(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابو حفص عمرو، حدثنا الاوزاعي، حدثني ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس رضي الله عنهما، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى اهو خضر، فمر بهما ابي بن كعب الانصاري، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟، قال: نعم، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" بينا موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك؟، فقال موسى: لا، فاوحي إلى موسى بلى عبدنا خضر، فسال موسى السبيل إلى لقيه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت، فارجع فإنك ستلقاه، فكان موسى يتبع اثر الحوت في البحر، فقال فتى موسى لموسى: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره؟ قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا وكان من شانهما ما قص الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرٌو، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى أَهُوَ خَضِرٌ، فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟، قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَيْنَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟، فَقَالَ مُوسَى: لَا، فَأُوحِيَ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ، فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، فَكَانَ مُوسَى يَتْبَعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ؟ قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا وَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص عمرو نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عقبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ اور حر بن قیس بن حصین الفزاری، موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں اختلاف کر رہے تھے کہ کیا وہ خضر علیہ السلام ہی تھے۔ اتنے میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور ان سے کہا کہ میں اور میرا یہ ساتھی اس بارے میں شک میں ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے وہ صاحب کون تھے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کوئی حدیث سنی ہے انہوں نے کہا کہ ہاں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ایک مجمع میں تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ نہیں۔ چنانچہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملاقات کا راستہ معلوم کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مچھلی کو نشان قرار دیا اور آپ سے کہا گیا کہ جب تم مچھلی کو گم پاؤ تو لوٹ جانا کہ وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام مچھلی کا نشان دریا میں ڈھونڈنے لگے اور آپ کے ساتھی نے آپ کو بتایا کہ آپ کو معلوم ہے۔ جب ہم نے چٹان پر ڈیرہ ڈالا تھا تو وہیں میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان نے اسے بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ جگہ وہی ہے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں پس وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس لوٹے اور انہوں نے خضر علیہ السلام کو پا لیا ان ہی دونوں کا یہ قصہ ہے جو اللہ نے بیان فرمایا۔
Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Al-Hurr bin Qais bin Hisn Al-Fazari about the companion of Moses, (i.e., whether he was Kha,dir or not). Ubai bin Ka`b Al-Ansari passed by them and Ibn `Abbas called him saying, 'My friend (Hur) and I have differed about Moses' Companion whom Moses asked the way to meet. Did you hear Allah's Apostle mentioning anything about him?" Ubai said, "Yes, I heard Allah's Apostle saying, "While Moses was sitting in the company of some Israelites a man came to him and asked, 'Do you know Someone who is more learned than you (Moses)?' Moses said, 'No.' So Allah sent the Divine inspiration to Moses:-- 'Yes, Our Slave Khadir is more learned than you' Moses asked Allah how to meet him ( Khadir) So Allah made the fish as a sign for him and it was said to him, 'When you lose the fish, go back (to the place where you lose it) and you will meet him.' So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The boy servant of Moses (who was accompanying him) said to him, 'Do you remember (what happened) when we betook ourselves to the rock? I did indeed forget to tell you (about) the fish. None but Satan made me forget to tell you about it' (18.63) Moses said: 'That is what we have been seeking." Sa they went back retracing their footsteps. (18.64). So they both found Kadir (there) and then happened what Allah mentioned about them (in the Qur'an)!' (See 18.60- 82)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 570
(مرفوع) حدثنا الحميدي، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني إسماعيل بن ابي خالد على غير ما حدثناه الزهري، قال: سمعت قيس بن ابي حازم، قال: سمعت عبد الله بن مسعود، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا حسد إلا في اثنتين، رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔
Narrated `Abdullah bin Mas`ud: The Prophet said, "Do not wish to be like anyone except in two cases. (The first is) A person, whom Allah has given wealth and he spends it righteously; (the second is) the one whom Allah has given wisdom (the Holy Qur'an) and he acts according to it and teaches it to others." (Fath-al-Bari page 177 Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 73
(مرفوع) حدثني محمد بن غرير الزهري، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدث ان عبيد الله بن عبد الله اخبره، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال موسى السبيل إلى لقيه، هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك؟ قال موسى: لا، فاوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر، فسال موسى السبيل إليه؟ فجعل الله له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه، وكان يتبع اثر الحوت في البحر، فقال لموسى فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، قال: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا، فكان من شانهما الذي قص الله عز وجل في كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of (the Prophet) Moses. Ibn `Abbas said that he was Al Khadir. Meanwhile, Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him, saying "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion, whom Moses asked the way to meet. Have you heard the Prophet mentioning something about him? He said, "Yes. I heard Allah's Apostle saying, "While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him. "Do you know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave Khadir (is more learned than you.)' Moses asked (Allah) how to meet him (Khadir). So Allah made the fish as a sign for him and he was told that when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said to him: Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses said: 'That is what we have been seeking? (18.64) So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (And) what happened further to them is narrated in the Holy Qur'an by Allah. (18.54 up to 18.82)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 74
(مرفوع) حدثنا ابو القاسم خالد بن خلي قاضي حمص، قال: حدثنا محمد بن حرب، قال: قال الاوزاعي، اخبرنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ فقال ابي: نعم، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شانه، يقول:" بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل، فقال: اتعلم احدا اعلم منك، قال موسى: لا، فاوحى الله عز وجل إلى موسى: بلى عبدنا خضر، فسال السبيل إلى لقيه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه، فكان موسى صلى الله عليه يتبع اثر الحوت في البحر، فقال فتى موسى لموسى: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا، فكان من شانهما ما قص الله في كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَالِدُ بْنُ خَلِيٍّ قَاضِي حِمْصَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ: نَعَمْ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ، يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى: بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، فَكَانَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔ موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر علیہ السلام کو انہوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: that he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of the Prophet Moses. Meanwhile, Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him saying, "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion whom Moses asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle mentioning something about him? Ubai bin Ka`b said: "Yes, I heard the Prophet mentioning something about him (saying) while Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him: "Do you know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses: '--Yes, Our slave Khadir is more learned than you. Moses asked Allah how to meet him (Al-Khadir). So Allah made the fish a sign for him and he was told when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said: 'Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses said, 'That is what we have been seeking.' So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (and) what happened further about them is narrated in the Holy Qur'an by Allah." (18.54 up to 18.82)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 78
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، قال: حدثنا عمرو، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم ان موسى ليس بموسى بني إسرائيل، إنما هو موسى آخر، فقال: كذب عدو الله، حدثنا ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل، فسئل اي الناس اعلم؟ فقال: انا اعلم، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه ان عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فإذا فقدته فهو ثم فانطلق، وانطلق بفتاه يوشع بن نون وحملا حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما، فانسل الحوت من المكتل، فاتخذ سبله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما، فلما اصبح، قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي امر به، فقال له فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب او قال تسجى بثوبه فسلم موسى، فقال الخضر: وانى بارضك السلام، فقال: انا لموسى، فقال موسى: بني إسرائيل، قال: نعم، قال: هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تستطيع معي صبرا يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه انت، وانت على علم علمكه لا اعلمه، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا ولا اعصي لك امرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملوهما، فعرف الخضر فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة فنقر نقرة او نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى، ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعمد الخضر إلى لوح من الواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا، قال: لا تؤاخذني بما نسيت، فكانت الاولى من موسى نسيانا، فانطلقا فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر براسه من اعلاه فاقتلع راسه بيده، فقال موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا، قال ابن عيينة: وهذا اوكد فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض فاقامه، قال الخضر: بيده فاقامه، فقال له موسى: لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: يرحم الله موسى لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من امرهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ بِهِ؟ فَقِيلَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا، فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى، فَقَالَ الْخَضِرُ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: أَنَا لمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا؟ قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ الْخَضِرُ: يَا مُوسَى، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا، فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، قَالَ الْخَضِرُ: بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انہیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی)(یہ سن کر) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر (مفت میں) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی (کی لکڑی) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے (کشتی سے اتر کر) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا (غضب ہو گیا) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے (اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf-Al-Bakali claims that Moses (the companion of Khadir) was not the Moses of Bani Israel but he was another Moses." Ibn `Abbas remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka`b: The Prophet said, "Once the Prophet Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man amongst the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him "At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you." Moses said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses set out along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses, "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their footsteps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses greeted him. Al-Khadir replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses said, "I am Moses." He asked, "The Moses of Bani Israel?" Moses replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses said, "Allah willing, you will find me patient and I will disobey no order of yours. So both of them set out walking along the seashore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: "O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al- Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses said, "Have you killed an innocent soul who has killed none." Al-Khadir replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir replied, "This is the parting between you and me." The Prophet added, "May Allah be Merciful to Moses! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 123
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت: لابن عباس، فقال: حدثنا ابي بن كعب، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: إن موسى، قال:" لفتاه آتنا غداءنا، قال: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، ولم يجد موسى النصب حتى جاوز المكان الذي امر الله به".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ مُوسَى، قَالَ:" لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا (نوف بکالی کہتا ہے کہ خضر کے پاس جو موسیٰ گئے تھے وہ دوسرے موسیٰ تھے) تو انہوں نے کہا کہ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر (یوشع بن نون) سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لا، اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے جب ہم نے چٹان پر پڑاؤ ڈالا تھا تو میں مچھلی وہیں بھول گیا (اور اپنے ساتھ نہ لا سکا) اور مجھے اسے یاد رکھنے سے صرف شیطان نے غافل رکھا اور موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکن معلوم نہیں کی جب تک اس حد سے نہ گزر لیے، جہاں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔
Narrated Ubai bin Ka`b: That he heard Allah's Apostle saying, "(The prophet) Moses said to his attendant, "Bring us our early meal' (18.62). The latter said, 'Did you remember when we betook ourselves to the rock? I indeed forgot the fish and none but Satan made me forget to remember it." (18.63) Moses did not feel tired till he had crossed the place which Allah ordered him to go to."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 498
(مرفوع) حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، ان عبيد الله بن عبد الله، اخبره، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه، قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك، قال: لا فاوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسال موسى السبيل إليه فجعل له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان يتبع الحوت في البحر، فقال: لموسى فتاه ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، فقال موسى: ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا فكان من شانهما الذي قص الله في كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ، قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، قَالَ: لَا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ فَجُعِلَ لَهُ الْحُوتُ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ فَكَانَ يَتْبَعُ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ: لِمُوسَى فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، فَقَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے عمر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا اختلاف ہوا۔ پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ‘ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں ‘ ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کے طور پر بتایا گیا اور کہا گیا کہ جب مچھلی گم ہو جائے (تو جہاں گم ہوئی ہو وہاں) واپس آ جانا وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام دریا میں (سفر کے دوران) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان سے ان کے رفیق سفر نے کہا کہ آپ نے خیال نہیں کیا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Al-Hur bin Qais Al-Fazari regarding the companion of Moses. Ibn `Abbas said that he was Al-Khadir. Meanwhile Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him saying, "My friend and I have differed regarding Moses' companion whom Moses asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle mentioning something about him?" He said, "Yes, I heard Allah's Apostle saying, 'While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked (him), 'Do you know anyone who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So, Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave, Khadir (is more learned than you).' Moses asked how to meet him (i.e. Khadir). So, the fish, was made, as a sign for him, and he was told that when the fish was lost, he should return and there he would meet him. So, Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant boy of Moses said to him, 'Do you know that when we were sitting by the side of the rock, I forgot the fish, and t was only Satan who made me forget to tell (you) about it.' Moses said, That was what we were seeking after,' and both of them returned, following their footmarks and found Khadir; and what happened further to them, is mentioned in Allah's Book."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 612
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت: لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم ان موسى صاحب الخضر ليس هو موسى بني إسرائيل إنما هو موسى آخر، فقال: كذب عدو الله حدثنا ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" ان موسى قام خطيبا في بني إسرائيل فسئل اي الناس اعلم، فقال: انا فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فقال له: بلى لي عبد بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب ومن لي به وربما، قال سفيان: اي رب وكيف لي به، قال: تاخذ حوتا فتجعله في مكتل حيثما فقدت الحوت فهو ثم وربما، قال: فهو ثمه واخذ حوتا فجعله في مكتل، ثم انطلق هو وفتاه يوشع بن نون حتى إذا اتيا الصخرة وضعا رءوسهما فرقد موسى واضطرب الحوت فخرج فسقط في البحر فاتخذ سبيله في البحر سربا فامسك الله عن الحوت جرية الماء فصار مثل الطاق، فقال: هكذا مثل الطاق فانطلقا يمشيان بقية ليلتهما ويومهما حتى إذا كان من الغد، قال: لفتاه آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا ولم يجد موسى النصب حتى جاوز حيث امره الله، قال: له فتاه ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره واتخذ سبيله في البحر عجبا فكان للحوت سربا ولهما عجبا، قال: له موسى ذلك ما كنا نبغي فارتدا على آثارهما قصصا رجعا يقصان آثارهما حتى انتهيا إلى الصخرة فإذا رجل مسجى بثوب فسلم موسى فرد عليه، فقال: وانى بارضك السلام، قال: انا موسى، قال موسى بني إسرائيل، قال: نعم، اتيتك لتعلمني مما علمت رشدا، قال: يا موسى إني على علم من علم الله علمنيه الله لا تعلمه وانت على علم من علم الله علمكه الله لا اعلمه، قال: هل اتبعك، قال: إنك لن تستطيع معي صبرا وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا إلى قوله إمرا سورة الكهف آية 68 - 71 فانطلقا يمشيان على ساحل البحر فمرت بهما سفينة كلموهم ان يحملوهم فعرفوا الخضر فحملوه بغير نول فلما ركبا في السفينة جاء عصفور فوقع على حرف السفينة فنقر في البحر نقرة او نقرتين، قال له: الخضر يا موسى ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا مثل ما نقص هذا العصفور بمنقاره من البحر إذ اخذ الفاس فنزع لوحا، قال: فلم يفجا موسى إلا وقد قلع لوحا بالقدوم، فقال: له موسى ما صنعت قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا سورة الكهف آية 72، قال: لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من امري عسرا سورة الكهف آية 73 فكانت الاولى من موسى نسيانا فلما خرجا من البحر مروا بغلام يلعب مع الصبيان فاخذ الخضر براسه فقلعه بيده هكذا واوما سفيان باطراف اصابعه كانه يقطف شيئا، فقال: له موسى اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا سورة الكهف آية 75، قال: إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني عذرا {76} فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض سورة الكهف آية 75-76 مائلا اوما بيده هكذا واشار سفيان كانه يمسح شيئا إلى فوق فلم اسمع سفيان يذكر مائلا إلا مرة، قال: قوم اتيناهم فلم يطعمونا ولم يضيفونا عمدت إلى حائطهم لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا سورة الكهف آية 78، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" وددنا ان موسى كان صبر فقص الله علينا من خبرهما، قال: سفيان، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يرحم الله موسى لو كان صبر لقص علينا من امرهما وقرا ابن عباس امامهم 0 ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا واما الغلام فكان كافرا وكان ابواه مؤمنين 0، ثم قال لي سفيان: سمعته منه مرتين وحفظته منه، قيل لسفيان حفظته قبل ان تسمعه من عمرو او تحفظته من إنسان، فقال: ممن اتحفظه ورواه احد، عن عمرو غيري سمعته منه مرتين او ثلاثا وحفظته منه. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ، فَقَالَ: أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: بَلَى لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ وَرُبَّمَا، قَالَ سُفْيَانُ: أَيْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ، قَالَ: تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ وَرُبَّمَا، قَالَ: فَهُوَ ثَمَّهْ وَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ، فَقَالَ: هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ: لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ، قَالَ: لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا، قَالَ: لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ مُوسَى فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، قَالَ: يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا إِلَى قَوْلِهِ إِمْرًا سورة الكهف آية 68 - 71 فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ، قَالَ لَهُ: الْخَضِرُ يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا، قَالَ: فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلَّا وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ، فَقَالَ: لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 72، قَالَ: لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا سورة الكهف آية 73 فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا فَلَمَّا خَرَجَا مِنَ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا، فَقَالَ: لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 75، قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا {76} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75-76 مَائِلًا أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلًا إِلَّا مَرَّةً، قَالَ: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا سورة الكهف آية 78، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا، قَالَ: سُفْيَانُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوْ كَانَ صَبَرَ لَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ 0 مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ 0، ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ، قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ، عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے رب العالمین! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا؟ سفیان نے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے کہ ”اے رب! «وكيف لي به»“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا۔ بعض دفعہ راوی نے (بجائے «فهو ثم» کے) «فهو ثمه» کہا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی (کے متعلق کہنا) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں (چٹان کے قریب) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إمرا» تک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لیے بغیر ان کو سوار کر لیا۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (یہ بے صبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لیے) آپ اس چیز کا مجھ سے مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی بات موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے (دھڑ سے) جدا کر دیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے (جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لیے) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا۔ سفیان نے (کیفیت بتانے کے لیے) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں۔ میں نے سفیان سے «مائلا» کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لیے بیان کرتا۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے (مزید واقعات) ہمیں معلوم ہوتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (جمہور کی قرآت «ودرائهم» کے بجائے) «أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» پڑھا ہے۔ اور وہ بچہ (جس کی خضر علیہ السلام نے جان لی تھی) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔ پھر مجھ سے سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی اور انہیں سے (سن کر) یاد کی تھی۔ سفیان نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا یہ حدیث آپ نے عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص سے سن کر (جس نے عمرو بن دینار سے سنی ہو) یاد کی تھی؟ یا (اس کے بجائے یہ جملہ کہا) «تحفظته من إنسان» دو مرتبہ (شک علی بن عبداللہ کو تھا) تو سفیان نے کہا کہ دوسرے کسی شخص سے سن کر میں یاد کرتا ‘ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے؟ میں نے ان سے یہ حدیث دو یا تین مرتبہ سنی اور انہیں سے سن کر یاد کی۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses." Ibn `Abbas said, "Allah's enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka`b told us that the Prophet said, 'Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, 'I.' Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, 'Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord! How can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.' Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), 'Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, 'Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.' So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, 'That was what we were seeking after.' So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, 'How do people greet each other in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man asked, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.' He said, 'O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.' Moses asked, 'May I follow you?' He said, 'But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?' (Moses said, 'You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.') So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, 'O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.' Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, 'What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.' Al-Khadir replied, 'Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?' Moses replied, 'Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.' So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, "Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing." Al-Khadir said, "Did I not tell you that you could not remain patient with me?' Moses said "If I ask you about anything after this, don't accompany me. You have received an excuse from me.' Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, "These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it." Al-Khadir said, "This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient." The Prophet added, "We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 613
(قدسي) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس: إن نوفا البكالي يزعم ان موسى صاحب الخضر ليس هو موسى صاحب بني إسرائيل، فقال ابن عباس: كذب عدو الله، حدثني ابي بن كعب، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن موسى قام خطيبا في بني إسرائيل، فسئل اي الناس اعلم؟ فقال: انا، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه إن لي عبدا بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال موسى: يا رب، فكيف لي به؟ قال: تاخذ معك حوتا فتجعله في مكتل، فحيثما فقدت الحوت فهو، ثم فاخذ حوتا فجعله في مكتل، ثم انطلق وانطلق معه بفتاه يوشع بن نون حتى إذا اتيا الصخرة وضعا رءوسهما فناما، واضطرب الحوت في المكتل، فخرج منه، فسقط في البحر، فاتخذ سبيله في البحر سربا، وامسك الله عن الحوت جرية الماء، فصار عليه مثل الطاق، فلما استيقظ نسي صاحبه ان يخبره بالحوت، فانطلقا بقية يومهما وليلتهما حتى إذا كان من الغد، قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال ولم يجد موسى النصب حتى جاوزا المكان الذي امر الله به، فقال له فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، واتخذ سبيله في البحر عجبا، قال: فكان للحوت سربا ولموسى ولفتاه عجبا، فقال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، قال: رجعا يقصان آثارهما حتى انتهيا إلى الصخرة، فإذا رجل مسجى ثوبا فسلم عليه موسى، فقال الخضر: وانى بارضك السلام، قال: انا موسى، قال موسى: بني إسرائيل؟ قال: نعم، اتيتك لتعلمني مما علمت رشدا، قال: إنك لن تستطيع معي صبرا يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه انت، وانت على علم من علم الله علمك الله لا اعلمه، فقال موسى: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا اعصي لك امرا، فقال له الخضر: فإن اتبعتني فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر، فمرت سفينة، فكلموهم ان يحملوهم، فعرفوا الخضر، فحملوهم بغير نول، فلما ركبا في السفينة لم يفجا إلا والخضر قد قلع لوحا من الواح السفينة بالقدوم، فقال له موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم، فخرقتها لتغرق اهلها، لقد جئت شيئا إمرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيت، ولا ترهقني من امري عسرا، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وكانت الاولى من موسى نسيانا"، قال: وجاء عصفور فوقع على حرف السفينة، فنقر في البحر نقرة، فقال له الخضر: ما علمي وعلمك من علم الله، إلا مثل ما نقص هذا العصفور من هذا البحر، ثم خرجا من السفينة، فبينا هما يمشيان على الساحل إذ ابصر الخضر غلاما يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر راسه بيده، فاقتلعه بيده، فقتله، فقال له موسى: اقتلت نفسا زاكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا؟ قال:" وهذه اشد من الاولى"، قال: إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني عذرا، فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها، فابوا ان يضيفوهما، فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض، قال: مائل، فقام الخضر، فاقامه بيده، فقال موسى: قوم اتيناهم فلم يطعمونا، ولم يضيفونا، لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك إلى قوله ذلك تاويل ما لم تسطع عليه صبرا سورة الكهف آية 78 - 82، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وددنا ان موسى كان صبر حتى يقص الله علينا من خبرهما"، قال سعيد بن جبير: فكان ابن عباس يقرا وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا، وكان يقرا واما الغلام فكان كافرا، وكان ابواه مؤمنين. (قدسي) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ مُوسَى: يَا رَبِّ، فَكَيْفَ لِي بِهِ؟ قَالَ: تَأْخُذُ مَعَكَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ، ثَمَّ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَنَامَا، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، فَخَرَجَ مِنْهُ، فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ، فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَا الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، قَالَ: فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا، فَقَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، قَالَ: رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى ثَوْبًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَقَالَ الْخَضِرُ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، فَقَالَ مُوسَى: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ، فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحَمَلُوهُمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ لَمْ يَفْجَأْ إِلَّا وَالْخَضِرُ قَدْ قَلَعَ لَوْحًا مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ بِالْقَدُومِ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ، فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا؟ قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا"، قَالَ: وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ، ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ، فَبَيْنَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ إِذْ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ، فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا؟ قَالَ:" وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى"، قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، قَالَ: مَائِلٌ، فَقَامَ الْخَضِرُ، فَأَقَامَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ مُوسَى: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا، وَلَمْ يُضَيِّفُونَا، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ إِلَى قَوْلِهِ ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا سورة الكهف آية 78 - 82، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا"، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا، وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ.
ہم سے عبدااللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا نوف بکالی کہتا ہے (جو کعب احبار کا رہیب تھا) کہ جن موسیٰ کی خضر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے (رسول) موسیٰ کے علاوہ دوسرے ہیں۔ (یعنی موسیٰ بن میثا بن افراثیم بن یوسف بن یعقوب) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دشمن خدا نے غلط کہا۔ مجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ سنانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم کسے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر غصہ کیا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتایا کہ دو دریاؤں (فارس اور روم) کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے رب! میں ان تک کیسے پہنچ پاؤں گا؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لو، وہ جہاں گم ہو جائے (زندہ ہو کر دریا میں کود جائے) بس میرا وہ بندہ وہیں ملے گا چنانچہ آپ نے مچھلی لی اور زنبیل میں رکھ کر روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے خادم یوشع بن نون بھی تھے۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو سر رکھ کر سو گئے، ادھر مچھلی زنبیل میں تڑپی اور اس سے نکل گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ پا لیا۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کی روانی کو روک دیا اور پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا (یہ حال یوشع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے) پھر جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع ان کو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گئے۔ اس لیے دن اور رات کا جو حصہ باقی تھا اس میں چلتے رہے، دوسرے دن موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب کھانا لاؤ، ہم کو سفر نے بہت تھکا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اس وقت تک نہیں تھکے جب تک وہ اس مقام سے نہ گزر چکے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ اب ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس تھے تو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گیا تھا اور صرف شیطانوں نے یاد رہنے نہیں دیا۔ اس نے تو عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مچھلی نے تو دریا میں اپنا راستہ لیا اور موسیٰ اور ان کے خادم کو (مچھلی کا جو نشان پانی میں اب تک موجود تھا) دیکھ کر تعجب ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ وہی جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم تھے، چنانچہ دونوں حضرات پیچھے اسی راستہ سے لوٹے۔ بیان کیا کہ دونوں حضرات پیچھے اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب (خضر علیہ السلام) کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں بیٹھے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا۔ خضر علیہ السلام نے کہا (تم کون ہو) تمہارے ملک میں ”سلام“ کہاں سے آ گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم آپ کو حاصل ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جسے آپ نہیں جانتے، اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے وہ میں نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ان شاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو کسی چیز کے متعلق سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ کو اس کے متعلق بتا دوں گا۔ اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کسی کرایہ کے بغیر انہیں سوار کر لیا۔ جب یہ دونوں کشتی پر بیٹھ گئے تو خضر علیہ السلام نے کلہاڑے سے کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا تو خضر علیہ السلام سے کہا کہ ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے انہیں کی کشتی چیر ڈالی تاکہ سارے مسافر ڈوب جائیں۔ بلاشبہ آپ نے یہ بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جو بات میں بھول گیا تھا اس پر مجھے معاف کر دیں اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کریں۔ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ پہلی مرتبہ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی سے کم کیا ہے۔ پھر یہ دونوں کشتی سے اتر گئے، ابھی وہ سمندر کے کنارے چل ہی رہے تھے کہ خضر علیہ السلام نے ایک بچہ کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ نے اس بچے کا سر اپنے ہاتھ میں دبایا اور اسے (گردن سے) اکھاڑ دیا اور اس کی جان لے لی۔ موسیٰ علیہ السلام اس پر بولے، آپ نے ایک بےگناہ کی جان بغیر کسی جان کے بدلے کے لے لی، یہ آپ نے بڑا ناپسند کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ سفیان بن عیینہ (راوی حدیث) نے کہا اور یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آخر اس مرتبہ بھی معذرت کی کہ اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میرا باربار عذر سن چکے ہیں (اس کے بعد میرے لیے بھی عذر کا کوئی موقع نہ رہے گا) پھر دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا کہ ہمیں اپنا مہمان بنا لو، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کیا، پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ بیان کیا کہ دیوار جھک رہی تھی۔ خضر علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور دیوار اپنے ہاتھ سے سیدھی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں کے یہاں ہم آئے اور ان سے کھانے کے لیے کہا، لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا، اگر آپ چاہتے تو دیوار کے اس سیدھا کرنے کے کام پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ذلك تأويل ما لم تسطع عليه صبرا» تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ نے صبر کیا ہوتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تلاوت کرتے تھے (جس میں خضر علیہ السلام نے اپنے کاموں کی وجہ بیان کی ہے کہ) کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو چھین لیا کرتا تھا اور اس کی بھی آپ تلاوت کرتے تھے کہ اور وہ غلام (جس کی گردن خضر علیہ السلام نے توڑ دی تھی) تو وہ (اللہ کے علم میں) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf Al-Bikali claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not the Moses of the children of Israel" Ibn `Abbas said, "The enemy of Allah (Nauf) told a lie." Narrated Ubai bin Ka`b that he heard Allah's Messenger saying, "Moses got up to deliver a speech before the children of Israel and he was asked, Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah admonished him for he did not ascribe knowledge to Allah alone. So Allah revealed to him: 'At the junction of the two seas there is a slave of Ours who is more learned than you.' Moses asked, 'O my Lord, how can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a basket (and set out), and where you, will lose the fish, you will find him.' So Moses (took a fish and put it in a basket and) set out, along with his boy-servant Yusha` bin Noon, till they reached a rock (on which) they both lay their heads and slept. The fish moved vigorously in the basket and got out of it and fell into the sea and there it took its way through the sea (straight) as in a tunnel). (18.61) Allah stopped the current of water on both sides of the way created by the fish, and so that way was like a tunnel. When Moses got up, his companion forgot to tell him about the fish, and so they carried on their journey during the rest of the day and the whole night. The next morning Moses asked his boy-servant 'Bring us our early meal; no doubt, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' (18.62) Moses did not get tired till he had passed the place which Allah had ordered him to seek after. His boy-servant then said to him,' 'Do you remember when we be-took ourselves to the rock I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. It took its course into the sea in a marvelous way.' (18.63) There was a tunnel for the fish and for Moses and his boy-servant there was astonishment. Moses said, 'That is what we have been seeking'. So they went back retracing their footsteps. (18.64) They both returned, retracing their steps till they reached the rock. Behold ! There they found a man covered with a garment. Moses greeted him. Al-Khadir said astonishingly. 'Is there such a greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' He said, 'Are you the Moses of the children of Israel?' Moses said, 'I have come to you so that you may teach me of what you have been taught. Al-Khadir said, 'You will not be able to have patience with me. (18.66) O Moses! I have some of Allah's knowledge which He has bestowed upon me but you do not know it; and you too, have some of Allah's knowledge which He has bestowed upon you, but I do not know it." Moses said, "Allah willing, you will find me patient, and I will not disobey you in anything.' (18.6) Al-Khadir said to him. 'If you then follow me, do not ask me about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70), After that both of them proceeded along the sea coast, till a boat passed by and they requested the crew to let them go on board. The crew recognized Al-Khadir and allowed them to get on board free of charge. When they got on board suddenly Moses saw that Al-Khadir had pulled out one of the planks of the boat with an adze. Moses said to him.' These people gave us a free lift, yet you have scuttled their boat so as to drown its people! Truly, you have done a dreadful thing.' (18.71) Al-Khadir said, 'Didn't I say that you can have no patience with me ?' (18.72) Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you.)" (18.73) Allah's Messenger said, "The first excuse given by Moses, was that he had forgotten. Then a sparrow came and sat over the edge of the boat and dipped its beak once in the sea. Al-Khadir said to Moses, 'My knowledge and your knowledge, compared to Allah's knowledge is like what this sparrow has taken out of the sea.' Then they both got out of the boat, and while they were walking on the sea shore, Al-Khadir saw a boy playing with other boys. Al-Khadir got hold of the head of that boy and pulled it out with his hands and killed him. Moses said, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody! Truly, you have done an illegal thing.' (18.74) He said, "Didn't I tell you that you can have no patience with me?' (18.75) (The sub narrator said, the second blame was stronger than the first one.) Moses said, 'If I ask you about anything after this, keep me not in your company, you have received an excuse from me.' (18.76) Then they both proceeded until they came to the inhabitants of a town. They asked them food but they refused to entertain them. (In that town) they found there a wall on the point of falling down. (18.77) Al-Khadir set it up straight with his own hands. Moses said, 'These are people to whom we came, but they neither fed us nor received us as guests. If you had wished, you could surely have exacted some recompense for it. Al-Khadir said, 'This is the parting between me and you ..that is the interpretation of (those things) over which you were unable to hold patience.' (18.78-82) Allah's Messenger said, "We wished that Moses could have been more patient so that Allah might have described to us more about their story."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 249
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم، قال: اخبرني يعلى بن مسلم، وعمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، يزيد احدهما على صاحبه وغيرهما قد سمعته يحدثه، عن سعيد بن جبير، قال: إنا لعند ابن عباس في بيته، إذ قال: سلوني؟ قلت: اي ابا عباس جعلني الله فداءك بالكوفة رجل قاص يقال له نوف يزعم انه ليس بموسى بني إسرائيل، اما عمرو، فقال لي: قال قد كذب عدو الله واما يعلى، فقال لي: قال ابن عباس: حدثني ابي بن كعب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" موسى رسول الله عليه السلام، قال: ذكر الناس يوما حتى إذا فاضت العيون، ورقت القلوب ولى، فادركه رجل، فقال اي رسول الله، هل في الارض احد اعلم منك؟ قال: لا، فعتب عليه إذ لم يرد العلم إلى الله، قيل: بلى، قال: اي رب فاين؟ قال: بمجمع البحرين، قال: اي رب اجعل لي علما اعلم ذلك به، فقال لي عمرو: قال حيث يفارقك الحوت، وقال لي يعلى: قال: خذ نونا ميتا حيث ينفخ فيه الروح، فاخذ حوتا فجعله في مكتل، فقال لفتاه: لا اكلفك إلا ان تخبرني بحيث يفارقك الحوت، قال: ما كلفت كثيرا، فذلك قوله جل ذكره: وإذ قال موسى لفتاه سورة الكهف آية 60 يوشع بن نون ليست، عن سعيد، قال: فبينما هو في ظل صخرة في مكان ثريان إذ تضرب الحوت وموسى نائم، فقال فتاه: لا اوقظه حتى إذا استيقظ نسي ان يخبره، وتضرب الحوت حتى دخل البحر، فامسك الله عنه جرية البحر حتى كان اثره في حجر، قال لي عمرو: هكذا كان اثره في حجر، وحلق بين إبهاميه، واللتين تليانهما لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، قال: قد قطع الله عنك النصب ليست هذه عن سعيد اخبره، فرجعا فوجدا خضرا، قال لي عثمان بن ابي سليمان: على طنفسة خضراء على كبد البحر، قال سعيد بن جبير: مسجى بثوبه قد جعل طرفه تحت رجليه، وطرفه تحت راسه، فسلم عليه موسى، فكشف عن وجهه، وقال: هل بارضي من سلام من انت؟ قال: انا موسى، قال موسى: بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: فما شانك؟ قال: جئت لتعلمني مما علمت رشدا، قال: اما يكفيك ان التوراة بيديك، وان الوحي ياتيك يا موسى، إن لي علما لا ينبغي لك ان تعلمه، وإن لك علما لا ينبغي لي ان اعلمه، فاخذ طائر بمنقاره من البحر، وقال: والله ما علمي وما علمك في جنب علم الله إلا كما اخذ هذا الطائر بمنقاره من البحر، حتى إذا ركبا في السفينة وجدا معابر صغارا تحمل اهل هذا الساحل إلى اهل هذا الساحل الآخر عرفوه، فقالوا: عبد الله الصالح، قال: قلنا لسعيد: خضر؟ قال: نعم، لا نحمله باجر، فخرقها ووتد فيها وتدا، قال موسى: اخرقتها لتغرق اهلها، لقد جئت شيئا إمرا، قال مجاهد: منكرا، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟ كانت الاولى نسيانا، والوسطى شرطا، والثالثة عمدا، قال: لا تؤاخذني بما نسيت، ولا ترهقني من امري عسرا لقيا غلاما، فقتله، قال يعلى: قال سعيد: وجد غلمانا يلعبون، فاخذ غلاما كافرا ظريفا، فاضجعه، ثم ذبحه بالسكين، قال: اقتلت نفسا زكية بغير نفس لم تعمل بالحنث، وكان ابن عباس قراها زكية زاكية مسلمة كقولك غلاما زكيا، فانطلقا فوجدا جدارا يريد ان ينقض، فاقامه، قال سعيد: بيده هكذا ورفع يده، فاستقام، قال يعلى: حسبت ان سعيدا، قال: فمسحه بيده، فاستقام، لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال سعيد: اجرا ناكله، وكان وراءهم، وكان امامهم، قراها ابن عباس امامهم ملك يزعمون عن غير سعيد، انه هدد بن بدد والغلام المقتول اسمه يزعمون جيسور ملك ياخذ كل سفينة غصبا، فاردت إذا هي مرت به ان يدعها لعيبها، فإذا جاوزوا اصلحوها، فانتفعوا بها، ومنهم من يقول: سدوها بقارورة، ومنهم من يقول: بالقار كان ابواه مؤمنين، وكان كافرا فخشينا ان يرهقهما طغيانا وكفرا ان يحملهما حبه على ان يتابعاه على دينه، فاردنا ان يبدلهما ربهما خيرا منه زكاة، لقوله: اقتلت نفسا زكية واقرب رحما هما به ارحم منهما بالاول الذي قتل خضر، وزعم غير سعيد انهما ابدلا جارية، واما داود بن ابي عاصم، فقال: عن غير واحد إنها جارية". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ، إِذْ قَالَ: سَلُونِي؟ قُلْتُ: أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، أَمَّا عَمْرٌو، فَقَالَ لِي: قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَى، فَقَالَ لِي: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتِ الْعُيُونُ، وَرَقَّتِ الْقُلُوبُ وَلَّى، فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ؟ قَالَ: لَا، فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ، قِيلَ: بَلَى، قَالَ: أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ؟ قَالَ: بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ، قَالَ: أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ، فَقَالَ لِي عَمْرٌو: قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، وَقَالَ لِي يَعْلَى: قَالَ: خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، فَقَالَ لِفَتَاهُ: لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ، قَالَ: مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ سورة الكهف آية 60 يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ، فَقَالَ فَتَاهُ: لَا أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ، وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، قَالَ لِي عَمْرٌو: هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ، وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ، فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا، قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ، وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا، قَالَ: أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ، وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ يَا مُوسَى، إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ، وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ، فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ، فَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ، قَالَ: قُلْنَا لِسَعِيدٍ: خَضِرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ، فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا، قَالَ مُوسَى: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ مُجَاهِدٌ: مُنْكَرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا؟ كَانَتِ الْأُولَى نِسْيَانًا، وَالْوُسْطَى شَرْطًا، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا، فَقَتَلَهُ، قَالَ يَعْلَى: قَالَ سَعِيدٌ: وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا ظَرِيفًا، فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ، قَالَ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلَامًا زَكِيًّا، فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ، فَأَقَامَهُ، قَالَ سَعِيدٌ: بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ، فَاسْتَقَامَ، قَالَ يَعْلَى: حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا، قَالَ: فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ، فَاسْتَقَامَ، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ سَعِيدٌ: أَجْرًا نَأْكُلُهُ، وَكَانَ وَرَاءَهُمْ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ، قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا، فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا، فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا، فَانْتَفَعُوا بِهَا، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: بِالْقَارِ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ، وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ، فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً، لِقَوْلِهِ: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ، وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً، وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ، فَقَالَ: عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ".
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریر نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے، دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیادہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ ایک اور صاحب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کر بیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو۔ میں نے عرض کیا: اے ابوعباس! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی (نوف بکالی) ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ، خضر علیہ السلام سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں (ابن جریج نے بیان کیا کہ) عمرو بن دینار نے تو روایت اس طرح بیان کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھوٹی بات کہتا ہے اور یعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میں اس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لیے مڑے۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر عتاب نازل کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی۔ (ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے)۔ ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے پروردگار! وہ کہاں ہے۔ اللہ نے فرمایا جہاں (فارس اور روم کے) دو دریا ملے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! میرے لیے ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں۔ اب عمرو بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے (وہیں وہ ملیں گے) اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے (وہیں وہ ملیں گے) موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمایا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإذ قال موسى لفتاه» میں وہ «فتي»(رفیق سفر) یوشع ابن نون تھے۔ سعید بن جبیر (راوی حدیث) نے اپنی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی۔ موسیٰ علیہ السلام سو رہے تھے اس لیے یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہئے۔ لیکن جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا اور دونوں انگوٹھوں اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر ایک حلقہ کی طرح اس کو بتایا۔ بیدار ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔ آخر کہنے لگے۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔ ان کے خادم نے عرض کیا۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کر دیا ہے (اور مچھلی زندہ ہو گئی ہے)۔ ابن جریج نے بیان کیا کہ یہ ٹکڑا سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی (ابن جریج نے کہا) مجھ سے عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیا کہ خضر علیہ السلام دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ اور سعید بن جبیر نے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا۔ آپ کون ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا، موسیٰ بنی اسرائیل؟ فرمایا کہ ہاں! پوچھا، آپ کیوں آئے ہیں؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ اس پر خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ موسیٰ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لیے مناسب نہیں۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔ کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے۔ لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں شگاف کر دیئے اور اس میں (تختوں کی جگہ) کیلیں گاڑ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے اس لیے اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں۔ بلاشبہ آپ نے ایک بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ مجاہد نے آیت میں «إمرا» کا ترجمہ «منكرا» کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا۔ یعلیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ خضر علیہ السلام کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بےگناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا، قتل کر ڈالا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت میں «زكية» کی جگہ «زاكية» پڑھا کرتے تھے۔ بمعنی «مسلمة» جیسے «غلاما زكيا» میں ہے۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اسے ٹھیک کر دیا۔ سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح۔ یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے۔ آیت «وكان وراءهم» کی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآت «وكان أمامهم» کی یعنی کشتی جہاں جا رہی تھی اس ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ سعید کے سوا دوسرے راوی سے اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہر (نئی) کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ لگا کر جوڑا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تار کول سے جوڑا تھا (اور جس بچہ کو قتل کر دیا تھا) تو اس کے والدین مومن تھے اور وہ بچہ (اللہ کی تقدیر میں) کافر تھا۔ اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں (بڑا ہو کر) وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے۔ «وأقرب رحما» یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن ابی عاصم رحمہ اللہ کئی راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔
Narrated Ibn Juraij: Ya`la bin Muslim and `Amr bin Dinar and some others narrated the narration of Sa`id bin Jubair. Narrated Sa`id: While we were at the house of Ibn `Abbas, Ibn `Abbas said, "Ask me (any question)" I said, "O Abu `Abbas! May Allah let me be sacrificed for you ! There is a man at Kufa who is a storyteller called Nauf; who claims that he (Al-Khadir's companion) is not Moses of Bani Israel." As for `Amr, he said to me, "Ibn `Abbas said, "(Nauf) the enemy of Allah told a lie." But Ya`la said to me, "Ibn `Abbas said, Ubai bin Ka`b said, Allah's Messenger said, 'Once Moses, Allah's Messenger , preached to the people till their eyes shed tears and their hearts became tender, whereupon he finished his sermon. Then a man came to Moses and asked, 'O Allah's Messenger ! Is there anyone on the earth who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So Allah admonished him (Moses), for he did not ascribe all knowledge to Allah. It was said, (on behalf of Allah), 'Yes, (there is a slave of ours who knows more than you ).' Moses said, 'O my Lord! Where is he?' Allah said, 'At the junction of the two seas.' Moses said, 'O my Lord ! Tell I me of a sign whereby I will recognize the place.' " `Amr said to me, Allah said, "That place will be where the fish will leave you." Ya`la said to me, "Allah said (to Moses), 'Take a dead fish (and your goal will be) the place where it will become alive.' " So Moses took a fish and put it in a basket and said to his boy-servant "I don't want to trouble you, except that you should inform me as soon as this fish leaves you." He said (to Moses)." You have not demanded too much." And that is as mentioned by Allah: 'And (remember) when Moses said to his attendant .... ' (18.60) Yusha` bin Noon. (Sa`id did not state that). The Prophet said, "While the attendant was in the shade of the rock at a wet place, the fish slipped out (alive) while Moses was sleeping. His attend an said (to himself), "I will not wake him, but when he woke up, he forgot to tell him The fish slipped out and entered the sea. Allah stopped the flow of the sea. where the fish was, so that its trace looked as if it was made on a rock. `Amr forming a hole with his two thumbs an index fingers, said to me, "Like this, as in its trace was made on a rock." Moses said "We have suffered much fatigue on this journey of ours." (This was not narrated by Sa`id). Then they returned back and found Al-Khadir. `Uthman bin Abi Sulaiman said to me, (they found him) on a green carpet in the middle of the sea. Al-Khadir was covered with his garment with one end under his feet and the other end under his head. When Moses greeted, he uncovered his face and said astonishingly, 'Is there such a greeting in my land? Who are you?' Moses said, 'I am Moses.' Al- Khadir said, 'Are you the Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes.' Al-Khadir said, "What do you want?' Moses said, ' I came to you so that you may teach me of the truth which you were taught.' Al- Khadir said, 'Is it not sufficient for you that the Torah is in your hands and the Divine Inspiration comes to you, O Moses? Verily, I have a knowledge that you ought not learn, and you have a knowledge which I ought not learn.' At that time a bird took with its beak (some water) from the sea: Al-Khadir then said, 'By Allah, my knowledge and your knowledge besides Allah's Knowledge is like what this bird has taken with its beak from the sea.' Until, when they went on board the boat (18.71). They found a small boat which used to carry the people from this sea-side to the other sea-side. The crew recognized Al-Khadir and said, 'The pious slave of Allah.' (We said to Sa`id "Was that Khadir?" He said, "Yes.") The boat men said, 'We will not get him on board with fare.' Al-Khadir scuttled the boat and then plugged the hole with a piece o wood. Moses said, 'Have you scuttle it in order to drown these people surely, you have done a dreadful thing. (18.71) (Mujahid said. "Moses said so protestingly.") Al-Khadir said, didn't I say that you can have no patience with me?' (18.72) The first inquiry of Moses was done because of forget fullness, the second caused him to be bound with a stipulation, and the third was done he intentionally. Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you).' (18.73) (Then) they found a boy and Al-Khadir killed him. Ya`la- said: Sa`id said 'They found boys playing and Al-Khadir got hold of a handsome infidel boy laid him down and then slew him with knife. Moses said, 'Have you killed a innocent soul who has killed nobody' (18.74) Then they proceeded and found a wall which was on the point of falling down, and Al-Khadir set it up straight Sa`id moved his hand thus and said 'Al-Khadir raised his hand and the wall became straight. Ya`la said, 'I think Sa`id said, 'Al-Khadir touched the wall with his hand and it became straight (Moses said to Al-Khadir), 'If you had wished, you could have taken wages for it. Sa`id said, 'Wages that we might had eaten.' And there was a king in furor (ahead) of them" (18.79) And there was in front of them. Ibn `Abbas recited: 'In front of them (was) a king.' It is said on the authority of somebody other than Sa`id that the king was Hudad bin Budad. They say that the boy was called Haisur. 'A king who seized every ship by force. (18.79) So I wished that if that boat passed by him, he would leave it because of its defect and when they have passed they would repair it and get benefit from it. Some people said that they closed that hole with a bottle, and some said with tar. 'His parents were believers, and he (the boy) was a non-believer and we(Khadir) feared lest he would oppress them by obstinate rebellion and disbelief.' (18.80) (i.e. that their love for him would urge them to follow him in his religion, 'so we (Khadir) desired that their Lord should change him for them for one better in righteousness and near to mercy' (18:81). This was in reply to Moses' saying: Have you killed an innocent soul.'? (18.74). 'Near to mercy" means they will be more merciful to him than they were to the former whom Khadir had killed. Other than Sa`id, said that they were compensated with a girl. Dawud bin Abi `Asim said on the authority of more than one that this next child was a girl.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 250
(قدسي) حدثني قتيبة بن سعيد، قال: حدثني سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس: إن نوفا البكاليي زعم ان موسى بني إسرائيل ليس بموسى الخضر، فقال: كذب عدو الله، حدثنا ابي بن كعب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" قام موسى خطيبا في بني إسرائيل، فقيل له: اي الناس اعلم؟ قال: انا، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، واوحى إليه، بلى عبد من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب كيف السبيل إليه؟ قال: تاخذ حوتا في مكتل، فحيثما فقدت الحوت فاتبعه، قال: فخرج موسى ومعه فتاه يوشع بن نون ومعهما الحوت حتى انتهيا إلى الصخرة، فنزلا عندها، قال: فوضع موسى راسه فنام، قال سفيان: وفي حديث غير عمرو، قال: وفي اصل الصخرة عين يقال لها الحياة لا يصيب من مائها شيء إلا حيي، فاصاب الحوت من ماء تلك العين، قال: فتحرك وانسل من المكتل، فدخل البحر، فلما استيقظ موسى، قال لفتاه آتنا غداءنا سورة الكهف آية 62 الآية، قال: ولم يجد النصب حتى جاوز ما امر به، قال له فتاه يوشع بن نون، ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت سورة الكهف آية 63 الآية، قال: فرجعا يقصان في آثارهما، فوجدا في البحر كالطاق ممر الحوت، فكان لفتاه عجبا وللحوت سربا، قال: فلما انتهيا إلى الصخرة إذ هما برجل مسجى بثوب فسلم عليه موسى، قال: وانى بارضك السلام، فقال: انا موسى، قال موسى: بني إسرائيل، قال: نعم، قال: هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا؟ قال له الخضر: يا موسى إنك على علم من علم الله علمكه الله لا اعلمه، وانا على علم من علم الله علمنيه الله لا تعلمه، قال: بل اتبعك، قال: فإن اتبعتني فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا، فانطلقا يمشيان على الساحل، فمرت بهم سفينة، فعرف الخضر، فحملوهم في سفينتهم بغير نول، يقول: بغير اجر، فركبا السفينة، قال: ووقع عصفور على حرف السفينة، فغمس منقاره في البحر، فقال الخضر لموسى: ما علمك وعلمي وعلم الخلائق في علم الله إلا مقدار ما غمس هذا العصفور منقاره، قال: فلم يفجا موسى إذ عمد الخضر إلى قدوم، فخرق السفينة، فقال له موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت سورة الكهف آية 71 الآية، فانطلقا إذا هما بغلام يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر براسه فقطعه، قال له موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا قال الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا إلى قوله فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض سورة الكهف آية 75 - 77، فقال بيده: هكذا، فاقامه، فقال له موسى: إنا دخلنا هذه القرية فلم يضيفونا ولم يطعمونا، لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وددنا ان موسى صبر حتى يقص علينا من امرهما، قال: وكان ابن عباس يقرا 0 وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا واما الغلام فكان كافرا 0".(قدسي) حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّيَ زْعُمُ أَنَّ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى الْخَضِرِ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقِيلَ لَهُ: أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ قَالَ: أَنَا، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، وَأَوْحَى إِلَيْهِ، بَلَى عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ؟ قَالَ: تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَنَزَلَا عِنْدَهَا، قَالَ: فَوَضَعَ مُوسَى رَأْسَهُ فَنَامَ، قَالَ سُفْيَانُ: وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو، قَالَ: وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لَا يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَيْءٌ إِلَّا حَيِيَ، فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَاءِ تِلْكَ الْعَيْنِ، قَالَ: فَتَحَرَّكَ وَانْسَلَّ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَدَخَلَ الْبَحْرَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَى، قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا سورة الكهف آية 62 الْآيَةَ، قَالَ: وَلَمْ يَجِدِ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ، قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ سورة الكهف آية 63 الْآيَةَ، قَالَ: فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا، فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ كَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ، فَكَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا وَلِلْحُوتِ سَرَبًا، قَالَ: فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، قَالَ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا؟ قَالَ لَهُ الْخَضِرُ: يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ، قَالَ: بَلْ أَتَّبِعُكَ، قَالَ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، فَمَرَّتْ بِهِمْ سَفِينَةٌ، فَعُرِفَ الْخَضِرُ، فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ، يَقُولُ: بِغَيْرِ أَجْرٍ، فَرَكِبَا السَّفِينَةَ، قَالَ: وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى: مَا عِلْمُكَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلَائِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ، قَالَ: فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى قَدُومٍ، فَخَرَقَ السَّفِينَةَ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ سورة الكهف آية 71 الْآيَةَ، فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ، قَالَ لَهُ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا إِلَى قَوْلِهِ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75 - 77، فَقَالَ بِيَدِهِ: هَكَذَا، فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ 0 وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا 0".
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ساتھ تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے ”حیات“ کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا «قال لفتاه آتنا غداءنا» کہ ”ہمارا ناشتہ لاؤ“ الآیۃ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا «أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت»”آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا“ الآیۃ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں! موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ خضر علیہ السلام نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو خضر علیہ السلام کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھا لیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر یکدم جب خضر علیہ السلام نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بڑی بری بات ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کاش موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما «وكان وراءهم ملك» کی بجائے «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» قرآت کرتے تھے اور بچہ (جسے قتل کیا تھا) اس کے والدین مومن تھے۔ اور یہ بچہ (مشیت الٰہی میں) کافر تھا۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf-al-Bakali " claims that Moses of Bani Israel was not Moses, the companion of Al-Khadir." Ibn `Abbas said, "Allah's enemy tells a lie! Ubai bin Ka`b narrated to us that Allah's Messenger said, 'Moses got up to deliver a sermon before Bani Israel and he was asked, 'Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah then admonished Moses for he did not ascribe all knowledge to Allah only (Then) came the Divine Inspiration:-- 'Yes, one of Our slaves at the junction of the two seas is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord ! How can meet him?' Allah said, 'Take a fish in a basket and wherever the fish is lost, follow it (you will find him at that place). So Moses set out along with his attendant Yusha` bin Noon, and they carried with them a fish till they reached a rock and rested there. Moses put his head down and slept. (Sufyan, a sub-narrator said that somebody other than `Amr said) 'At the rock there was a water spring called 'Al-Hayat' and none came in touch with its water but became alive. So some of the water of that spring fell over that fish, so it moved and slipped out of the basket and entered the sea. When Moses woke up, he asked his attendant, 'Bring our early meal' (18.62). The narrator added: Moses did not suffer from fatigue except after he had passed the place he had been ordered to observe. His attendant Yusha` bin Noon said to him, 'Do you remember (what happened) when we betook ourselves to the rock? I did indeed forget (about) the fish ...' (18.63) The narrator added: So they came back, retracing their steps and then they found in the sea, the way of the fish looking like a tunnel. So there was an astonishing event for his attendant, and there was tunnel for the fish. When they reached the rock, they found a man covered with a garment. Moses greeted him. The man said astonishingly, 'Is there any such greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man said, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes,' and added, 'may I follow you so that you teach me something of the Knowledge which you have been taught?' (18.66). Al-Khadir said to him, 'O Moses! You have something of Allah's knowledge which Allah has taught you and which I do not know; and I have something of Allah's knowledge which Allah has taught me and which you do not know.' Moses said, 'But I will follow you.' Al-Khadir said, 'Then if you follow me, ask me no question about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70). After that both of them proceeded along the seashore. There passed by them a boat whose crew recognized Al-Khadir and received them on board free of charge. So they both got on board. A sparrow came and sat on the edge of the boat and dipped its beak unto the sea. Al-Khadir said to Moses. 'My knowledge and your knowledge and all the creation's knowledge compared to Allah's knowledge is not more than the water taken by this sparrow's beak.' Then Moses was startled by Al-Khadir's action of taking an adze and scuttling the boat with it. Moses said to him, 'These people gave us a free lift, but you intentionally scuttled their boat so as to drown them. Surely you have...' (18.71) Then they both proceeded and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of him by the head and cut it off. Moses said to him, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody? Surely you have done an illegal thing! ' (18.74) He said, "Didn't I tell you that you will not be able to have patient with me up to ..but they refused to entertain them as their guests. There they found a wall therein at the point of collapsing.' (18.75-77) Al-Khadir moved his hand thus and set it upright (repaired it). Moses said to him, 'When we entered this town, they neither gave us hospitality nor fed us; if you had wished, you could have taken wages for it,' Al- Khadir said, 'This is the parting between you and me I will tell you the interpretation of (those things) about which you were unable to hold patience.'...(18.78) Allah's Messenger said, 'We wished that Moses could have been more patient so that He (Allah) could have described to us more about their story.' Ibn `Abbas used to recite:-- 'And in front (ahead) of them there was a king who used to seize every (serviceable) boat by force. (18.79) ...and as for the boy he was a disbeliever. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 251