Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
31. بَابٌ في الْمَشِيئَةِ وَالإِرَادَةِ:
باب: مشیت اور ارادہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7478
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرٌو، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى أَهُوَ خَضِرٌ، فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟، قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَيْنَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟، فَقَالَ مُوسَى: لَا، فَأُوحِيَ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ، فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، فَكَانَ مُوسَى يَتْبَعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ؟ قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا وَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص عمرو نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عقبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ اور حر بن قیس بن حصین الفزاری، موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں اختلاف کر رہے تھے کہ کیا وہ خضر علیہ السلام ہی تھے۔ اتنے میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور ان سے کہا کہ میں اور میرا یہ ساتھی اس بارے میں شک میں ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے وہ صاحب کون تھے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کوئی حدیث سنی ہے انہوں نے کہا کہ ہاں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ایک مجمع میں تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ نہیں۔ چنانچہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملاقات کا راستہ معلوم کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مچھلی کو نشان قرار دیا اور آپ سے کہا گیا کہ جب تم مچھلی کو گم پاؤ تو لوٹ جانا کہ وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام مچھلی کا نشان دریا میں ڈھونڈنے لگے اور آپ کے ساتھی نے آپ کو بتایا کہ آپ کو معلوم ہے۔ جب ہم نے چٹان پر ڈیرہ ڈالا تھا تو وہیں میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان نے اسے بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ جگہ وہی ہے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں پس وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس لوٹے اور انہوں نے خضر علیہ السلام کو پا لیا ان ہی دونوں کا یہ قصہ ہے جو اللہ نے بیان فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7478 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7478  
حدیث حاشیہ:

ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو وعظ کر رہے تھے وہ تقریر اس قدر پر تاثیر تھی کہ حاضرین پررقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
ایک شخص نے متاثر ہو کر سوال کر دیا کہ آپ سے زیادہ کوئی علم رکھنے والا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے لیکن انھوں نے کہا:
یہاں کوئی مجھ سے زیادہ علم والا نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا اور انھیں بتایا کہ حضرت خضر علیہ السلام میرے ایسے بندے ہیں جو تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔
اس بنا پر موسیٰ علیہ السلام نے سمندری سفر کرنے کی زحمت کی۔
قرآن کریم میں اس واقعے کی تفصیل ہے کہ پہلے کشتی میں سوراخ کیا، پھر ایک معصوم بچے کو مارڈالا، آخر میں اجرت کے بغیر ایک گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دیا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر انتہائی اختصار سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں محل استشہاد بھی نہیں بیان ہوا۔
آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں درج ذیل آیت کریمہ مذکور ہے:
موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ مجھے ان شاء اللہ صابر پائیں گے اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
(الکهف 69)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں اس واقعے کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4725)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رفاقت کے دوران صبر کرنے کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا اور اپنے پروگرام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے پورا عزم کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش کے تابع نہ تھی کہ اسے پورا کرنے دیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام معاملات پر غالب ہوتی ہے کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام بھر پور کوشش کے باوجود اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر ان الفاظ میں اظہار افسوس فرمایا:
کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات کا مظاہرہ ہوتا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4727)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7478   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ`
«. . . سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ . . .»
. . . سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ:: 122]
تشریح:
نوف بکالی تابعین سے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انہوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے خلاف رائے و قیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔

سیدنا خضر علیہ السلام نبی ہوں یا ولی مگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں ہو سکتے۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایا جو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، موسیٰ علیہ السلام نے جب خضر علیہ السلام کو سلام کیا، تو انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضر علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بے گار میں پکڑنے کے لیے چلا آ رہا تھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑ دیا، جب وہ گزر گیا تو خضر علیہ السلام نے پھر اسے جوڑ دیا، بچے کا قتل اس لیے کہ خضر علیہ السلام کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضر ہو گا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو، پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہو گیا۔ دیوار کو اس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دو یتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کر گیا وہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کر دیا۔ موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہو سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 122   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3400  
3400. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر ؑ ہیں۔ اس دوران میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے ساتھی کا صاحب موسیٰ ؑ کے متعلق اختلاف ہوگیا ہے جس سے ملاقات کا حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے مجمع میں وعظ کررہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے آکر کہا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: (مجھ سے زیادہ کوئی عالم) نہیں۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3400]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کی سورہ کہف میں حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کی اس ملاقات کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔
وہاں مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ بہت سےظاہری امور قابل اعتراض نظر آجاتے ہیں مگر ان کی حقیقت کھلنے پران کا حق ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے فتویٰ دینے میں ہرہر پہلو پرغور کرناضروری ہوتاہے۔
اللہ پاک علماء و فقہاء سب کونیک سمجھ عطا کرے کہ وہ حضر ت خضر اورحضرت موسیٰ کےواقعہ سےبصیرت حاصل کریں۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3400   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4725  
4725. حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے: خضر کے ساتھی حضرت موسٰی وہ بنی اسرائیل کے موسٰی نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔ مجھے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بتایا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حضرت موسٰی ؑ بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اس دوران میں آپ سے پوچھا گیا: لوگوں میں زیادہ عالم کون ہے؟ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اس بات پر اللہ تعالٰی ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب نہیں کیا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی ؑ کی طرف وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے عرض کی: اے میرے رب! میں اس سے ملاقات کس طرح کر سکتا ہوں؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا: اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4725]
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام سے متعلق بہت سی باتیں کی گئی ہیں جن کی تفصیل کے لئے کتب تفاسیر کا مطالعہ ضروری ہے۔
نوف بکالی جس کا ذکر شروع میں ہے وہ مسلمان تھا مگر حدیث کے خلاف کہنے پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے اللہ کا دشمن قرار دیا۔
بعضوں نے کہا کہ تغلیظا کہا اور حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔
غرض حدیث کے خلاف چلنے والوں کو اللہ کا دشمن کہہ سکتے ہیں۔
علم کی قدر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت خضرکے علم کا ذکر سنتے ہی شوق ملاقات کا اظہار فرمایا اور ان سے ملنے کی آرزو ظاہر کی اور ہر طرح کی تکلیف سفر وغیرہ گوارا کی۔
علم ایسی ہی چیز ہے جس کے لئے آدمی مشرق سے مغرب تک سفر کرے تو بھی بہت نہیں ہے۔
علم ہی سے دنیا کی تمام قومیں دوسری قوموں کی جو بے علم تھیں سرتاج بن گئیں۔
افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں جیسی بے قدری علم اور عالموں کی مسلمانوں میں ہے ویسی کسی قوم میں نہیں ہے۔
علم حاصل کرنے کیلئے سفر کرنا تو کجا اگر ان میں کوئی عالم کسی ملک سے آ جاتا ہے تو یہ الٹے اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس کے نکالنے اور معزول کرانے کی فکر میں رہتے ہیں إلا ما شاء اللہ۔
حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا طریق اور ہے میرا طریق اور ہے اور میں اللہ کی طرف سے خاص باتوں پر مامور ہوں۔
تم ہدایت عام کے لئے بھیجے گئے ہو میں کہاں تک تم کو سمجھا تا رہوں گا۔
بعض کم فہم صوفیوں نے اس حدیث کی شرح میں یوں کہا ہے کہ حضرت موسیٰ کو صرف شریعت کا علم تھا اور خضر کو حقیقت کا اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں علم ملے تھے۔
یہ تقریر صحیح نہیں ہے۔
حضرت موسیٰ انبیاء اولوالعزم میں سے تھے ان کو تو حقیقت کا علم نہ ہو اور ادنیٰ سے ادنیٰ نام نہاد اولیاءاللہ کو ہو جائے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔
اس طرح حضرت خضر کو شریعت کا علم بالکل نہ ہو تو حقیقت کا علم کیونکر ہوگا۔
حقیقت بغیر شریعت کے زندقہ اور الحاد ہے۔
شریعت محمدی میں کوئی بھی امر ایسا نہیں ہے جو ظاہری خوبیوں کے ساتھ اپنے اندر بہت سی باطنی خوبیاں بھی نہ رکھتا ہو۔
اس طرح شریعت اسلامی ظاہر و باطن کا بہترین مجموعہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4725   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4726  
4726. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر تھے، انہوں نے فرمایا: مجھ سے کوئی سوال کرو۔ میں نے عرض کی: ابو عباس! اللہ تعالٰی آپ پر مجھے قربان کرے! کوفہ میں ایک آدمی واعظ ہے، جسے نوف کہا جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ حضرت خضر ؑ سے ملاقات کرنے والے موسٰی بنی اسرائیل والے موسٰی نہیں تھے۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے کیونکہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت موسٰی رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کو ایسا وعظ کیا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل پسیج گئے۔ جب آپ واپس جانے لگے تو ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی۔ ان سے کہا گیا: کیوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4726]
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث موسیٰ وخضر علیہما السلام کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں صرف اس لئے لائے ہیں کہ اس میں دو دریاؤں کے سنگم پر حضرت موسیٰ وحضرت خضر علیہما السلام کے ملنے کا ذکر ہے۔
جیسا آیت مذکورہ میں بیان ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4726   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 122]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت قریب قریب ہے باب قائم فرمایا کہ جب پوچھا جائے کہ کون بڑا عالم ہے تو جواباً مفتی کو یہی فرمانا چاہیے کہ اللہ جانتا ہے لہٰذا حدیث میں موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمانا یہی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے علم کی نسبت اپنے لیے فرمائی، لہٰذا ان کو علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے تھی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی عالم سے جب «اي الناس اعلم» کا سوال کیا جائے تو «انا اعلم» کہنا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ اس کا اس وقت میں «اعلم الناس» ہونا محقق ہو، بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس جواب میں «الله اعلم» کہے۔ چنانچہ حدیث باب سے یہ امر روشن ہے۔‏‏‏‏ [الأبواب والتراجم. ص 57]

سابقہ باب «الخروج فى طلب العلم» میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ذکر فرمائے کہ جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ «هل تعلم احدا اعلم منك؟» کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بڑا کوئی اور عالم ہے؟ اور مذکورہ باب کے تحت یہ الفاظ وارد ہیں «انا اعلم»، لہٰذا یہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي لا مخالفة بينهما» کہ میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص199]

فائدہ نمبر
فتوی کے آداب اور ان مسائل پر کئی پہلو سے گفتگو کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
➊ الشیخ حامد العمادی الدمشقی کی کتاب صلاح العالم بافتاء العالم
➋ فتاویٰ ابن الصلاح
الفتاویٰ المصریۃ للعز بن عبدالسلام
➍ فتاویٰ النووی
➍ فتاوی شمس الدین الرملی

نوٹ:
صلاۃ الرغائب سے متعلق ابن الصلاح اور العز بن عبدالسلام کے درمیان جو اختلاف رائے ہوا تھا وہ بھی تاریخی شہرت کا حامل ہے امام سبکی نے طبقات الشافیعۃ الکبرى میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا۔

فائدہ نمبر
مذکورہ واقعہ سیدنا موسیٰ و خضر علیہما السلام کا ہے بعض لاعلم طبقہ خضر علیہ السلام کو حیات سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں یہ فاسد اور باطل نظریہ قرآن و سنت سے دور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہ! تمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري رقم الحديث 116]
↰ لہٰذا اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بھی کوئی زمین پر زندہ تھا وہ انتقال کر گیا ہے۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے اور آپ کی معیت میں جہاد کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دوران فرمایا تھا۔
«اللهم ان تهلك هذه العصابة لا تعبد فى الارض»
اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو گی۔
↰ یہ جماعت تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ ان کے ناموں کی مع ولدیت و قبیلہ فہرست موجود ہے جو معروف ہے۔ مگر اس میں خضر علیہ السلام کا نام تک نہیں۔

خضر علیہ السلام کی حیات کے دلائل کا تجزیہ:
خضر علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خضر علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ ان کی عمر کو دراز کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دارقطنی نے اس کو «دواد بن جراح عن مقاتل بن سليمان عن الضحاك» کے طریق سے روایت کیا ہے۔
دؤاد بن جراح ضعیف مقاتل متروک ہے ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں سنا۔
↰ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے۔ [الاصابة، ص429]

سيدنا على رضى الله عنه سے ملاقات:
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کعبہ کا غلاف پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا: «يا من لايشغله سمع عن سمع» اس روایت کے آخر میں ہے وہ کہہ رہا تھا جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔
◈ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن ہروی مجہول ہے، دوسرا راوی عبداللہ بن محرز یا محرر متروک ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں نے اس کی حدیث چھوڑ دی تھی۔
◈ ابن مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری اس سے ملاقات ہوئی ہے میرے نزدیک اس سے تو بکری کی مینگنی زیادہ محبوب ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج1، ص140]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خضرعلیہ السلام کی تعزیت:
مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ جمع تھے۔ ایک خوبرو سفید داڑھی والا آدمی داخل ہوا، روایت کے آخری الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص خضر علیہ السلام ہے۔ [المستدرک الحاکم ج3 ص55]
↰ مذکورہ بالا روایت میں عباد بن عبدالصمد ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سخت ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے۔
◈ ابن عدی فرماتے ہیں ضعیف اور غالی شیعہ تھا۔ تفصيل كے لئے ديكهيے: [ميزان الاعتدال، ج2، ص269]
↰ ان روایات کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو خضر علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرتی ہیں مگر وہ تمام روایات ضعیف، منقطع اور ناقابل حجت ہیں۔

فائدہ نمبر
مذکورہ بالا حدیث میں علم کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بطور غرض علم کے، آپ سفر پر نکلے اور کوئی بعید نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علم کے لیے سفر کرنے کے جواز پر اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جیسا کہ سابقہ باب «خروج فى طلب العلم» میں ثابت فرمایا۔ سلف میں ان گنت ایسے واقعات معروف ہیں جن سے طلب علم کے سفر کو اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ چند واقعات نظر قرطاس ہیں:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے آپ نے ایک مہینہ کا مشقت کے ساتھ سفر کیا صرف ایک حدیث کی خاطر۔ [الرحلة للخطيب ص 109، ابن عاصم فى السنة رقم 514]
➋ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (المتوفی80ھ) نے ایک حدیث میں شک کے ازالہ کے لیے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جس کے لیے آپ نے مصر کا سفر طے کیا۔ [حسن المحاضرة فى اخبار المصروالقاهرة، ج1، ص86]
➌ سیدنا عبدللہ بن فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے مدینہ طیبہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ تشریف لے گئے ہیں، جب وہ مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ طائف پہنچے اور ان سے حدیث حاصل کی اور واپس روانہ ہو گئے۔ [المستدرك، ج1 ص257، وقال الذهبي صحيح]
➍ سیدنا سعید المسیب رحمہ اللہ (المتوفی94ھ) کا بیان ہے کہ میں صرف ایک حدیث کے لیے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ [معرفت علوم الحديث، ص8]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی 105ھ) جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے خصوصی شاگرد تھے اور محدث و فقیہ بھی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں چودہ سال سرگردان رہا، آخر اس کا علم ہوا تو اطمینان نصیب ہوا۔ [فتح القدير ج1 ص4]
➏ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث کی خاطر مدینہ سے مصر تک سفر کیا جس کی مسافت ایک ماہ بنتی ہے۔ [مسند حميدي ج1 ص189]
➐ عبید اللہ بن عدی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کے لیے مدینہ طیبہ سے عراق تک کا سفر کیا جو ایک ماہ تک کی مسافت کا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص175]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 113   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3149  
´سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا (الکہف: 79) (موجودہ مصاحف میں) صالحۃ کا لفظ نہیں ہے۔

2؎:
اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اُس کے ماں باپ ایمان والے تھے،
چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسانہ ہو یہ لڑکا بڑا ہوکراپنے ماں باپ کو بھی شرارت وسرکشی اورکفر میں ڈھانپ دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3149   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6163  
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ ؑ جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر ؑ کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ ؑ اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6163]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نوف بكالی:
یہ کوفہ کا ایک قصہ گو شخص تھا،
جو کعب احبار کی بیوی کا بیٹا یا کعب کا بھتیجا تھا،
جس نے کہا،
جس موسیٰ کا خضر کے ساتھ واقعہ بیان کیا گیا ہے،
وہ موسیٰ بن لیث بن افرائیم بن یوسف علیہ السلام تھا،
معروف جلیل القدر نبی موسیٰ بن عمران نہ تھا۔
بعض نام موسیٰ بن میشا بیان کیا ہے۔
خِضِر:
جو ایک سفید،
خالی زمین پر بیٹھے تو وہ سبزہ سے لہلہانے لگی،
ان کے نسب و خاندان کے بارے میں بہت اختلاف ہے،
یہی صورت حال نام کی ہے،
کوئی قابل اعتماد بات نہیں کہی جا سکتی،
اس میں بھی اختلاف ہے،
وہ فرشتہ ہیں یا انسان،
نبی ہیں یا ولی،
اگر وہ فرشتہ نہیں ہیں تو نبی ہیں،
جمہور کا موقف یہ ہے کہ وہ نبی ہیں لیکن وہ تکوینی امور کے بارے میں علم رکھتے تھے،
جس کا تعلق عموما فرشتوں سے ہے اور موسیٰ علیہ السلام کی نبوت تشریعی تھی،
ان کی زندگی کے بارے میں بھی اختلاف ہے،
علامہ آلوسی نے اس پر طویل بحث کی ہے اور علامہ سعیدی کے بقول حرف آخر یہی ہے،
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ اور دلائل نقلیہ سے ان علماء کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے،
جو حضرت خضر کی وفات کے قائل ہیں،
(شرح صحیح مسلم ج 6 ص 859)
۔
تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے،
روح المعانی سورہ کہف اور بقول علامہ تقی قرآن و سنت کی منطقی دلیل سے موت یا حیات ثابت نہیں ہے،
اس لیے اس میں بحث و تمحیص کی بجائے توقف اور سکوت بہتر ہے۔
(تکملہ ج 5 ص 41)
۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "تفسیر القرآن الکریم" سورہ کہف از حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ،
فتح الباری حافظ ابن حجر شرح صحیح مسلم از مولانا سعیدی ج 6 ص 853 تا 859كذب عدو الله:
چونکہ نوف نے ایک بالکل بے بنیاد اور غلط بات کہی تھی،
اس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آ کر زجروتوبیخ کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے۔
عتب الله عليه:
موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر کی شان کے مطابق،
تواضع اور ادب کے لحاظ مناسب یہ تھا کہ وہ انا اعلم کی بجائے،
الله اعلم فرماتے اور اللہ اپنے بلند اور اعلیٰ مراتب کے حامل بندوں کی معمولی بات پر بھی گرفت فرماتا ہے،
اس لیے ان کا لفظی مواخذہ ہوا۔
مجمع البحرين:
دو سمندروں کا سنگھم،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
وہ کون سے دو سمندر تھے،
لیکن اس کی تعیین کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے،
سنگھم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
یوشع بن نون:
یہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد نبی بنے اور بطور خدمت گزار ان کے شریک سفر تھے،
جب موسیٰ علیہ السلام سو گئے تو یہ جاگ رہے تھے اور مچھلی جب زندہ ہو کر حرکت کر کے سمندر میں گری تو یہ دیکھ رہے تھے،
لیکن انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور سوچا جب بیدار ہو جائیں گے تو میں انہیں آگاہ کروں گا،
کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں پابند کیا تھا،
جب مچھلی گم ہو جائے تو مجھے بتانا،
لیکن وہ بھول گئے اور جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو جلدی میں ان کے ساتھ چل پڑے،
جب موسیٰ علیہ السلام نے آگے چل کر کھانا طلب کیا،
تب یاد آیا اور معذرت کے ساتھ صورت حال بیان کر دی،
انی بارضك السلام:
یہاں پر سلام کہنے والا کہاں سے آ گیا،
یہاں تو لوگ سلام نہیں کہتے،
انا علی علم من علم الله علمنيه لا تعلمه موسیٰ علیہ السلام کا علم تشریعی تھا اور خضر علیہ السلام کا تکوینی تھا،
یعنی دنیا میں اس کائنات کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے،
ہم اس کے مکلف یا پابند نہیں ہیں،
ان امور غیبیہ سے تعلق رکھتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو تکوینات سے کوئی واسطہ نہ تھا اور حضرت موسیٰ کا علم تشریعی تھا،
جس کے مطابق انسان زندگی گزارنے کا پابند ہے اور اس کا مکلف ہے اور خضر،
ایک انسان ہونے کے ناطے اس پر عمل پیرا ہونے کا پابند تھا،
اس لیے وہ شرعی امور سے آگاہ تھا،
اگرچہ وہ علم موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں بہت کم تھا،
اس لیے خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے علم کے بارے میں بھی کہا،
لا اعلمه،
میں اس سے آگاہ نہیں ہوں،
یعنی آپ کے علم کے اعتبار سے،
اس طرح خضر علم تکوینی کے ساتھ کچھ تشریعی علم سے بھی آگاہ تھے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا،
هو أعلم منك:
وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
لا أعصی لك أمرا:
موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھتے تھے،
یہ اللہ کا بندہ ہے،
اس لیے کسی شرعی حکم اور ضابطہ کی مخالفت نہیں کرے گا،
اس لیے انہوں نے کہہ دیا،
آپ مجھے ان شاءاللہ صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی مخالفت نہیں کروں گا،
لیکن جب انہوں نے ایسے کام دیکھے جو شرعی رو سے یا حالات کے لحاظ سے درست نہ تھے اور انہیں پتہ چل گیا،
میرا ان کے ساتھ چلنا مشکل ہے تو انہوں نے جدائی اور فراق چاہا،
اس لیے تیسرے واقعہ پر بھی اعتراض کر ڈالا،
نول:
اجرت و مزدوری یہاں کرایہ مراد ہے۔
عمد الخضر الی نوح:
حضرت خضر کا کشتی کا تختہ اکھاڑنا،
کشتی والوں میں سے کسی کو بھی نظر نہ آ سکا،
اس لیے ملاحوں اور سواریوں میں سے کسی نے اعتراض نہ کیا اور نہ کشتی ڈوبی۔
شيئا امرأ،
بہت ناگوار کام۔
لا ترهقنی:
مجھے نہ ڈھانپ یعنی مکلف اور ذمہ دار نہ ٹھہرا۔
ما نقض علمی و علمك من علم الله:
اور میرے اور تیرے علم نے اللہ کی معلومات میں کمی نہیں کی،
یہ الفاظ انسانی محاورہ کے اعتبار سے ہیں،
وگرنہ اللہ کا علم لامحدود ہے،
اس لیے اس میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،
صرف اتنا سمجھانا مقصود تھا کہ مخلوقات کے علم کی اللہ کے علم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔
نوٹ:
وَرَأهُم مَلِك کی جگہ،
اَمَامُهُم مَلِك اور ام الغَلام کے بعد وَكَانَ كافِرا،
یہ قراءت تفسیر و توضیح کے لیے ہے،
یہ قرآن نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6163   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6165  
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"ایک دن موسیٰ ؑ اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے(اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں،اس وقت انھوں نے(ایک سوال کے جواب میں)کہا:میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں،اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان(موسیٰ ؑ) سے بہتر ہےیا(فرمایا:)جس کے پاس ان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6165]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اني اعلم بالخير منه:
میں خوب جانتا ہوں کہ اس سے بہتر کون ہے۔
(2)
او عند من هو:
یا اس سے زیادہ خیر کس کے پاس ہے۔
(3)
دلني عليه:
اس تک میری راہنمائی کریں،
تاکہ میں اس تک پہنچ سکوں۔
(4)
عمي عليه:
اس پر راستہ اوجھل ہو گیا اور وہ اپنے ساتھی سے الگ ہو گئے،
لیکن یہ راوی کا وہم ہے،
کیونکہ مچھلی کی گمشدگی کے وقت موسیٰ علیہ السلام پاس ہی سوئے ہوئے تھے،
لیکن اس نے بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا۔
(5)
حلاوة القفاء:
گدی کے درمیان،
یعنی ایک طرف نہیں لیٹے تھے،
بلکہ چت لیٹے تھے۔
(6)
مجي ما جاء بك:
کسی اہم اور ضروری کام کے لیے آپ آئے ہیں یا کسی مقصد کے لیے آئے ہیں۔
(7)
انتحي عليها:
(تختہ توڑنے کے لیے)
سارا وزن اس پر ڈال دیا،
(8)
بادي الرأي:
(بلا سوچے سمجھے) (9)
ذعر عندها موسيٰ ذعرة منكرة:
انتہائی زیادہ خوف زدہ یا دہشت زدہ ہو گئے۔
(10)
ذمامة:
حياء:
ملامت اور مذمت کا خوف،
لئام،
ليئم کی جمع ہے،
کمینے اور خسیس لوگ،
کیونکہ مہمان نوازی اچھے اخلاق کا حصہ ہے،
کمینے لوگ اس سے انکار کرتے ہیں۔
(11)
طبع يوم طبع كافرا:
اس کے دل میں پہلے دن سے ہی کفر قبول کرنے کا مادہ تھا،
اس کے دل میں کافروں کی طرح بگاڑ و فساد کی محبت اور جہالت و قساوت رکھ دی گئی تھی اور والدین اس سے شفقت و پیار رکھتے تھے،
اس لیے وہ ان کے لیے کفر و طغیان کا باعث بنتا،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت والدین کو ان کے شر سے بچانے کے لیے خضر سے قتل کروا دیا اور اگر خضر اس حقیقت سے پردہ نہ اٹھاتے تو دوسرے امور تکوینیہ کی طرح،
ہم اس قتل کے راز سے بھی آگاہ نہ ہو سکتے،
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں جو فیصلہ کرتا ہے،
وہ ان کے حق میں بہتر ہی ہوتا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کو اس سے بہتر اولاد دی،
جو بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک لڑکی تھی،
جس کی پشت سے ایک نبی پیدا ہوا۔
موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو تواضع اور فروتنی اختیار کرنا چاہیے اور اپنی کسی خوبی و کمال کو کامل نہیں سمجھنا چاہیے اور علم میں اضافہ کا خواہاں رہنا چاہیے،
خواہ اس کے لیے مشقت اور تنگی ہی برداشت کرنا پڑے،
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حصول علم کی خاطر سمندری سفر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو کسی بڑے عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور علمی مسائل میں بحث و تمحیص کا مقصد حقیقت تک رسائی حاصل کرنا ہو،
محض اپنی علمیت اور بڑائی کا اظہار نہیں اور انبیاء کو انہیں باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے،
جن کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں دے دیا جاتا ہے،
حضرت خضر،
موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت جان نہیں سکے،
جب تک انہوں نے خود،
انہیں آگاہ نہیں کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام،
حضرت خضر کے کاموں کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے،
اس لیے ان پر خاموش نہیں رہ سکے اور آخر کار ان سے الگ ہی ہو گئے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک عالم،
سفر میں اپنی خدمت کے لیے،
اپنے کسی شاگرد کو ساتھ رکھ سکتا ہے اور نبی کو بھی بھوک اور تکان لاحق ہوتی ہے اور زادراہ ساتھ رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے،
کیا ہوا ہے،
کیا ہو گا اور کیا نہیں ہو گا اور اگر اس نے ہونا ہوتا تو کیوں کر ہوتا اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے،
اس کی مشیت اور ارادہ سے ہو رہا ہے اور انسان جو کچھ کرتا ہے،
اس کی عطا کردہ قدرت اور اختیار سے کرتا ہے،
کفر و ایمان،
ہدایت و ضلالت بھی اس کی عطا کردہ قدرت و اختیار اور اس کے ارادہ و مشیت کے تحت ہیں،
اگر وہ قدرت و اختیار نہ دے تو انسان کچھ بھی نہ کر سکے،
نہ نیکی،
نہ بدی،
نہ شر،
نہ خیر اور انسان کو شریعت کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہیے،
اسے حکم کی حکمت و مصلحت سمجھ آئے یا نہ آئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6165   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6168  
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ وہ خضر ؑ تھے،پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا:ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے،میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6168]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سعید بن جبیر اور نوف بکالی کا اختلاف موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تھا،
جس کے بارے میں سعید نے حضرت ابن عباس سے پوچھا اور یہاں حضرت ابن عباس اور حر بن قیس کا اختلاف موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں ہے کہ وہ کون تھا اور یہاں سوال حضرت ابی بن کعب سے ہوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6168   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:122  
122. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ، موسیٰ بنی اسرائیل نہیں تھے بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ تھے۔ انہوں نے فرمایا: غلط کہتا ہے اللہ کا دشمن۔ فرمایا: حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نبی موسیٰ ﷺ ایک دن بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب لوگوں میں بڑا عالم کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے نہ کیا۔ پھر اللہ نے ان پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں ایک بندہ، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر، ایسا ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اے پروردگار! میری ان سے کیونکر ملاقات ہو گی؟ حکم ہوا: ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھو۔ جہاں وہ گم ہو جائے، وہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ پھر موسیٰ ؑ روانہ ہوئے اور ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:122]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بڑائی، تفاخر اورخود پسندی کے اسباب علماء کو زیادہ میسر آتے ہیں، اس لیے یہ حضرات اپنی وجاہت اور شہرت کو بچانے کے لیے ہر بات کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں، مبادا ان کے متعلق کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے کہ اسے اس سوال کا جواب نہیں آیا، یہ کیساعالم ہے؟ علماء کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔
جب ایک جلیل القدر پیغمبر کو معتوب ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے واللہ أعلم نہیں کہا توعام علماء کس طرح نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟علماء کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا جہل پیش نظررکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ (بنی اسرائیل: 85: 17)
اور تمھیں علم بہت ہی کم دیاگیا ہے۔
نیز فرمایا:
﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾ (یوسف: 12: 76)
ہرجاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے۔
قرآن کی اس وضاحت کے پیش نظر علمائے کرام کی معلومات بہرحال محدود اور ان کی مجہولات غیر محدود ہیں۔
اپنی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے مجہولات کو نظر انداز کردینا دانشمندی نہیں۔
جب کسی عالم دین کے سامنے اپنی مجہولات ہوں گی تو دماغ میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں سب سے بڑا ہوں۔
اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کا جواب اس اعتبار سے صحیح تھا کہ آپ صاحب کتاب، جلیل القدر پیغمبر تھے، انھیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اس بنا پر جوعلوم و معارف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو سکتے تھے، وہ کسی دوسرے کے پاس کیسے ہوسکتے تھے؟ لیکن اللہ کی جناب میں ان کا یہ جواب ان کی شایان شان نہ تھا۔
انھیں اپنے علم کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس تناظر میں علماء حضرات کی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ (اَعلَمُ النَّاسِ)
کون ہے؟ تو اپنے آپ كو پيش نظر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس طرح بھی نہ کہے کہ لوگوں کی نظر تو مجھ پر ہی پڑتی ہے۔
اگرسوال نہ بھی کیا جائے تب بھی خود کو اونچا نہ خیال کیاجائے۔
علماء کو چاہیے کہ وہ ہرحالت میں تواضع کو پیش نظر رکھیں اور اپنے نقص اوراللہ کے کمال کے معترف رہیں۔

موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں دوچیزوں کے متعلق اختلاف ہوا:
(الف)
۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جن سے ملاقات کے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اپنے گھر سے رخت سفر باندھا وہ حضرت خضر ہیں یا کوئی اور صاحب؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےتھے کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں جبکہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف کچھ اورتھا۔
اس اختلاف کا فیصلہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موافقت میں دیا۔
(ب)
۔
دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانے والے حضرت موسیٰ بن عمران پیغمبر ہیں یا موسیٰ بن میثا؟ حضرت ابو یزید نوف بن فضالہ بکالی جو دمشق کے بہت بڑے عالم دین اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کاموقف تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر نہیں بلکہ میثا کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔
واضح رہے کہ انھیں یہ معلومات جناب کعب احبار سے ملی تھیں کیونکہ نوف بکالی کعب احبار کی بیوی کے بیٹے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مؤقف کی بڑی سختی سے تردید فرمائی۔
فرمایا کہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حقیقتاً اسے اللہ کا دشمن سمجھتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ حضر ت نوف بکالی بہت بڑے واعظ تھے اور واعظین حضرات کا وقار عوام الناس میں بہت ہوتا ہے۔
اگرحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پرزور انداز میں تردید نہ فرماتے تو اندیشہ تھا کہ عقیدت مند حضرات اس موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
(عمدۃ القاری 272/2)
حضرت خضر اس اعتبار سے زیادہ عالم تھے کہ انھیں تکویینات سے کچھ معلومات دی گئی تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ تھیں۔
ان کے پاس علم تشریعی تھا جس کا کچھ حصہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ضرور تھا کیونکہ حضرت خضر، خواہ نبی ہوں یا ولی، کسی نہ کسی شریعت کے ضرور پابند تھے۔
اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تشریعی علوم کے مقابلے میں ان کے تکوینی علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے جس کا اعتراف حضرت خضر علیہ السلام نے بایں الفاظ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کا علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں اور تمھیں ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں۔
دراصل حضرت خضر علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے علوم آپ کے پاس نہیں، اور آپ کے علوم میرے پاس نہیں۔
اس لیے (اَعلَم)
میں ہوں نہ کہ آپ، بلکہ (اَعلَم)
وه ذات اقدس ہے جس نے ہم دونوں کو علم سے بہرہ ورکیا ہے۔

اس واقعے کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھوں نے صبر نہ کیا بلکہ جلدی سے کام لیا، اگرحضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رہتے تو ان کے مزید حالات سے ہمیں آگاہی ہوتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ تکوینی علوم آپ کے پاس بھی نہ تھے، وہ صرف حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تھے، لیکن یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں، کیونکہ تکوینی علوم خالق کائنات کے لیے باعث کمال ہیں، کسی مخلوق کے لیے نہیں۔
اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکوینی علوم سے ناواقف ہونا کمی کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا۔

حضرت خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہ تھے لیکن آپ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔
انھیں چاہیے تھا کہ اس بات کو اللہ کے حوالے کر دیتے، چنانچہ ان کا مقابلہ ایسے انسان سے کرایا گیا جو ان سے درجے میں کہیں کم تھا تاکہ اس قسم کا دعویٰ نہ کریں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوا کہ ایک عالم دین کو خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کا انکار کرنا ضروری ہے۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہی تقاضا ہے۔
خلاف شریعت کام دیکھ کر علم کے باوجود انھیں ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلینا اور حق بات نہ کہنا، ضعف ایمان کی علامت ہے جو ایک عالم کی شان کے خلاف ہے۔
ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم أجمعین کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت بھی انھوں نے یہ فریضہ ادا کیا اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو روا نہ رکھا۔
رضي الله عنهم أجمعين۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 122   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3278  
3278. حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا: ہمارا ناشتہ لاؤ۔ تو اس نے کہا: دیکھئے! جب ہم نے چٹان کے پاس پڑاؤ کیا تھا تو میں مچھلی وہیں بھول گیا۔ اور مجھے اسے یادرکھنے سےصرف شیطان نے غافل رکھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی جب تک اس جگہ سے آگے نہ گزر گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3278]
حدیث حاشیہ:
شیطان کا یہ بنیادی مقصد ہے کہ اس نے ہر طرح سے اولاد آدم کو سیدھے راستے سے ہٹانا ہے اور انسانی کاموں میں دخل اندازی کر کے اللہ کی یاد سے انھیں غافل کرنا ہے جیسا کہ مذکورہ واقعے میں ہے کہ مچھلی گم ہونے کو ایک علامت ٹھہرایا گیا تھا۔
کہ تمھاری خضر ؑ سے وہاں ملاقات ہوگی۔
اس سفر کا بنیادی مقصد حضرت خضر ؑ سے ملاقات کرنا تھا اور اس کے لیے مچھلی کو بطور علامت مقرر کیا گیا تھا اس کے باوجود بھی شیطان نے انھیں غافل کردیا اور وہ خواہ مخواہ پریشانی میں مبتلا ہوئے پھرمزید سفر کرنا پڑا پریشانی الگ ہوئی اگرچہ رسول شیطانی کارستانیوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔
تاہم شیطان ان کے ساتھ چلنے والوں کو پریشان کر کے ان کی پریشانی کا سبب مہیا کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3278   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3400  
3400. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر ؑ ہیں۔ اس دوران میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے ساتھی کا صاحب موسیٰ ؑ کے متعلق اختلاف ہوگیا ہے جس سے ملاقات کا حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے مجمع میں وعظ کررہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے آکر کہا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: (مجھ سے زیادہ کوئی عالم) نہیں۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3400]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابن عباس ؓ کا حر بن قیس سے اختلاف یہ تھا کہ وہ صاحب کون ہیں جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا، پھر اس کے لیے سمندری سفر اختیار کیا۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے ثابت کیا کہ وہ صاحب حضرت خضر ؑ ہیں۔
پھر اس کا پس منظر بھی ذکر کیا ہے۔

درحقیقت قرآن مجید کی سورہ کہف میں حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی اس ملاقات کا تفصیلی ذکر ہے۔
وہاں مطالعہ کرنے سے بہت سے ظاہری اور قابل اعتراض امور نظر آتے ہیں مگر ان کی حقیقت کھلنے پر ان کا برحق ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں ان واقعات سے بصیرت حاصل کرنی چاہے۔
اس واقعے میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔

حضرت ابن عباس ؓ کا ایک اختلاف نوف بکالی سے بھی ہوا۔
اس کی نوعیت یہ تھی کہ حضرت خضر ؑ سے جس موسیٰ ؑنے ملاقات کی ہے وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ ؑ نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ؑ ہیں، چنانچہ اس اختلاف کی تفصیل اگلی حدیث میں بیان ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3400   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3401  
3401. حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ س عرض کیا: نوف بکالی کہتا ہے کہ وہ موسیٰ ؑ جو حضرت خضر ؑ کے ساتھ ہیں وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ ؑ نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ؑ ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس اللہ کے دشمن نے غلط کہاہے۔ ہمیں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے خبر دی ہے: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل میں کھڑے تقریر کررہے تھے کہ ان سے دریافت کیاگیا: کون سا شخص سب سے زیادہ علم والاہے؟ انھوں نے فرمایا: میں (سب سے بڑا عالم ہوں)۔ اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوا کہ انھوں نےعلم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہیں کی۔ اور فرمایا: کیوں نہیں، میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا ملتے ہیں وہ وہاں رہتا ہے۔ وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے اس تک پہنچانے کا کون ضامن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3401]
حدیث حاشیہ:

نوف بکالی بڑا عالم فاضل اور واعظ قسم کا آدمی تھا۔
اس کا خیال تھا کہ خضر کے ساتھی حضرت موسیٰ بن عمران نہیں بلکہ موسیٰ بن میشا ہیں، مگر صحیح بات یہی ہے کہ وہ موسیٰ بن عمران ہیں جو بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے۔
حضرت خضر ؑ کے معاملات پر حضرت موسیٰ ؑ کے ا عتراضات ظاہری حالات کی بنا پر تھے۔

حضرت خضر ؑ نے جب حقائق سے پردہ اٹھایا تو موسیٰ ؑ کو ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
مزید تفصیلات کتب تفسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

حضرت خضر ؑ کے متعلق اکثرصوفیاء اور اہل باطن کا خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں اورسمندروں پر حکومت کرتے ہیں۔
لیکن امام بخاری ؒ اور دیگرمحققین امت کامؤقف ہے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور اب وہ موجود نہیں ہیں۔
ہم نے اس موضوع پر "حقیقت حیات خضر" کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا۔
افسوس کہ وہ تلاش بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوسکا۔
خیال تھا کہ اس کے چند اقتباسات یہاں نقل کیے جاتے۔
ماشاء اللہ کان ومالم یشأ لم یکن۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3401   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4725  
4725. حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے: خضر کے ساتھی حضرت موسٰی وہ بنی اسرائیل کے موسٰی نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔ مجھے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بتایا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حضرت موسٰی ؑ بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اس دوران میں آپ سے پوچھا گیا: لوگوں میں زیادہ عالم کون ہے؟ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اس بات پر اللہ تعالٰی ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب نہیں کیا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی ؑ کی طرف وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے عرض کی: اے میرے رب! میں اس سے ملاقات کس طرح کر سکتا ہوں؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا: اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4725]
حدیث حاشیہ:

حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق قرآنی تصریحات کے باوجود صوفیاء حضرات نے ان کی شخصیت کو ایک معمہ بنادیا ہے۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ وہ اس عالم اور دنیا میں بقید حیات ہیں اور بھٹکے ہوئے انسانوں کی رہنمائی کے لیے وہ گاہے بگاہے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔

ہمارے رجحان کے مطابق حسب ذیل دلائل و براہین کے پیش نظر وہ وفات پاچکے ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند دن پہلے فرمایاتھا:
آج کے دن روئے زمین پر جو ذی روح ہے، سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 116)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ موجودہ لوگ موت کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 601)
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا تھا:
آج جو چیزس بھی روئے زمین پر زندہ رہے سوسال بعد وہ ختم ہوجائے گی۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6481۔
(2538)
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے واپس پر یہ الفاظ کہے تھے۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6485(2539)
۔
کچھ اہل علم سے منقول ہے کہ ان سے حضرت خضر علیہ السلام کی زندگی کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے اس کے جواب میں درج ذیل آیت پڑھ دی:
آپ سے پہلے ہم نے کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی۔
(الأنبیاء: 34: 21)
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن اوانس کی طرف بھیجے گئے ہیں حضرت خضر علیہ السلام کا آپ کے پاس آ کر بیعت نہ کرنا بھی ان کی وفات پر دلالت کرتا ہے۔
اگر وہ زندہ ہوتے تو لازمی طورپر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی اطاعت کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا تھا:
اللہ کی قسم! اگرآج موسیٰ (علیہ السلام)
زندہ ہوتے تو انھیں بھی میری اطاعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔
(مسند أحمد: 338/3 و إسنادہ ضعیف)
(
۔
اگر کسی آدم زاد کا زندہ رہنا صحیح ہوتا تو کم از کم قرآن مجید میں اس کا ذکر ضرورہوتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کاملہ پر دلالت کرنے والی ایک عظیم نشانی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے متعلق قرآن کریم میں صراحت کی ہے کہ وہ قرب قیامت تک زندہ رہے گا۔
اگر اس کے ساتھ اپنے مقرب بندے کی زندگی کا ذکر بھی کر دیا جاتا تو قرآن ہردو کی ابدی زندگی پر مشتمل ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کی زندگی کا قطعی ثبوت نہیں بلکہ ان کی موت پر قوی دلائل موجود ہیں۔
۔
ا گرحضرت خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین سے جہاد کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدرکے دن فرمایا:
اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ختم ہوگئی تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
(صحیح البخاري، الجھاد و السیر، حدیث: 2915)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے صرف وہی لوگ تھے جنھیں اصحاب بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
وہ صرف تین سوتیرہ تھے، جن کے نام معروف ومشہور ہیں۔
ان میں حضرت خضر علیہ السلام کا نام نہیں ہے، اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے بلکہ خالق حقیقی سے جاملے تھے۔
۔
حضرت خضر علیہ السلام کی ابدی زندگی کا عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ذمے ایک ایسی بات لگانا ہے جس کا ہمیں علم نہیں، ایسا کرنا بالکل حرام اور ناجائز ہے۔
کیونکہ ان کی ہمیشہ کی زندگی کا ثبوت یا تو قرآن و حدیث میں موجود ہو یا کم از کم اجماع امت سے ثابت ہونا چاہیے۔
کتاب و سنت ہمارے سامنے ہیں کسی مقام پر اس کا اشارہ تک نہیں ملتا اور نہ کسی وقت علمائے امت نے اس پر اجماع ہی کیا ہے۔
دراصل اس قسم کی بلادلیل اور بے سروپا باتیں کرنے والے ان کے ذریعے سے بدعات وخرافات کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں جتنی بھی روایات ہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام پر سیر حاصل بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 528/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4725   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4726  
4726. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر تھے، انہوں نے فرمایا: مجھ سے کوئی سوال کرو۔ میں نے عرض کی: ابو عباس! اللہ تعالٰی آپ پر مجھے قربان کرے! کوفہ میں ایک آدمی واعظ ہے، جسے نوف کہا جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ حضرت خضر ؑ سے ملاقات کرنے والے موسٰی بنی اسرائیل والے موسٰی نہیں تھے۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے کیونکہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت موسٰی رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کو ایسا وعظ کیا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل پسیج گئے۔ جب آپ واپس جانے لگے تو ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی۔ ان سے کہا گیا: کیوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4726]
حدیث حاشیہ:

اس واقعے سے گمراہ صوفیوں نے یہ مسئلہ کشیدکیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام مسند نبوت پر فائز نہیں تھے بلکہ انھیں صرف ولایت کادرجہ حاصل تھا اوراللہ کا ولی فہم وبصیرت میں منصب نبوت سے کہیں اونچے درجے پر فائز ہوتا ہے اور پھر بطور دلیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نبی ہونے کے باوجود اللہ کے ولی حضرت خضر علیہ السلام سے چند باتیں سیکھنے کے لیے تشریف لے گئے اور عملی طور پر ان کی شاگردی اختیار کی۔
اس فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک شاعر کہتا ہے:
''مَقَام النُّبَّوةِ فِي بَرزَخِ…فُويق الرسول ودُون الوَلِي-
-
-
" مقام نبوت برزخ کی طرف ایک درمیانہ درجہ ہے جو رسالت سے تھوڑا سا اوپر اورولایت سے نیچے ہےیعنی ان کے ہاں مقام ولایت نبوت ورسالت سے اونچاہے۔
مصنف عقیدہ طحاویہ ان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم کسی ولی کو کسی نبی سے افضل نہیں سمجھتے اور تمام انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے تمام اولیاء سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔
(شرح العقیدة الطحاویة، ص: 493)

اکثراہل علم کا رجحان ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام منصب نبوت پر فائز تھے، چنانچہ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جمہور اہل علم کے ہاں حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے پھر کوئی بھی نبی اپنے سے کم تردرجہ سے علم حاصل نہیں کرتا۔
(المفھم: 209/6)
ہمارے نزدیک بھی حضرت خضر علیہ السلام کی عظیم شخصیت منصب نبوت پر فائز تھی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں شرف رسالت سے نوازاتھا جیسا کہ درج ذیل دلائل سے معلوم ہوتاہے:
۔
حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت سے نوازا اور اپنے پاس سے خاص علم دیا۔
(الکهف 65: 18)
اکثر مفسرین نے آیت میں رحمت اور علم سے مراد نبوت لی ہے، یعنی اسے ہم نے اپنی طرف سے نبوت عطا کی تھی۔
۔
حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق اللہ کا فرمان ان الفاظ میں نقل ہوا ہے:
میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا۔
(الکهف 82: 18)
اس کی تفسیر میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اے موسیٰ علیہ السلام! جو کچھ میں نے کیا وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیاتھا۔
اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح وحی الٰہی کے پابند تھے۔
اتنے اہم کام اللہ کی وحی کےبغیر نہیں کرسکتے تھے۔
یہ نبی کا منصب ہے جو وحی الٰہی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کوچند ایسی باتوں پر مطلع کیا گیاتھا جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل تھیں، اللہ تعالیٰ اس قسم کی غائبانہ باتوں پر صرف اپنے انبیاء علیہ السلام ہی کو آگاہ فرماتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ غیب دان ہے اور اس طرح کے غیبی امور پر اپنے رسولوں کے علاوہ کسی اور کو مطلع نہیں کرتا۔
(الجن: 26: 72۔
27)

۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر سرانجام دیا ہے، بصورت دیگرحضرت موسیٰ علیہ السلام اس قسم کے بظاہر خلاف عادت کام دیکھ کر خاموش نہ رہتے، اس قسم کے اقدامات نبی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہیں، خواہ وہ ولایت کے آخری درجے پر ہی فائز کیوں نہ ہو۔
۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے موسیٰ علیہ السلام! وہ میرا بندہ تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 122)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس سے اس کی نبوت کا ثبوت ملتاہے بلکہ ان کے نبی مرسل ہونے کا بھی پتہ چلتاہے۔
(فتح الباري: 290/1)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ایک رسالہ"الزھر النضر في أخبار الخضر" لکھا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کےان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبی تھے البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا نھیں نبوت کے ساتھ وعظ ارشاد کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی یا نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور وہب بن منبہ کا رجحان ہے کہ وہ نبی تو تھے لیکن کسی قوم کی طرف نہیں بھیجے گئے تھے جبکہ دوسرے اہل علم کا مؤقف ہے کہ آپ کو باقاعدہ ایک قوم کی طرف بھیجا گیا تھا۔
اور انھوں نے ان کی دعوت کو قبول بھی کر لیا تھا۔
ابوالحسن رمانی اور ابن جوزی نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔
امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی حضرت خضر علیہ السلام نبی مرسل تھے۔
واللہ أعلم۔

بہرحال حضرت خضر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر فائز تھے۔
انھیں پہلے ولی قرار دینا پھر ولی کو نبی سے اونچا مرتبہ دینا شریعت کے خلاف ہے اور عقل بھی اس کی تائید نہیں کرتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4726   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4727  
4727. حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کی: نوف بکالی کہتا کہ حضرت موسٰی ؑ جو بنی اسرائیل کے رسول تھے وہ موسٰی نہیں تھے جو حضرت خضر ؑ سے ملے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کے دشمن نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ایک دن حضرت موسٰی ؑ بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: میں ہوں۔ اللہ تعالٰی نے اس پر عتاب کیا کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی۔ اور اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے عرض کی: اے میرے رب! ان تک پہنچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ایک مچھلی زنبیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4727]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےگمراہ صوفیاءکے متعلق لکھا ہے کہ وہ اس واقعے سے یہ مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ شرعی احکام عام لوگوں کے لیے کے لیے ہیں۔
لیکن جو اولیاء اور خاص الخاص ہیں انھیں ان احکام شرعیہ کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ وہ ان سے بے نیاز ہوتے ہیں۔
" (فتح الباری: 1/292)
اس فکر کی تردید کرتے ہوئے شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں جو شخص موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے کو حجت بنا کر علم لدنی کے ذریعے سے علم شریعت کی عدم ضرورت کا دعوی کرتا ہے وہ گمراہ بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی طرف نہیں بھیجے گئے تھے اور نہ ان میں سے ایک کو دوسرے کی پیروی کا پابندہی بنایا گیا تھا اسی لیے حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا تھا:
کیا تو وہ موسیٰ ہے جسے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اس کے برعکس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جن وانس کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ شریعت محمد یہ ہی نافذ کریں گے بنا بریں جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہمارے پیغمبر کے ساتھ وہی حیثیت ہے جو حضرت خضر علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یا امت کے کسی فرد کو یہ اتھارٹی دیتا ہے اسے چاہیے کہ کلمہ شہادت دوبارہ ادا کرے کیونکہ وہ اس قسم کے کلمہ کفر سے اپنے اسلام کو خیر باد کہہ بیٹھا ہے۔
ایسا آدمی شیطان کا دوست اور اس کا قریبی ہے چہ جائیکہ ہم اسے ولی اللہ قراردیں۔
یہ وہی چوراہا ہے جہاں سے اہل حق اور اہل باطل الگ الگ ہو جاتے ہیں۔
(شرح العقیدہ الطحاویہ ص512)

ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شریعت کا خون کرنے والوں کے لیے یہ واقعہ کسی طرح بھی حجت نہیں بن سکتا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف رسول بن آئے تھے، حضرت خضر علیہ السلام پر ان کی اطاعت ضروری نہ تھی کیونکہ آپ کا دائرہ رسالت محدود تھا۔
اسی لیے تو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم آپ کو دیا ہے اسے میں نہیں جا نتا اور جو علم اس کی طرف سے مجھے ملا ہے اس تک آپ کی رسائی نہیں البتہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کا حلقہ رسالت نہایت ہی وسیع ہے لہٰذاس کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ شریعت و طریقت کا بہانہ بنا کر آپ کی اطاعت سے انکار کرے۔
اور نہ اس طرح شریعت مطہرہ کو ٹھکرانے کی گنجائش ہی ہے۔
اس کے علمی اور عملی دونوں پہلو برابر ہیں کسی کو قطعاً کوئی حق نہیں کہ وہ ایسی بات کہے جو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہی تھی کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی طرف مبعوث ہی نہیں ہوئے تھے کہ انھیں ان کی اطاعت کا پابند کیا جائے۔
پھر حضرت خضر علیہ السلام کے اس واقعے میں کوئی خلاف شرع بات نہیں بلکہ شریعت مطہرہ کے عین مطابق اور ایسا کرنے کی گنجائش موجود ہے بشرطیکہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ان امور کے اسباب معلوم ہوں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے ان مور کے اسباب ووجوہ بیان کیے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی انھیں درست قراردیا اور تسلیم کر کے ان کی موافقت فرمائی۔
اگر خلاف شرع ہوتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی صورت میں بھی ان سے اتفاق نہ کرتے چنانچہ کشتی والے واقعے کو لیجیے کہ اگر کسی کامال بچانے کے لیے تھوڑا بہت نقصان ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے! سارا مال ضائع ہونے سے بہتر ہے کہ تھوڑا بہت نقصان کر کے باقی ماندہ کو بچا لیا جائے۔
چرواہے کو اجازت ہے کہ وہاں بکری ذبح کردے۔
جس کے متعلق مرنے کا اندیشہ ہو جیسا کہ عہد رسالت میں اس قسم کا واقعہ پیش بھی آیا تھا۔
اسی طرح بے گناہ معصوم لڑکے قتل کردینے کے واقعے سے حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر والدین کے لیے وبال جان بن جائے گا اس لیے اس کے قتل کرنے میں ہی عافیت تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیدی لڑکوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر ان میں ایسی چیز معلوم ہو جائے جو آئندہ کسی فتنے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے تو ان کا صفایا کردیا جائے جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم ہو گیا تھا۔
اگر ایسا نہ ہو تا تو قتل کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوتی باقی رہا معاملہ دیوار بنانے کا تو یہ ایک نیکی کاکام ہے۔
اگرچہ اجرت کی ضرورت تھی لیکن آپ نے اس کار خیر کو فی سبیل اللہ سر انجام دیا کیونکہ وہ نیک لوگوں کے ساتھ تعاون کی ایک شکل تھی۔
(مجموعۃ الوسائلوالمسائل: 2/62)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4727