Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْكَفَالَةِ
کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان
3. بَابُ مَنْ تَكَفَّلَ عَنْ مَيِّتٍ دَيْنًا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ:
باب: جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کر سکتا۔
حدیث نمبر: 2295
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: لَا، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2295 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2295  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کرسکتا۔
جب وہ میت کے قرضے کا ضامن ہو۔
کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے صرف ابوقتادہ کی ضمانت کے سبب اس پر نماز پڑھ لی۔
اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابوقتادہ ؓ یہ قرض ادا نہ کردیتے آپ اس پر نماز نہ پڑھتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2295   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2295  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کر سکتا جبکہ وہ میت کے قرض کی ضمانت اٹھا چکا ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کی ضمانت کی وجہ سے میت کی نماز جنازہ پڑھی۔
اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابو قتادہ ؓ عملاً اس کی ادائیگی نہ کردیتے نبی ﷺ اس کی نماز نہ پڑھتے۔
(2)
واضح رہے کہ جب کوئی شخص میت کے قرض کی ذمہ داری لےلے تو میت بری الذمہ ہوجاتی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی۔
جمہور کا یہی موقف ہے کہ مرنے والا مال چھوڑے یا نہ چھوڑے ذمہ اٹھا لینے سے وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے۔
(فتح الباري: 598/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2295   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2289  
2289. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نےکہا: کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟ لوگوں نےعرض کیا: نہیں تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: آیا اس کے ذمے قرض ہے؟ بتایا گیا: ہاں (یہ قرض دار ہے) آپ نے پوچھا: اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں تین دینار۔ آپ نے اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا: لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ انھوں نے کہا: تین دینار۔ آپ نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2289]
حدیث حاشیہ:
ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے میں اس کا ضامن ہوں۔
حاکم کی روایت میں یوں ہے آنحضرت ﷺ نے یوں فرمایا، وہ اشرفیاں تجھ پر ہیں اور میت بری ہو گیا۔
جمہور علماءنے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایسی کفالت صحیح ہے اور کفیل کو پھر میت کے مال میں رجوع کا حق نہیں پہنچتا۔
اور امام مالک ؒ کے نزدیک اگر رجوع کی شرط کر لے تو رجوع کرسکتاہے۔
اوراگر ضامن کو یہ معلوم ہو کہ میت نادار ہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں اگر میت بقدر قرض کے جائیداد چھوڑ گیا ہے تب تو ضمانت درست ہوگی ورنہ ضمانت درست نہ ہوگی۔
امام صاحب کا یہ قول صراحتاً حدیث کے خلاف ہے۔
(وحیدی)
اور خود حضرت امام ؒ کی وصیت ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف میرا کوئی قول ہو اسے چھوڑ دو۔
جو لوگ حضرت امام ابوحنیفہ کے اس فرمان کے خلاف کرتے ہیں وہ سوچیں کہ قیامت کے دن حضرت امام کو کیا منہ دکھلائیں گے۔
ہر مسلمان کو یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ و رسول کے بعد جملہ ائمہ دین، مجتہدین، اولیاءکاملین، فقہائے کرام، بزرگان اسلام کا ماننا یہی ہے کہ ان کا احترام کامل دل میں رکھا جائے۔
ان کی عزت کی جائے، ان کی شان میں گستاخی کا کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔
اور ان کے کلمات و ارشادات جو کتاب و سنت سے نہ ٹکرائیں وہ سر آنکھوں پر رکھے جائیں۔
ان کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ان کا کوئی فرمان ظاہر آیت قرآن یا حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو خود ان ہی کی وصیت کے تحت اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اتبا ع کی جائے۔
یہی راہ نجات اور صراط مستقیم ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کے کلمات ہی کو بنیاد دین ٹھہرا لیا گیا تو یہ اس آیت کے تحت ہوگا۔
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ﴾ (الشوری: 21)
کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں (جو شریعت سازی میں خدا کی شرکت رکھتے ہیں۔
کیوں کہ شریعت سازی دراصل محض ایک اللہ پاک کا کام ہے۔
)

جنہو ںنے دین کے نام پر ان کے لیے ایسی ایسی چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا ہے جن کا اللہ پاک نے کوئی اذن نہیں دیا۔
صد افسوس کہ امت اس مرض میں ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے گرفتار ہے اور ابھی تک اس وباءسے شفائے کامل کے آثار نظر نہیں آتے۔
اللهم ارحم علی أمة حبیبك صلی اللہ علیه وسلم خود ہندو پاکستان میں دیکھ لیجئے! کونے کونے میں نئی نئی بدعات، عجیب عجیب رسومات نظر آئیں گی۔
کہیں محرم میں تعزیہ سازی ہو رہی ہے تو کہیں کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔
کہیں قبروں پر غلافوں کے جلوس نکالے جارہے ہیں تو کہیں علم اٹھائے جارہے ہیں تعجب مزیدیہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔
اس طرح اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔
علماءہیں کہ منہ میں لگام لگائے بیٹھے ہیں۔
کچھ جواز تلاش کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ اس طرح باآسانی ان کی دکان چل سکتی ہے۔
ان اللہ و انا الیہ راجعون۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
زاد الحاکم في حدیث جابر فقال هُمَا عَلَيَّ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«هُمَا عَلَيْكَ وَفِي مَالِكَ وَالْمَيِّتُ مِنْهُمَا بَرِيءٌ» فَقَالَ:
نَعَمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِيَ أَبَا قَتَادَةَ يَقُولُ:
«مَا صَنَعَتِ الدِّينَارَانِ؟» حَتَّى كَانَ آخِرَ ذَلِكَ قَالَ:
قَدْ قَضَيْتُهُمَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:
«الْآنَ حِينَ بَرَدَتْ عَلَيْهِ جِلْدُهُ» و قد وقعت هذہ القصة مرة أخری فروی الدار قطني من حدیث عليعَنْ عَلِيٍّ , قَالَ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِالْجِنَازَةِ لَمْ يَسْئَلْ عَنْ شَيْءٍ مِنْ عَمَلِ الرَّجُلِ وَيَسْأَلُ عَنْ دَيْنِهِ , فَإِنْ قِيلَ:
عَلَيْهِ دَيْنٌ كَفَّ عَنِ الصَّلَاةِ عَلَيْهِ , وَإِنْ قِيلَ:
لَيْسَ عَلَيْهِ دَيْنٌ صَلَّى عَلَيْهِ , فَأُتِيَ بِجِنَازَةٍ فَلَمَّا قَامَ لِيُكَبِّرَ سَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ:
«هَلْ عَلَى صَاحِبِكُمْ دَيْنٌ؟» , قَالُوا:
دِينَارَانِ , فَعَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ وَقَالَ:
«صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ» , فَقَالَ عَلِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَرِئَ مِنْهُمَا , فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ:
«جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , فَكَّ اللَّهُ رِهَانَكَ (فتح الباري)
یعنی حدیث جابر میں حاکم نے یوں زیادہ کیا ہے کہ میت کے قرض والے وہ دو دینار تیرے اوپر تیرے مال میں سے ادا کرنے واجب ہو گئے۔
اور میت ان سے بری ہو گیا۔
اس پرصحابہ نے کہا، ہاں یا رسول اللہ واقعہ یہی ہے۔
پھر آپ ﷺ نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھائی۔
پس جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوقتادہ سے ملاقات فرماتے آپ دریافت کرتے تھے کہ اے ابوقتادہ! تمہارے ان دو دیناروں کا وعدہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ ابوقتادہ نے کہہ دیا کہ حضور ان کو میں ادا کر چکا ہوں۔
آپ نے فرمایا اب تم نے اس میت کی کھال کو ٹھنڈا کردیا۔
ایسا ہی واقعہ ایک مرتبہ اور بھی ہوا ہے جسے دارقطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا آپ اس کے کسی عمل کے بارے میں نہ پوچھتے مگر قرض سے متعلق ضرور پوچھتے۔
اگر اسے مقروض بتلایا جاتا تو آپ اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور اگراس کے خلاف ہوتا تو آپ جناز پڑھا دیتے۔
پس ایک دن ایک جنازہ لایا گیا۔
جب آپ نماز کی تکبیر کہنے لگے تو پوچھا کہ کیا یہ مقروض ہے؟ کہا گیا کہ ہاں دو دینار کا مقروض ہے۔
پس آپ جنازہ پڑھنے سے رک گئے۔
یہاں تک کہ حضرت علی ؓ نے کہا کہ حضور وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔
میں ادا کردوں گا۔
اور یہ میت ان سے بری ہے۔
پھر آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
اور فرمایا کہ اے علی! اللہ تم کو جزائے خیر دے، اللہ تم کو بھی تمہارے رہن سے آزاد کرے یعنی تم کو جنت عطا کرے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی میت مقروض ہو اور اس وجہ سے اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھائی جارہی ہو تو اگرکوئی مسلمان اس کی مدد کرے اور اس کا قرضہ اپنے سر لے لے تو یہ بہت بڑا ثواب اور باعث رضائے خدا اور رسول ہے اور ا س حدیث کے ذیل میں داخل ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔
خاص طور پر جب کہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔
ایسے وقت ایسی امداد بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر بعض نام نہاد مسلمانوں کی عقلوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایسی امداد پر ایک کوڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ویسے نام نمود کے لیے مردہ کی فاتحہ، تیجہ، چالیسواں، من گھڑت رسموں میں کتنا ہی روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔
حالانکہ وہ رسوم ہیں جن کا قرآن وحدیث و اقوال صحابہ حتی کہ امام ابوحنیفہ ؒ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔
مگر شکم پرور علماءنے ایسی رسموں کی حمایت میں ایک طوفان جدال کھڑا کر رکھا ہے۔
اور ان رسمو ں کو عین خوشنودی خدا و رسول ﷺ قرار دیتے ہیں اور ان کے اثبات کے لیے آیا ت قرآنی و احادیث نبوی میں وہ وہ تاویلات فاسدہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے سچ ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں رسول کریم ﷺ نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا۔
«مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ» جو ہمارے دین میں ایسی نئی چیز نکالے جس کا ثبوت ہماری شریعت سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔
ظاہر ہے کہ رسوم مروجہ نہ عہد رسالت میں تھیں نہ عہد صحابہ و تابعین میں جب کہ ان زمانوں میں مسلمان وفات پاتے تھے، شہید ہوتے تھے مگر ان میں کسی کے بھی تیجہ چالیسویں کا ثبوت نہیں حتی کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ کے لیے بھی ثبوت نہیں کہ ان کا تیجہ، چالیسواں کیا گیا ہو۔
نہ امام شافعی ؒ کا تیجہ فاتحہ ثابت ہے۔
جب حقیقت یہ ہے تو اپنی طرف سے شریعت میں کمی بیشی کرنا، خود لعنت خداوندی میں گرفتار ہونا ہے۔
أعاذنا اللہ منها آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2289   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2289  
2289. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نےکہا: کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟ لوگوں نےعرض کیا: نہیں تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: آیا اس کے ذمے قرض ہے؟ بتایا گیا: ہاں (یہ قرض دار ہے) آپ نے پوچھا: اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں تین دینار۔ آپ نے اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا: لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ انھوں نے کہا: تین دینار۔ آپ نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2289]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میت کے قرض والے دودینار تیرے ذمے، تیرے مال میں سے ادا کرنا واجب ہیں اور میت ان سے بری ہوگئی۔
(المستدرک علی الصحیحین (طبع دارالمعرفة، بیروت)
: 87/3)

بظاہر یہ روایت متن میں مذکور روایت کے مخالف ہے کہ اس میں تین دینار کا ذکر ہے۔
اس میں تطبیق یہ ہے کہ وہ قرض دو دینار سے زیادہ اور تین سے کم تھا۔
جس نے تین کہے اس نے کم پیسوں کا لحاظ کیے بغیر عدد پورا کردیا اور جس نے دو کہے اس نے اوپر والے پیسوں کو شمار نہیں کیا۔
مقصد پورے قرض کی ادائیگی ہے۔
والله أعلم. اس سے امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کیا کہ میت پر جو قرض ہے اس کا حوالہ جائز ہے۔
(2)
اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو ضمان ہے حوالہ نہیں جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے جبکہ عنوان میں حوالے کا ذکر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مفلس میت کی ضمان یہ ہے کہ اس کا قرض اس کے ذمے سے دوسرے ذمے کی طرف منتقل کیا جائے اور حوالے کے بھی یہی معنی ہیں۔
(3)
امام ابو حنیفہ ؒ کا مؤقف ہے کہ اگر میت اپنے قرض کی مقدار جائیداد چھوڑ گیا ہے تو حوالہ صحیح ہے بصورت دیگر اس کی طرف سے ضمانت صحیح نہیں۔
یہ موقف مذکورہ حدیث کے صریح خلاف ہے۔
(4)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں امام بخاری ؒ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں، ایسی حدیث کو ثلاثی کہا جاتا ہے اور یہ ساتویں ثلاثی حدیث ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2289