ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف کرے۔“
رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مصر میں ان کے قیام کے دوران کہتے سنا: اللہ کی قسم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کھڈیوں کو کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جب تم میں سے کوئی پاخانے یا پیشاب کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرے۔“
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن ابي ايوب، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها لغائط او بول، ولكن شرقوا او غربوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاخانہ و پیشاب کے لیے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف کرو۔“
وضاحت: ۱؎: یہ خطاب اہل مدینہ اور ان لوگوں کو ہے جو خانہ کعبہ سے اتر یا دکھن کی سمت میں رہتے ہیں، اس سے مقصود اس سمت کی جانب رہنمائی ہے جس میں قبلہ نہ آدمی کے آگے ہو نہ پیچھے، برصغیر ہند و پاک والوں کا قبلہ چونکہ پچھم میں ہے اس لیے یہاں اس حدیث کے مطابق اتر اور دکھن کی طرف منہ یا پیٹھ کی جائے گی۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى يعنى ابن سعيد، عن محمد بن عجلان، قال: اخبرني القعقاع، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما انا لكم مثل الوالد اعلمكم، إذا ذهب احدكم إلى الخلاء فلا يستقبل القبلة ولا يستدبرها ولا يستنج بيمينه". وكان" يامر بثلاثة احجار ونهى عن الروث والرمة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِى ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قال: أَخْبَرَنِي الْقَعْقَاعُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ، إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْخَلَاءِ فَلَا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَلَا يَسْتَدْبِرْهَا وَلَا يَسْتَنْجِ بِيَمِينِهِ". وَكَانَ" يَأْمُرُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ وَنَهَى عَنِ الرَّوْثِ وَالرِّمَّةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے باپ کے منزلے میں ہوں (باپ کی طرح ہوں)، تمہیں سکھا رہا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی پاخانہ جائے تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرے، نہ پیٹھ، اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے“، آپ (استنجاء کے لیے) تین پتھروں کا حکم فرماتے، اور گوبر اور بوسیدہ ہڈی سے (استنجاء کرنے سے) آپ منع فرماتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہاں مراد مطلق ہڈی ہے جیسا کہ دوسری روایتوں میں آیا ہے، یا یہ کہا جائے کہ بوسیدہ ہڈی جو کسی کام کی نہیں ہوتی جب اسے نجاست سے آلودہ کرنے کی ممانعت ہے تو وہ ہڈی جو بوسیدہ نہ ہو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہو گی۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا ابو معاوية، قال: حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن سلمان، قال: قال له رجل: إن صاحبكم ليعلمكم حتى الخراءة. قال: اجل" نهانا ان نستقبل القبلة بغائط او بول او نستنجي بايماننا او نكتفي باقل من ثلاثة احجار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قال: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَلْمَانَ، قال: قال لَهُ رَجُلٌ: إِنَّ صَاحِبَكُمْ لَيُعَلِّمُكُمْ حَتَّى الْخِرَاءَةَ. قال: أَجَلْ" نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَوْ نَسْتَنْجِيَ بِأَيْمَانِنَا أَوْ نَكْتَفِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ".
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (حقارت کے انداز میں) ان سے کہا: تمہارے نبی تمہیں (سب کچھ) سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ کرنا (بھی)؟ تو انہوں نے (فخریہ انداز میں) کہا: ہاں! آپ نے ہمیں پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے اور (استنجاء کے لیے) تین پتھر سے کم پر اکتفا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 17 (262)، سنن ابی داود/فیہ 4 (7)، سنن الترمذی/فیہ 12 (16)، سنن ابن ماجہ/فیہ 16 (316)، (تحفة الأشراف: 4505)، مسند احمد 5/ 437، 438، 439، یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: 49 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا ابو نعيم، عن زهير، عن ابي إسحاق، قال: ليس ابو عبيدة ذكره ولكن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، انه سمع عبد الله، يقول:" اتى النبي صلى الله عليه وسلم الغائط وامرني ان آتيه بثلاثة احجار، فوجدت حجرين والتمست الثالث فلم اجده، فاخذت روثة فاتيت بهن النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ الحجرين والقى الروثة، وقال: هذه ركس". قال ابو عبد الرحمن: الركس طعام الجن. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قال: لَيْسَ أَبُو عُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ:" أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَائِطَ وَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ وَالْتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُ بِهِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ: هَذِهِ رِكْسٌ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الرِّكْسُ طَعَامُ الْجِنِّ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت (پاخانے) کی جگہ میں آئے، اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم فرمایا، مجھے دو پتھر ملے، تیسرے کی میں نے تلاش کی مگر وہ نہیں ملا، تو میں نے گوبر لے لیا اور ان تینوں کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے دونوں پتھر لے لیے، اور گوبر پھینک دیا ۱؎ اور فرمایا: ”یہ «رکس»(ناپاک) ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن النسائی کہتے ہیں: «رکس» سے مراد جنوں کا کھانا ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 21 (156)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة 13 (17)، سنن ابن ماجہ/فیہ 16 (314)، (تحفة الأشراف: 9170)، مسند احمد 1/388، 418، 427، 450 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دو ہی پتھر پر اکتفا کیا اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے تیسرا خود اٹھا لیا ہو، نیز مسند احمد اور سنن دارقطنی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے «ائتنی بحجر» فرما کر تیسرا پتھر لانے کے لیے بھی کہا، اس کی سند صحیح ہے۔ ۲؎: لغوی اعتبار سے اس کا ثبوت محل نظر ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابيه، عن مسلم بن قرط، عن عروة، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا ذهب احدكم إلى الغائط فليذهب معه بثلاثة احجار، فليستطب بها فإنها تجزي عنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قُرْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْغَائِطِ فَلْيَذْهَبْ مَعَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، فَلْيَسْتَطِبْ بِهَا فَإِنَّهَا تَجْزِي عَنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی پاخانہ جائے تو اپنے ساتھ تین پتھر لے جائے، اور ان سے پاکی حاصل کرے کیونکہ یہ طہارت کے لیے کافی ہیں“۔
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکوں نے (حقارت کے انداز میں) کہا کہ ہم تمہارے نبی کو دیکھتے ہیں کہ وہ تمہیں پاخانہ (تک) کی تعلیم دیتے ہیں، تو انہوں نے (فخریہ) کہا: ہاں، آپ نے ہمیں داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے اور (بحالت قضائے حاجت) قبلہ کا رخ کرنے سے منع فرمایا، نیز فرمایا: ”تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 41 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن حزم کہتے ہیں کہ «بدون ثلاثۃ احجار» میں «دون»، «اقل» کے معنی میں یا «غیر» کے معنی میں ہے، لہٰذا نہ تین پتھر سے کم لینا درست ہے نہ زیادہ، اور بعض لوگوں نے کہا ہے «دون» کو «غیر» کے معنی میں لینا غلط ہے، یہاں دونوں سے مراد «اقل» ہے جیسے «ليس فيما دون خمس من الأبل صدقة» میں ہے۔