عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے، ناقص“۔
تخریج الحدیث: «تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8694، ومصباح الزجاجة: 309) (ط. الجامعة الإسلامیة)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/204، 215) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ایک رکن چھوٹ گیا پس معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔
It was narrated that from ‘Amr bin Shu’aib, from his father, from his grandfather, that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Every prayer in which Fatihatil-Kitab (the Opening of the Book) is not recited, it is deficient, it is deficient.”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے“، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بہرحال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے، امام ہو یا مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں «القراءۃ خلف الإمام» نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہ کرے نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں اور دلیل ان کی یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا»”جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو“(سورة الأعراف: 204)، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورۃ فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراءت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، ”تنویر العینین“ میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورۃ فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قراءت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”سورۃ فاتحہ پڑھا کرو“، یزید نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگرچہ جہری نماز میں ہو“، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے ﷺ فرمایا: «مالی انازع القرآن»، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھینا جھپٹی) اسی وقت ہو گی جب مقتدی بآواز بلند قراءت کرے، اور آہستہ سے صرف سورۃ فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو“، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہو گئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختار مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر نماز میں جہری ہو یا سری سورۃ فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی کیونکہ «لا» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز ”مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے“، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔
It was narrated from Abu Sa’ib that he heard Abu Hurairah say:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever performs a prayer in which he does not recite Ummul Qur’an (the Mother of the Qur’an, i.e., Al- Fatihah), it is deficient; not complete.’” I said: ‘O Abu Hurairah, sometimes I am behind the Imam. He pressed my forearm and said: ‘O Persian! Recite it to yourself.’”
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو فرض و نفل کی ہر رکعت میں «الحمد لله» اور کوئی دوسری سورت نہ پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4359، ومصباح الزجاجة: 306) (ضعیف)» (ابو سفیان طریف بن شہاب السعدی ضعیف ہیں، اصل حدیث صحیح مسلم میں ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابو داود: 777)
It was narrated that Abu Sa’eed said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘There is no prayer for the one who does not recite in every Rak’ah: Al-Hamd (Al-Fatihah) and a Surah whether in an obligatory prayer or another.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو سفيان السعدي طريف بن شهاب: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 408
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16181، ومصباح الزجاجة: 307)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/142، 275) (حسن صحیح)» (اس سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح اور ثابت ہے)
It was narrated that ‘Aishah said:
“I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘Every prayer in which the Ummul-Kitab (the Mother of the Book) is not recited is deficient.’”