
´اونٹ کی زکاۃ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور چار میں کچھ نہیں ہے، جب پانچ اونٹ ہو جائیں تو نو تک ایک بکری ہے، جب دس ہو جائیں تو چودہ تک دو بکریاں ہیں، اور جب پندرہ ہو جائیں تو ۱۹ تک تین بکریاں ہیں، اور جب بیس ہو جائیں تو ۲۴ تک چار بکریاں ہیں، اور جب پچیس ہو جائیں تو ۳۵ تک بنت مخاض (ایک سال کی اونٹنی) ہے، اور اگر ایک سال کی اونٹنی نہ ہو تو ایک ابن لبون (دو سال کا ایک اونٹ) ہے، اور اگر ۳۵ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو ۴۵ تک بنت لبون (دو سال کی ایک اونٹنی) ہے، اور اگر ۴۵ سے ای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1799]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اونٹ ايک قیمتی جانور ہے اور پانچ اونٹ دولت کی اتنی مقدار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہونا حکمت کا تقاضا ہے۔
لیکن پانچ اونٹوں میں سے ایک اونٹ وصول کرنے میں مالک پر بے جا سختی ہے اس لیے شریعت میں ان دونوں پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے اونٹوں کی کم تعداد پر زکاۃ میں بکریاں لینے کا قانون ہے۔
اس کے علاوہ ہر قسم کے مال میں زکاۃ کے طور پر وہی مال وصول کیا جاتا ہے جس کی زکاۃ دی جارہی ہے۔
(2)
اونٹ کی عمر کے لحاظ سے اس کی قیمت میں کافی فرق پڑ جاتا ہے اس لیے اونٹوں کی زکاۃ میں وصول کیے جانے والے جانور کی عمر بھی متعین کر دی گئی ہے۔
یہ بھی اسلامی شریعت میں عدل و اعتدال کا ایک مظہر ہے۔
(3)
زکاۃ میں وصول کیے جانے والے اونٹوں کی عمر ظاہر کرنے کے لیے حدیث میں مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
(الف)
مخاض:
اس سے مراد ایک سال کی اونٹنی ہے۔
جب اونٹنی کا بچہ ایک سال کا ہو جائے تو عموما وہ دوبارہ حاملہ ہو جاتی ہے، اس لیے ایک سال کی اونٹنی کو ”بنت مخاض“ یعنی حاملہ کی بچی کہتے ہیں۔
(ب)
”لبون“ دودھ دینے والے مادہ جانور کو کہتے ہیں۔
جب اونٹ کا بچہ دو سال کا ہو جائے تو اس کی ماں عموماً دوبارہ بچہ دے چکی ہوتی ہے جو دودھ پی رہا ہوتا ہے، اس لیے دو سال کی اونٹنی کو بنت لبون، یعنی ”دودھ دینے والی اونٹنی کی بچی“ کہتے ہیں۔
اس عمر کے نر کو ابن لبون یعنی ”دودھ دینے والی اونٹنی کا بچہ“ کہتے ہیں۔
یہ قدر وقیمت میں بنت مخاض (ایک سالہ مادہ)
کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
(ج)
حقے کا مطلب ہے کہ یہ اونٹنی اس قابل ہو چکی ہے کہ اس پر بوجھ لادا جائے اور اونٹ اس سے جفتی کرے، اس لیے اسے حقہ یعنی ”بوجھ اٹھانے کی حقدار“ کہا جاتا ہے۔
(د)
جذعہ سے مراد چار سالہ اونٹنی ہے، اس عمر میں اس کے دانت گرنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اسے چارہ کھانے میں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے اسے جذعہ یعنی ”پریشان ہونے والی“ کہا جاتا ہے۔
(4)
اونٹوں کی زکاۃ میں صرف مادہ جانور وصول کیے جاتے ہیں۔
صرف ابن لبون کو بنت مخاض کا متبادل قرار دیا گیا ہے۔
اس میں بھی اصل واجب بنت مخاض ہی ہے۔
اگر ریوڑ میں بنت مخاض موجود نہ ہوتب ابن لبون لیا جاتا ہے۔
(5)
ایک سو بیس سے زیادہ اونٹ ہونے کی صورت میں ان کے چالیس چالیس یا پچاس پچاس کے گروپ بنائے جائیں گے۔
اس کے مطابق دو سالہ یا تین سالہ اونٹنیاں وصول کی جائیں گی، مثلاً ایک سو تیس میں سے اسی پر دو بنت مخاض اور باقی پچاس پچاس پر ایک حقہ (130=40 40 50)
اسی طرح ایک سو چالیس پر ایک بنت مخاض اور دو حقے (140= 40 50 50)
ایک سو پچاس کے تین حقے (50 50 50)
ایک سو ساٹھ پر چار بنت لبون (40 40 40 40)
اسی طرح ہر دس کے اضافے پر ایک بنت لبون کی جگہ حقہ آتا جائے گا حتی کہ دو سو پر چار حقے یا پانچ بنت لبون کی ادائیگی فرض ہوگی۔ (200= 50×4= 40×5)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1799
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 626
´کھیتی، پھل اور غلے کی زکاۃ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں ۱؎ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ ۲؎ چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق ۳؎ غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 626]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ اونٹوں کا نصاب ہے اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔
2؎:
اوقیہ چالیس درہم ہوتا ہے،
اس حساب سے 5اوقیہ دو سو درہم کے ہوئے،
موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم 595 گرام کے برابر ہے۔
3؎:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً (750) کلو گرام یعنی ساڑھے سات کوئنٹل بنتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 626
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2271
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اورپانچ وسق سے کم کھجوروں میں صدقہ نہیں ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2271]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت میں غلہ اور پھلوں کا نصاب پانچ وسق بیان کیا گیا ہے کہ ا گر غلہ یا پھل پانچ وسق سے کم ہوں تو ان میں صدقہ (زکاۃ)
فرض نہیں ہے۔
اگرکوئی اپنی خوشی سے نفلی طور پر صدقہ ادا کرے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
لیکن ان دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ان روایات میں یہ بیان نہیں ہے کہ صدقہ (زکاۃ)
کس مقدار میں یعنی کتنا نکالنا ہو گا۔
اگلے باب کے تحت جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت آ رہی ہے اس میں نکالے جانے والی مقدار کا ذکر موجود ہے۔
اور اس روایت میں نصاب کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
2۔
جمہور امت کا جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ داخل ہیں۔
اس بات پر اتفاق ہے کہ پانچ وسق سے کم غلہ اور پھلوں پر زکاۃ فرض نہیں ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے لیے کوئی نصاب مقرر نہیں ہے۔
جس قدر غلہ یا پھل یا سبزیاں زمین سے برآمد ہوں گی کم ہوں یا زیادہ ہر صورت میں اس سے دسواں بیسواں حصہ نکالنا ہو گا۔
پیداوار کی مقدار دس سیر ہو یا دس من یا اس سے کم وبیش مگر یہ قول صریح حدیث کےخلاف ہے۔
3۔
اوسق اور اوساق وسق کی جمع ہے اور ایک وسق میں بالاتفاق ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔
اس طرح پانچ وسق میں تین سو صاع ہوئے اور ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں۔
یعنی انسان اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پھیلائے تو اس میں جس قدر غلہ یا پھل آئے گا وہ مد کے برابر ہو گا لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ایک مد میں کس قدر رطل غلہ یا پھل آتا ہے۔
ظاہر ہے صاع۔
رطل۔
مد پیمائش(ماپ)
ہے وزن نہیں اور ان وسائل یا آلات کیل میں جو چیز ڈالی جائے گی۔
اس کے بھاری یا ہلکے ہونے کی بنا پر ان کے وزن میں اختلاف یقیناً پیدا ہو گا۔
احناف کے نزدیک چونکہ ایک مد میں دو رطل ہوتے ہیں۔
اس لیے ایک صاع میں آٹھ رطل ہوں گے۔
باقی ائمہ اور اُمت کے نزدیک ایک 1/1/3 رطل کا ہوتا ہے۔
اور چار مد میں5/1/3 رطل آتے ہیں۔
اس لیے پانچ وسق کی مقدار میں اختلاف ہوگا۔
اور اس اختلاف کی زد صدقۃ الفطر پر پڑے گی اور زکاۃ کا نصاب بھی متاثر ہو گا۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زکاۃ کے لیے تو نصاب ہی نہیں ہے۔
)
بہرحال صاع کے وزن میں اختلاف ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی نے تحقیقات کی روشنی میں اس کا وزن 2176 گرام نکالا ہے۔
جبکہ عام طور پر اہل حدیث اس کا وزن 2 سیر 10 چھٹانک تین تولہ اور چار ماشہ بناتے آئے ہیں۔
کیونکہ ایک رطل کا وزن تقریباً آٹھ چھٹانک بنتا ہے۔
لیکن آج کل بعض اہلحدیث علماء نے وزن سوا دو سیر بنایا ہے۔
اس اعتبار سے پانچ وسق کا وزن 16 من 35 کلو ہو گا۔
کیونکہ ایک وسق کا وزن 135 سیر ہو گا۔
جبکہ اکثر علماء کے نزدیک پانچ وسق کا وزن بیس من غلہ بنتا ہے۔
اور علامہ قرضاوی کی تحقیق کے مطابق653 کلوگرام یعنی سولہ من تیرہ کلو گرام ہوگا۔
اور یہ وزن گندم کے اعتبار سے ہے۔
اور احناف کے نزدیک تیس یا بتیس من ہو گا۔
4۔
پانچ اوقیہ چاندی پر بالاتفاق زکاۃ فرض ہے۔
اور ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں اس طرح پانچ اوقیہ میں دو سو درہم ہوں گے۔
ان پر بالاتفاق زکاۃ فرض ہے۔
اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہے۔
اور ایک مثقال 4/1/2 ماشہ کے برابر ہوتا ہے۔
اس طرح چاندی کا وزن بالاتفاق ساڑھے 52/2/1 تولہ ہے۔
علامہ قرضاوی نے جدید تحقیق کی روشنی میں مثقال کا وزن 4/1/4 گرام بنایا ہے۔
اس طرح دو سو درہم میں ایک سو چالیس مثقال ہوں گے اور ان کا وزن پانچ سو پچانویں گرام بنے گا۔
(خیال رہے پینتیس گرام وزن تین تولہ کے برابر ہے)
سونے کا وزن اب تک ساڑھے سات تولہ بناتے رہے ہیں جو ساڑھے ستاسی گرام بنتا ہے۔
کیونکہ سونے کا وزن بیس مثقال ہے اورعلامہ یوسف قرضاوی کی تحقیق کے مطابق اس کا وزن پچاسی گرام ہو گا کیونکہ ان کے نزدیک مثقال کا وزن 4/1/4 گرام ہے۔
جبکہ پہلے اس کا وزن 4/1/2 ماشہ بتایا جاتا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2271
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1447
1447. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ اونٹوں سے کم زکوٰۃ نہیں، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں، اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔“ یحییٰ بن سعید کی روایت میں عمرو نے اپنے والد محترم یحییٰ مازنی سے سماع کی تصریح کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1447]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث ابھی اوپر باب ما أدي زکوته فلیس بکنز میں گزرچکی ہے اور وسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہوچکی ہے۔
پانچ اوقیہ دو سودرہم کے ہوتے ہیں۔
ہر درہم چھ دانق کا۔
ہر دانق 8 جو اور2/5 جو کا۔
تودرہم 50 جو اور 2/5 جو کا ہوا۔
بعضوں نے کہا کہ درہم چار ہزار اور دو سو رائی کے دانوں کا ہوتا ہے۔
اور دینار ایک درہم اور 3/7 درہم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا۔
ایک قیراط 3/8 دانق کا ہوتا ہے۔
مولانا قاضی ثناءاللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دو سودرہم ہے جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے 56 روپے کا بنتے ہیں۔
وقال شيخ مشائخنا العلامة الشيخ عبد الله الغازيفوري في رسالته ما معربه نصاب الفضة مائتا درهم أي خمسون واثنتان تولجة ونصف تولجة، وهي تساوي ستين روبية من الروبية الإنكليزية (النافقة في الهند في زمن الإنكليز)
التي تكون بقدر عشر ماهجة ونصف ماهجة. وقال الشيخ بحر العلوم اللكنوى الحنفي:
في رسائل الأركان الأربعة (ص178)
وزن مائتي درهم وزن خمس وخمسين روبية، وكل روبية أحد عشر ما شج (مرعاة جلد 3ص 41)
ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب دو سودرہم ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ اور یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے۔
جوروپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا۔
مولانا بحر العلوم لکھنؤی فرماتے ہیں کہ دو سودرہم وزن چاندی 55 روپے کے برابر ہے اور ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے۔
ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسبت سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔
خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ وسق سے کم پر عشر نہیں ہے اور پانچ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیروزن 80 تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے۔
کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور صاع 234 تولے (6 تولہ کم 3 سیر)
کا ہوتا ہے۔
پس ایک وسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔
اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1447
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1459
1459. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ وسق سے کم کھجور پر زکاۃ نہیں اور نہ چاندی ہی کے پانچ اوقیوں سے کم میں زکاۃ ہے، نیز پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1459]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ نَحْوُ هَذَا الْحَدِيثِ وَفِيهِ وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا وَأَخْرَجَهَا أَبُو دَاوُدَ أَيْضًا لَكِنْ قَالَ سِتُّونَ مَخْتُومًا وَالدَّارَقُطْنِيُّ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ أَيْضًا وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا وَلَمْ يَقَعْ فِي الْحَدِيثِ بَيَانُ الْمَكِيلِ بِالْأَوْسُقِ لَكِنْ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ مِنْ تَمْرٍ وَلَا حَبٍّ صَدَقَةٌ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ لَيْسَ فِي حَبٍّ وَلَا تَمْرٍ صَدَقَةٌ حَتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ وَلَفَظُ دُونَ فِي الْمَوَاضِعِ الثَّلَاثَةِ بِمَعْنَى أَقَلَّ لَا أَنَّهُ نَفَى عَنْ غَيْرِ الْخَمْسِ الصَّدَقَةَ كَمَا زَعَمَ بَعْضُ مَنْ لَا يُعْتَدُّ بِقَوْلِهِ وَاسْتُدِلَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَلَى وُجُوبِ الزَّكَاةِ فِي الْأُمُورِ الثَّلَاثَةِ وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ الزُّرُوعَ لَا زَكَاةَ فِيهَا حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ تَجِبُ فِي قَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرُ وَسَيَأْتِي الْبَحْثُ فِي ذَلِكَ فِي بَابٍ مُفْرَدٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَلَمْ يَتَعَرَّضِ الْحَدِيثُ لِلْقَدْرِ الزَّائِدِ عَلَى الْمَحْدُودِ وَقَدْ أَجْمَعُوا فِي الْأَوْسَاقِ عَلَى أَنَّهُ لَا وَقَصَ فِيهَا وَأَمَّا الْفِضَّةُ فَقَالَ الْجُمْهُورُ هُوَ كَذَلِكَ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَا شَيْءَ فِيمَا زَادَ عَلَى مِائَتَيْ دِرْهَمٍ حَتَّى يَبْلُغَ النِّصَابَ وَهُوَ أَرْبَعُونَ فَجَعَلَ لَهَا وَقَصًا كَالْمَاشِيَةِ وَاحْتَجَّ عَلَيْهِ الطَّبَرَانِيُّ بِالْقِيَاسِ عَلَى الثِّمَارِ وَالْحُبُوبِ وَالْجَامِعُ كَوْنُ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مُسْتَخْرَجَيْنِ مِنَ الْأَرْضِ بِكُلْفَةٍ وَمُؤْنَةٍ وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ فَمَا زَادَ فَائِدَةٌ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اشْتِرَاطِ الْحَوْلِ فِي الْمَاشِيَةِ وَالنَّقْدِ دُونَ الْمُعَشَّرَاتِ وَاللَّهُ أعلم۔
(فتح الباري)
خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوٰۃ ہے۔
یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری روایت پر اعتماد کرتے ہوئے لفظ حدیث میں جو ابہام تھا‘ اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کردیا۔
اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طورپر چالیس درہم ہے۔
درہم سے خالص چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہویا غیر مضروب۔
لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طورپر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے۔
اس پر اجماع ہے کہ عشر کے لیے پانچ وسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کے لیے‘ نقدی کے لیے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔
اجناس جن سے عشر نکالا جاتا ہے ان کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں۔
قلت هذا الحدیث صریح في أن النصاب شرط لوجوب العشر أونصف العشر فلا تجب الزکوٰة في شيئ من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسة أوسق وهذا مذهب أکثر أهل العلم والصاع أربعة أمداد والمدُّ رِطل وثُلُثُ رِطل، فالصاع خمسة أرطال وثلث رطل وذلك بالرطل الذي وزنه مائة درهم وثمانية وعشرون درهماً بالدراهم التي كل عشرة منها وزن سبعة مثاقيل۔
(مرعاة)
یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشریا نصف عشر کے لیے نصاب شرط ہے پس کھیتی اور پھلوں میں کوئی زکوٰۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
اور صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے لیے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔
بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی زمینوں سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
جو یہاں کی اراضی کو خراجی قرار دیتے ہیں۔
اس بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:
إختلف أصحاب الفتوى من الحنفية في أراضي المسلمين في بلاد الهند في زمن الانكليز وتخبطوا في ذلك فقال بعضهم:
لا عشر فيها لأنها أراضي دار الحرب، وقال بعضهم إن أراضي الهند ليست بعشرية ولا خراجة بل أراضي الحوز أي أراضي بيت المال وأرض المملكة. (أرجع لتعريفها إلى رد المختار (ج3:
ص353-354)
وقال بعضهم:
إن الرجل الذي لا يعلم إن أرضه انتقلت إليه من أيدي الكفار والأرض الآن في ملكه فعليه فيها العشر وجعل بعضهم أراضيها على عدة أنواع، وقال الأحوط أداء العشر من جميع هذه الأنواع. والحق عندنا وجوب العشر في أراضي الهند مطلقاً أي على أي صفة كانت، فيجب والعشر أو نصفه على المسلم فيما يحصل له من الأرض، إذا بلغ النصاب سواء كانت الأرض ملكاً له أو لغيره زرع فيها على سبيل الإجارة أو العارية أو المزارعة. لأن العشر في الحب والزرع والعيرة لمن يملكه، فيجب الزكاة فيه على مالكه المسلم وليس من مؤنة الأرض فلا يبحث عن صفتها والضريبة التي تأخذها المملكة من أصحاب المزارع في الهند ليست خراجها شرعياً ولا مما يسقط فرضة العشر كما لا يخفى وارجع إلى المغني۔
(ص 768/2) (مرعاة‘ ج: 3 ص: 38)
یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علمائے احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے‘ بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں عشر نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں۔
بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں نہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امرحق یہ ہے کہ اراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لیے عشر واجب ہے‘ چاہے وہ زمین ان کی ملک ہو یا غیر کی ہو وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہر حال اناج کی پیداوار جو نصاب کو پہنچ جائے عشرو اجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لینی ہے‘ وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہوسکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1459
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1484
1484. حضرت ابوسعیدخدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا:”پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکوٰۃ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1484]
حدیث حاشیہ:
اہلحدیث کا مذہب یہ ہے کہ گیہوں اور جو اورجواراور کھجور اور انگور میں جب ان کی مقدار پانچ وسق یا زیادہ ہوتو زکوٰۃ واجب ہے۔
اور ان کے سوا دوسری چیزوں میں جیسے اور ترکاریاں اور میوے وغیرہ میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔
قسطلانی نے کہا میووں میں سے صرف کھجور اور انگور میں اور اناجوں میں سے ہر ایک اناج میں جو ذخیرہ رکھے جاتے ہیں جیسے گیہوں‘ جو‘جوار‘ مسور‘ باجرہ‘ چنا‘ لوبیا وغیرہ ان سب میں زکوٰۃ ہے۔
اور حنفیہ کے نزدیک پانچ وسق کی قید بھی نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر سب میں زکوٰۃ واجب ہے۔
اور امام بخاری ؒ نے یہ حدیث لاکر ان کا رد کیا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1484
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1405
1405. حضرت ابو سعید خدری ؓ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم (غلے) میں زکاۃ نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1405]
حدیث حاشیہ:
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔
پانچ اوقیہ کے دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہوتی ہے‘ یہ چاندی کا نصاب ہے۔
وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے صاع چار مد کا۔
مدایک رطل اور تہائی رطل کا۔
ہندوستان کے وزن (اسی تولہ سیر کے حساب سے)
ایک وسق پکے ساڑھے چار من یا پانچ من کے قریب ہوتا ہے۔
پانچ وسق ساڑھے بائیس من یا 25 من ہوا۔
اس سے کم میں زکوٰۃ (عشر)
نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1405
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1405
1405. حضرت ابو سعید خدری ؓ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم (غلے) میں زکاۃ نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1405]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے اور پانچ اوقیہ میں دو سو درہم ہوتے ہیں جو ساڑھے باون تولے کے برابر ہیں۔
اس سے کم مقدار میں زکاۃ نہیں۔
اس طرح ایک وسق ساٹھ صاع کا ہے اور ایک صاع دو کلو اور سو گرام (100 گرام)
کے برابر ہے۔
پانچ وسق چھ صد تیس (630)
کلو گرام کے برابر ہے۔
اس سے کم مقدار غلے میں کوئی زکاۃ نہیں۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی کنز نہیں ہے، اس کا رکھنا جائز ہے، کیونکہ اس میں زکاۃ نہیں، اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی کنز نہیں جس پر وعید آئی ہے، کیونکہ اس پر مزید کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
اس لیے آیت کریمہ سے اس مال کو خاص کرنا ہو گا جس کی زکاۃ ادا کر دی گئی ہو، چنانچہ ابن عبدالبر جمہور کا موقف بیان کرتے ہیں کہ کنز مذموم وہ ہے جس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب تو نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی تو گویا تو نے مال کے متعلق اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا۔
“ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 618) (3)
چند ایک دنیا سے بے رغبت حضرات کے علاوہ کسی نے بھی اس موقف سے اختلاف نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکاۃ ادا کر کے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں تو بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔
(سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث: 1787)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1405
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1447
1447. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ اونٹوں سے کم زکوٰۃ نہیں، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں، اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔“ یحییٰ بن سعید کی روایت میں عمرو نے اپنے والد محترم یحییٰ مازنی سے سماع کی تصریح کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1447]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے چاندی کا نصاب بیان کیا ہے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے۔
چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ ہے جو دو صد درہم کے برابر ہے۔
اس کا وزن تقریبا ساڑھے باون تولے ہے۔
اعشاری نظام کے مطابق ساڑھے باون تولے 612 کے برابر ہیں۔
جب ان پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کیا جائے۔
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب تیرے پاس دو صد درہم ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکاۃ ہے۔
اور جب تیرے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکاۃ ہے اور جو اس سے زیادہ (سونا یا چاندی)
ہو گا تو اسی حساب سے زکاۃ ہو گی۔
“ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1573) (2)
بیس دینار سونا کم و بیش ساڑھے سات تولے کے برابر ہے۔
موجودہ اعشاری نظام کے مطابق اس میں تقریبا 87 گرام ہوتے ہیں۔
عصر حاضر میں چونکہ سونا یا چاندی بطور کرنسی یا قیمت استعمال نہیں ہوتا، اس لیے ہماری موجودہ کرنسی سونے یا چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ نکالا جائے۔
بہتر ہے کہ غرباء اور مساکین کے فائدے کے پیش نظر چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے، یعنی اگر کسی کے پاس اس قدر مالیت کی کرنسی پڑی ہے جس سے 87 گرام سونا یا 612 گرام چاندی خریدی جا سکے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کرنسی سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کیا جائے۔
دوسرے الفاظ میں 2.5 یعنی اڑھائی فی صد کے اعتبار سے زکاۃ ادا کی جائے۔
سونے اور چاندی کو ملا کر نصاب مکمل کرنا صحیح نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1447
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1459
1459. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ وسق سے کم کھجور پر زکاۃ نہیں اور نہ چاندی ہی کے پانچ اوقیوں سے کم میں زکاۃ ہے، نیز پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1459]
حدیث حاشیہ:
اس عنوان کا تعلق اونٹوں کی زکاۃ سے ہے، اس سے قبل وجوب زکاۃ کو بیان کیا تھا، اب ان کی ایک خاص مقدار سے زکاۃ کی نفی بیان کی گئی ہے، لیکن حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ اس توجیہ میں تکلف ہے بلکہ اس عنوان کا اونٹوں اور بکریوں دونوں سے تعلق ہے۔
چونکہ بکریوں کی زکاۃ کا مسئلہ بیان کیا جا رہا تھا اور پانچ اونٹوں میں ایک بکری بطور زکاۃ وصول کی جاتی ہے، اس مناسبت سے اسے یہاں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 407/3)
واللہ أعلم۔
حدیث کے متعلقہ دیگر فوائد پہلے حدیث: 1447 کے تحت بیان ہو چکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1459
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1484
1484. حضرت ابوسعیدخدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا:”پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکوٰۃ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1484]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں پیداوار کی اس مقدار کا بیان ہے جس میں عشر واجب ہوتا ہے اور وہ پانچ وسق ہے۔
اس سے کم میں نہیں ہوتا ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، گویا نصاب جنس 5×60=300 صاع ہیں۔
جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع دو کلو اور سو گرام کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے پانچ وسق جنس کے 630 کلوگرام بنتے ہیں، یعنی اگر اتنی مقدار میں جنس موجود ہو تو اس پر بیسواں حصہ دینا ہو گا، بعض اہل علم کے نزدیک ایک صاع اڑھائی کلوگرام کے مساوی ہے، لہذا ان کے ہاں پیداوار کا نصاب 750 کلوگرام ہے۔
غرباء اور مساکین کی ضروریات کے پیش نظر پیداوار کا 630 کلوگرام وزن مقرر کیا جانا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(2)
اگر کسی نے زمین ٹھیکے پر حاصل کی ہے تو زمیندار چونکہ اس کا اصل مالک ہوتا ہے، اس لیے وہ ٹھیکے کی اس رقم کو اپنی مجموعی آمدنی میں شامل کرے اور اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے زکاۃ ادا کرے۔
اور زمین ٹھیکے پر لینے والا کاشت کرنے میں صاحب اختیار ہوتا ہے اور پیداوار کا مالک بھی وہی ہوتا ہے تو وہ مختار ہونے کی حیثیت سے پیداوار کا عشر ادا کرے گا اور ٹھیکے کی رقم اس سے منہا (نکالی)
نہیں کی جائے گی۔
اسی طرح وہ اپنی سہولت کے لیے یا اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے جو رقم خرچ کرتا ہے یہ بھی پیداوار سے منہا (نکالی)
نہیں کیا جائے گی، البتہ محنت و مشقت یا مالی اخراجات جو زمین کی سیرابی پر آتے ہیں ان کے پیش نظر شریعت نے اسے یہ رعایت دی ہے کہ وہ اپنی پیداوار سے دسواں حصہ دینے کے بجائے بیسواں حصہ ادا کرے، اگر اس رعایت کے باوجود ٹھیکے کی رقم، کھاد اور سپرے کے اخراجات، کٹائی کے لیے مزدوری اور تھریشر وغیرہ کے اخراجات بھی منہا کر دیے جائیں تو باقی کیا بچے گا جو عشر کے طور پر ادا کیا جائے گا، لہذا اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ ٹھیکے کی زمین سے ٹھیکے کی رقم پیداوار سے منہا نہیں ہو گی، بلکہ وہ اپنی مجموعی پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرے بشرطیکہ اس کی پیداوار پانچ وسق (630 کلوگرام)
تک پہنچ جائے۔
اگر اس سے کم ہے تو عشر نہیں ہو گا، ہاں! اگر مالک چاہے تو دینے پر قدغن نہیں، اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے اس کے رزق میں مزید اضافہ اور برکت عطا فرمائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1484