صحيح البخاري
كِتَاب الْكَفَالَةِ
کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان
1. بَابُ الْكَفَالَةِ فِي الْقَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا:
باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 2291
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ: ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، فَقَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، قَالَ: فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا فَأَخَذَ خَشَبَةً، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي كَفِيلَا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، فَرَضِيَ بِكَ وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ، حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ، لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ فَأَتَى بِالْأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِالْأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا".
ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ (اور اس کا قرض ادا کر دے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جا رہے ہیں) اور اس کا منہ بند کر دیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک (مدت مقررہ میں) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جا سکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور (یہ خیال کر کے کہ شاید وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2291 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2291
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعور ؓ کا قول جو یہاں مذکور ہوا ہے اس کو امام بیہقی نے وصل کیا۔
اور ایک قصہ بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ کا موذن اذان میں یوں کہتا ہے أشهد أن مسیلمة رسول اللہ۔
انہوں نے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔
ابن نواحہ کی تو گردن مار دی اور اس کے ساتھیوں کے باب میں مشورہ لیا۔
عدی بن حاتم نے کہا قتل کرو۔
جریر اور اشعث نے کہا ان سے توبہ کراؤ اور ضمانت لو۔
وہ ایک سو ستر آدمی تھے۔
ابن ابی شیبہ نے ایسا ہی نقل کیاہے۔
ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے حدود میں کفالت سے دیون میں بھی کفالت کا حکم ثابت کیا، لیکن حدود اور قصاص میں کوئی کفیل ہو اور اصل مجرم یعنی مکفول عنہ غائب ہو جائے تو کفیل پر حد یا قصاص نہ ہوگا اس پر اتفاق ہے لیکن قرضہ میں جو کفیل ہو اس کو قرض ادا کرنا ہوگا۔
(وحیدی)
حدیث میں بنی اسرائیل کے جن دو شخصوں کا ذکر ہے ان کی مزید تفصیلات جو حدیث ہذا میں نہیں ہیں تو اللہ کے حوالہ ہیں کہ وہ لوگ کون تھے، کہاں کے باشندے تھے؟ کون سے زمانہ سے ان کا تعلق ہے؟ بہرحال حدیث میں مذکورہ واقعہ اس قابل ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔
اگرچہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور یہاں ہر چیز ایک سبب سے وابستہ ہے۔
قدرت نے اس کارخانہ عالم کو اسی بنیاد پر قائم کیا مگر کچھ چیزیں مستثنیٰ بھی وجود پذیر ہوجاتی ہیں۔
ان ہر دو میں سے قرض لینے والے نے دل کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ محض ایک اللہ پاک ہی کا نام بطور ضامن اور کفیل پیش کر دیا۔
کیوں کہ اس کے دل میں قرض کے ادا کرنے کا یقینی جذبہ تھا۔
اور وہ قرض حاصل کرنے سے قبل عزم مصمم کر چکا تھا کہ اسے کسی نہ کسی صورت یہ قرض بالضرور واپس کرنا ہوگا، اسی عزم صمیم کی بنا پر اس نے یہ قدم اٹھایا۔
حدیث میں اسی لیے فرمایا گیا کہ جو شخص قرض لیتے وقت ادائیگی کا عزم صمیم رکھتا ہے اللہ پاک ضرور اس کی مدد کرتا اور اس کا قرض ادا کردیتا ہے۔
اسی لیے ادائیگی کے وقت وہ شخص کشتی کی تلاش میں ساحل بحر پر آیا کہ سوار ہو کر وقت مقررہ پر قرض ادا کرنے کے لیے قرض خواہ کے گھر حاضر ہوجائے۔
مگر اتفاق کہ تلاش بسیار کے باوجود اس کو سواری نہ مل سکی اور مجبوراً اس نے قرض کے دینار ایک لکڑی کے سوراخ میں بند کرکے اور اس کے ساتھ تعارفی پرچھ لکھ کر لکڑی کو دریا میں اللہ کے بھروسہ پر ڈال دیا۔
اس نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ لکڑی کی یہ رقم اگر اس قرض خواہ بھائی کو اللہ وصول کرا دے تو فبہا ورنہ وہ جب بھی وطن لوٹے گا اس کو دوبارہ یہ رقم ادا کرے گا۔
ادھر وہ قرض دینے والا ساحل بحر پر کسی آنے والی کشتی کا انتظار کررہا تھا کہ وہ بھائی وقت مقررہ پر اس کشتی سے آئے گا اور رقم ادا کردے گا۔
مگر وہ بھی ناکام ہو کر جا ہی رہا تھا کہ اچانک دریا میں اس بہتی ہوئی لکڑی پر نظر جاپڑی اور اس نے ایک عمدہ لکڑی جان کر ایندھن وغیرہ کے خیال سے اسے حاصل کر لیا۔
گھر لے جانے پر اس لکڑکو کو کھولا۔
تو حقیقت حال سے اطلاع پاکر اور اپنی رقم وصول کرکے مسرور ہوا چونکہ ادا کرنے والے حضرت کو وصول کرنے کی اطلاع نہ تھی وہ احتیاطا ً وطن آنے پر دوبارہ یہ رقم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اور تفصیلات سے ہر دو کو علم ہوا اور دونوں بے انتہا مسرور ہوئے۔
یہ توکل علی اللہ کی وہ منزل ہے جو ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتی۔
اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا تھا کہ اپنے اونٹ رات کو خوب مضبوط باندھ کر اللہ پر بھروسہ رکھو کہ اسے کوئی نہیں چرائے گا۔
گفت پیغمبر با آواز بلند بر توکل زانوے اشتر بہ بند آج بھی ضرورت ہے کہ قرض حاصل کرنے والے مسلمان اس عزم صمیم و توکل علی اللہ کا مظاہر کریں کہ وہ اللہ کی توفیق سے ضرور ضرور قرض کی رقم جلد ہی واپس کریں گے۔
وہ ایسا کریں گے تو اللہ بھی ان کی مدد کرے گا اور ان سے ان کا قرض ادا کرادے گا۔
ان دونوں شخصوں کا نام معلوم نہیں ہوا۔
حافظ نے کہا محمد بن ربیع نے مسند صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ قرض دینے والا نجاشی تھا۔
اس صورت میں اس کو بنی اسرائیل فرمانا اس وجہ سے ہوگا کہ وہ بنی اسرائیل کا متبع تھا نہ یہ ہے کہ ان کی اولاد میں تھا۔
علامہ عینی نے اپنی عادت کے موافق حافظ صاحب پر اعتراض کیا اور حافظ صاحب کی وسعت نظر اور کثرت علم کی تعریف نہ کی۔
اور کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا حالانکہ حافظ نے خود فرمایا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول ہے۔
(وحیدی)
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ الْأَجَلِ فِي الْقَرْضِ وَوُجُوبُ الْوَفَاءِ بِهِ وَقِيلَ لَا يَجِبُ بَلْ هُوَ مِنْ بَابِ الْمَعْرُوفِ وَفِيهِ التَّحَدُّثُ عَمَّا كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الْعَجَائِبِ لِلِاتِّعَاظِ وَالِائْتِسَاءِ وَفِيهِ التِّجَارَةُ فِي الْبَحْرِ وَجَوَازُ رُكُوبِهِ وَفِيهِ بُدَاءَةُ الْكَاتِبِ بِنَفْسِهِ وَفِيهِ طَلَبُ الشُّهُودِ فِي الدَّيْنِ وَطَلَبُ الْكَفِيلِ بِهِ وَفِيهِ فَضْلُ التَّوَكُّلِ عَلَى اللَّهِ وَأَنَّ مَنْ صَحَّ تَوَكُّلُهُ تَكَفَّلَ اللَّهُ بِنَصْرِهِ وَعَوْنِهِ الخ (فتح)
یعنی اس حدیث میں جواز ہے کہ قرض میں وقت مقرر کیا جائے اور وقت مقرر پر ادائیگی کا وجوب بھی ثابت ہوا اور اس سے بنی اسرائیل کے عجیب و اقعات کا بیان کرنا بھی جائز ثابت ہوا تاکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے، اور ان کی اقتداءکی جائے اور اس سے دریائی تجارت کا بھی ثبوت ہوا اور دریائی سواریوں پر سوار ہونا بھی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کاتب شروع میں اپنا نام لکھے اور اس سے قرض کے متعلق گواہوں کا طلب کرنا اور اس کے کفیل کا طلب بھی ثابت ہوا۔
اور اس سے توکل علی اللہ کی فضیلت بھی نکلی اور یہ بھی کہ جو حقیقی صحیح متوکل ہوگا اللہ پاک اس کی مدد اور نصرت کا ذمہ دار ہوتاہے۔
خود قرآن پاک میں ارشاد باری ہے ﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾ (الطلاق3)
جو اللہ پر توکل کرے گا اللہ اس کے لیے کافی و وافی ہے۔
اس قسم کی بہت سی آیات قرآن مجید میں وارد ہیں۔
مگر اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جانے کا نام توکل نہیں ہے۔
بلکہ کام کو پوری قوت کے ساتھ انجام دینا اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کر دینا اور خیر کے لیے اللہ سے پوری پوری امید رکھنا یہ توکل ہے جو ایک مسلمان کے لیے داخل ایمان ہے۔
حدیث قدسی میں فرمایا أنَا عِندَ ظَن عبدِي بي۔
میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں وہ میرے متعلق جو بھی گمان قائم کرے گا۔
مطلب یہ کہ بندہ اللہ پر جیسا بھی بھروسہ کرے گا اللہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا۔
اسرائیلی مومن نے اللہ پر بھروسہ کرکے ایک ہزار اشرفیوں کی خطیر رقم کو اللہ کے حوالہ کر دیا۔
اللہ نے اس کے گمان کو صحیح کرکے دکھلایا۔
شروع میں ابولزناد کی روایت سے جو اوقعہ مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنا ہی مال سمجھ کر اس سے بوجہ نادانی صحبت کر لی یہ مقدمہ حضرت عمر ؓ کی عدالت عالیہ میں آیا تو آپ نے اس کی نادانی کے سبب اس پر رجم کی سزا معاف کر دی مگر بطور تعزیر سو کوڑے لگوائے۔
پھر جب حضرت حمزہ اسلمی ؓ وہاں زکوٰۃ وصول کرنے بطور تحصیل دار گئے، تو ان کے سامنے بھی یہ معاملہ آیا۔
ان کو حضرت عمر ؓ کے فیصلے کا علم نہ تھا۔
لوگوں نے ذکرکیا تب ان کو یقین نہ آیا۔
اس لیے قبیلہ والوں میں سے کسی نے اپنی ضمانت پیش کی کہ آپ حضرت عمر ؓ سے اس کی تصدیق فرما لیں۔
چنانچہ انہوں نے یہ ضمانت قبول کی اور حضرت عمر ؓ سے اس واقعہ کی تصدیق چاہی۔
حضرت امام بخاری ؒ نے اس سے حاضر ضمانت کو ثابت فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2291
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2291
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت کے مطابق اس نے خط میں لکھا کہ یہ خط فلاں کی طرف سے فلاں کی جانب ہے، میں نے تیرا مال اس ضامن کے حوالے کردیا ہے جس نے میری ضمانت دی تھی۔
واقعی اس اسرائیلی مومن نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک ہزار دینار کی خطیر رقم اللہ کے حوالے کردی۔
اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے گمان کو صحیح کر دکھایا۔
(2)
ان کے متعلق مزید تفصیلات کا پتہ نہیں چل سکا کہ لوگ کون تھے؟کہاں کے باشندے تھے؟اور کس زمانے سے ان کا تعلق تھا؟ (3)
اگرچہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب سے وابستہ ہے مگر کچھ چیزیں استثنائی طور پر وقوع پذیر ہوجاتی ہے جیسا کہ یہ واقعہ ہے۔
(4)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے شخصی کفالت کو ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح وتعریف ذکر کیا ہے، اگر اس میں کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے۔
(5)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے لیے وقت مقرر کیا جاسکتا ہے اور پھر اس مقررہ وقت پر اس کی ادائیگی واجب ہے، نیز قرض کے متعلق گواہی اور ضمانت لی جاسکتی ہے۔
یہ تمام باتیں اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
(فتح الباري: 595/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2291