صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان
The Book of Al-Kafala
3. بَابُ مَنْ تَكَفَّلَ عَنْ مَيِّتٍ دَيْنًا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ:
3. باب: جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کر سکتا۔
(3) Chapter. He who undertakes to repay the debts of a dead person has not the right to change his mind.
حدیث نمبر: 2295
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع رضي الله عنه:" ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: هل عليه من دين؟ قالوا: لا، فصلى عليه، ثم اتي بجنازة اخرى، فقال: هل عليه من دين؟ قالوا: نعم، قال: صلوا على صاحبكم"، قال ابو قتادة: علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: لَا، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Salama bin Al-Akwa`: A dead person was brought to the Prophet so that he might lead the funeral prayer for him. He asked, "Is he in debt?" When the people replied in the negative, he led the funeral prayer. Another dead person was brought and he asked, "Is he in debt?" They said, "Yes." He (refused to lead the prayer and) said, "Lead the prayer of your friend." Abu Qatada said, "O Allah's Apostle! I undertake to pay his debt." Allah's Apostle then led his funeral prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 37, Number 492

حدیث نمبر: 2289
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع رضي الله عنه، قال:" كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، إذ اتي بجنازة، فقالوا: صل عليها، فقال: هل عليه دين؟ قالوا: لا، قال: فهل ترك شيئا؟ قالوا: لا، فصلى عليه، ثم اتي بجنازة اخرى، فقالوا: يا رسول الله، صل عليها، قال: هل عليه دين؟ قيل: نعم، قال: فهل ترك شيئا؟ قالوا: ثلاثة دنانير، فصلى عليها، ثم اتي بالثالثة، فقالوا: صل عليها، قال: هل ترك شيئا؟ قالوا: لا، قال: فهل عليه دين؟ قالوا: ثلاثة دنانير، قال: صلوا على صاحبكم"، قال ابو قتادة: صل عليه يا رسول الله وعلي دينه، فصلى عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟ قَالُوا: لَا، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلِّ عَلَيْهَا، قَالَ: هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟ قِيلَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟ قَالُوا: ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا، قَالَ: هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟ قَالُوا: ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئیے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پر ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ بولے، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز پڑھا دیجئیے، ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Salama bin Al-Akwa: Once, while we were sitting in the company of Prophet, a dead man was brought. The Prophet was requested to lead the funeral prayer for the deceased. He said, "Is he in debt?" The people replied in the negative. He said, "Has he left any wealth?" They said, "No." So, he led his funeral prayer. Another dead man was brought and the people said, "O Allah's Apostle! Lead his funeral prayer." The Prophet said, "Is he in debt?" They said, "Yes." He said, "Has he left any wealth?" They said, ''Three Dinars." So, he led the prayer. Then a third dead man was brought and the people said (to the Prophet ), Please lead his funeral prayer." He said, "Has he left any wealth?" They said, "No." He asked, "Is he in debt?" They said, ("Yes! He has to pay) three Diners.', He (refused to pray and) said, "Then pray for your (dead) companion." Abu Qatada said, "O Allah's Apostle! Lead his funeral prayer, and I will pay his debt." So, he led the prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 37, Number 488

حدیث نمبر: 2291
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) قال ابو عبد الله: وقال الليث: حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انه ذكر رجلا من بني إسرائيل، سال بعض بني إسرائيل ان يسلفه الف دينار، فقال: ائتني بالشهداء اشهدهم، فقال: كفى بالله شهيدا، قال: فاتني بالكفيل، قال: كفى بالله كفيلا، قال: صدقت، فدفعها إليه إلى اجل مسمى، فخرج في البحر فقضى حاجته، ثم التمس مركبا يركبها يقدم عليه للاجل الذي اجله، فلم يجد مركبا فاخذ خشبة، فنقرها فادخل فيها الف دينار وصحيفة منه إلى صاحبه، ثم زجج موضعها، ثم اتى بها إلى البحر، فقال: اللهم إنك تعلم اني كنت تسلفت فلانا الف دينار فسالني كفيلا، فقلت: كفى بالله كفيلا، فرضي بك وسالني شهيدا، فقلت: كفى بالله شهيدا فرضي بك، واني جهدت ان اجد مركبا ابعث إليه الذي له فلم اقدر، وإني استودعكها فرمى بها في البحر، حتى ولجت فيه، ثم انصرف وهو في ذلك يلتمس مركبا يخرج إلى بلده، فخرج الرجل الذي كان اسلفه ينظر، لعل مركبا قد جاء بماله، فإذا بالخشبة التي فيها المال فاخذها لاهله حطبا، فلما نشرها وجد المال والصحيفة، ثم قدم الذي كان اسلفه فاتى بالالف دينار، فقال: والله ما زلت جاهدا في طلب مركب لآتيك بمالك، فما وجدت مركبا قبل الذي اتيت فيه، قال: هل كنت بعثت إلي بشيء؟ قال: اخبرك اني لم اجد مركبا قبل الذي جئت فيه، قال: فإن الله قد ادى عنك الذي بعثت في الخشبة، فانصرف بالالف الدينار راشدا".(مرفوع) قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ: ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، فَقَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، قَالَ: فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا فَأَخَذَ خَشَبَةً، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي كَفِيلَا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، فَرَضِيَ بِكَ وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ، حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ، لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ فَأَتَى بِالْأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِالْأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا".
ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ (اور اس کا قرض ادا کر دے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جا رہے ہیں) اور اس کا منہ بند کر دیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک (مدت مقررہ میں) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جا سکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور (یہ خیال کر کے کہ شاید وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "An Israeli man asked another Israeli to lend him one thousand Dinars. The second man required witnesses. The former replied, 'Allah is sufficient as a witness.' The second said, 'I want a surety.' The former replied, 'Allah is sufficient as a surety.' The second said, 'You are right,' and lent him the money for a certain period. The debtor went across the sea. When he finished his job, he searched for a conveyance so that he might reach in time for the repayment of the debt, but he could not find any. So, he took a piece of wood and made a hole in it, inserted in it one thousand Dinars and a letter to the lender and then closed (i.e. sealed) the hole tightly. He took the piece of wood to the sea and said. 'O Allah! You know well that I took a loan of one thousand Dinars from so-and-so. He demanded a surety from me but I told him that Allah's Guarantee was sufficient and he accepted Your guarantee. He then asked for a witness and I told him that Allah was sufficient as a Witness, and he accepted You as a Witness. No doubt, I tried hard to find a conveyance so that I could pay his money but could not find, so I hand over this money to You.' Saying that, he threw the piece of wood into the sea till it went out far into it, and then he went away. Meanwhile he started searching for a conveyance in order to reach the creditor's country. One day the lender came out of his house to see whether a ship had arrived bringing his money, and all of a sudden he saw the piece of wood in which his money had been deposited. He took it home to use for fire. When he sawed it, he found his money and the letter inside it. Shortly after that, the debtor came bringing one thousand Dinars to him and said, 'By Allah, I had been trying hard to get a boat so that I could bring you your money, but failed to get one before the one I have come by.' The lender asked, 'Have you sent something to me?' The debtor replied, 'I have told you I could not get a boat other than the one I have come by.' The lender said, 'Allah has delivered on your behalf the money you sent in the piece of wood. So, you may keep your one thousand Dinars and depart guided on the right path.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 37, Number 488


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.