(مرفوع) حدثنا محمد بن خالد بن عبد الله الواسطي ، حدثنا ابي ، عن عبد الرحمن بن إسحاق ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه " ان النبي صلى الله عليه وسلم استشار الناس لما يهمهم إلى الصلاة، فذكروا البوق، فكرهه من اجل اليهود، ثم ذكروا الناقوس، فكرهه من اجل النصارى، فاري النداء تلك الليلة رجل من الانصار، يقال له: عبد الله بن زيد، وعمر بن الخطاب، فطرق الانصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا،" فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا به فاذن"، قال الزهري: وزاد بلال في نداء صلاة الغداة، الصلاة خير من النوم، فاقرها رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر: يا رسول الله قد رايت مثل الذي راى ولكنه سبقني. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَشَارَ النَّاسَ لِمَا يُهِمُّهُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَذَكَرُوا الْبُوقَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ الْيَهُودِ، ثُمَّ ذَكَرُوا النَّاقُوسَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ النَّصَارَى، فَأُرِيَ النِّدَاءَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَطَرَقَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا،" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا بِهِ فَأَذَّنَ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَزَادَ بِلَالٌ فِي نِدَاءِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى وَلَكِنَّهُ سَبَقَنِي.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کیا صورت ہونی چاہیئے، کچھ صحابہ نے بگل کا ذکر کیا (کہ اسے نماز کے وقت بجا دیا جائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود سے مشابہت کے بنیاد پر ناپسند فرمایا، پھر کچھ نے ناقوس کا ذکر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی نصاریٰ سے تشبیہ کی بناء پر ناپسند فرمایا، اسی رات ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو خواب میں اذان دکھائی گئی، انصاری صحابی رات ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے اذان دی۔ زہری کہتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں «الصلاة خير من النوم»”نماز نیند سے بہتر ہے“ کا اضافہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے، لیکن وہ (آپ کے پاس پہنچنے میں) مجھ سے سبقت لے گئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6866، ومصباح الزجاجة: 261)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/148) (ضعیف)» (یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک روای محمد بن خالد ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے، کیونکہ بخاری و مسلم میں آئی ہوئی حدیث کے ہم معنی ہے)
It was narrated from Salim, from his father, that:
The Prophet consulted the people as to how he could call them to the prayer. They suggested a horn, but he disliked that because of the Jews (because the Jews used a horn). Then they suggested a bell but he disliked that because of the Christians (because the Christians used a bell). Then that night the call to the prayer was shown in a dream to a man among the Ansar whose name was 'Abdullah bin Zaid, and to 'Umar bin Khattab. The Ansari man came to the Messenger of Allah at night, and the Messenger of Allah commanded Bilal to give the call to the prayer. (Da'if)Zuhri said: "Bilal added the phrase "As-salatu khairum minan-nawm (the prayer is better than sleep)" to the call for the morning prayer, and the Messenger of Allah approved of that." 'Umar said: "O Messenger of Allah, I saw the same as he did, but he beat me to it."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف وبعضه صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن خالد بن عبد اللّٰه الواسطي ضعيف (تقريب: 5846) ولبعض الحديث شواھد عند البخاري (603،604) ومسلم (377،378) وغيرھما انوار الصحيفه، صفحه نمبر 403
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی دو رکعت سنت کی قضا سورج نکلنے کے بعد بھی جائز ہے، یہی ثوری، احمد، اسحاق، اور ابن مبارک کا مذہب ہے، امام محمد کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک زوال تک ان کی قضا پڑھ لینا بہتر ہے۔