ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تین روز تک کبھی گیہوں کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی برابر تین دن تک کبھی گیہوں کی روٹی آپ ﷺ کو نہیں ملی، اس طرح کہ پیٹ بھر کر کھائے ہوں، ہر روز بلکہ کبھی ایک دن گیہوں کی روٹی کھائی، تو دوسرے دن جو کی ملی، اور کبھی پیٹ بھر کر نہیں ملی، غرض ساری عمر تکلیف اور فقر و فاقہ ہی میں کٹی، سبحان اللہ! شہنشاہی میں فقیری یہی ہے۔
عطا کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کی زیارت کی یعنی راوی کا خیال ہے کہ ینانامی بستی میں تشریف لے گئے، وہ لوگ آپ کی خدمت میں پہلی بار کی پکی ہوئی چپاتیوں میں سے کچھ باریک چپاتیاں لے کر آئے، تو وہ رو پڑے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روٹی اپنی آنکھ سے کبھی نہیں دیکھی (چہ جائے کہ کھاتے)۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14205، ومصباح الزجاجة: 1153) (ضعیف)» (ابن عطاء یہ عثمان بن عطاء ہیں اور ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے باریک روٹی نہیں دیکھی یعنی چپاتی کیونکہ یہ روٹی موٹے آٹے کی نہیں پک سکتی بلکہ اکثر میدے کی پکاتے ہیں، بلکہ آپ ہمیشہ موٹی روٹی وہ بھی اکثر جو کی کھایا کرتے، اور بے چھنے آٹے کی وہ بھی روز پیٹ بھر کر نہ ملتی تھی، ایک دن کھایا، تو ایک دن فاقہ «سبحان اللہ» ہمارے رسول ﷺ کا تو یہ حال تھا، اور ہم روز کیسے کیسے عمدہ کھانے خوش ذائقہ اور نئی ترکیب کے جن کو اگلے لوگوں نے نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا کھاتے ہیں، اور وہ بھی ناکوں ناک پیٹ بھر کر وہ بھی اسی طرح سے کہ حلال حرام کا کچھ خیال نہیں، مشتبہ کا تو کیا ذکر ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ضعفه البوصيري من أجل عثمان بن عطاء بن أبي مسلم الخراساني انوار الصحيفه، صفحه نمبر 496