صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
The Book of Hiring
16. بَابُ مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ عَلَى أَحْيَاءِ الْعَرَبِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
16. باب: سورۃ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا۔
(16) Chapter. What is paid for Ruqya (i.e., Divine Speech recited as a means of curing diseases) with Surat Al-Fatiha, when practised over an Arab tribe.
حدیث نمبر: 2276
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد رضي الله عنه، قال:" انطلق نفر من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في سفرة سافروها حتى نزلوا على حي من احياء العرب، فاستضافوهم، فابوا ان يضيفوهم، فلدغ سيد ذلك الحي، فسعوا له بكل شيء، لا ينفعه شيء، فقال بعضهم: لو اتيتم هؤلاء الرهط الذين نزلوا لعله ان يكون عند بعضهم شيء فاتوهم، فقالوا: يا ايها الرهط، إن سيدنا لدغ وسعينا له بكل شيء لا ينفعه، فهل عند احد منكم من شيء؟ فقال بعضهم: نعم، والله إني لارقي، ولكن والله لقد استضفناكم فلم تضيفونا، فما انا براق لكم حتى تجعلوا لنا جعلا فصالحوهم على قطيع من الغنم، فانطلق يتفل عليه، ويقرا: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، فكانما نشط من عقال فانطلق يمشي وما به قلبة، قال: فاوفوهم جعلهم الذي صالحوهم عليه، فقال بعضهم: اقسموا، فقال: الذي رقى، لا تفعلوا حتى ناتي النبي صلى الله عليه وسلم، فنذكر له الذي كان فننظر ما يامرنا، فقدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له، فقال: وما يدريك انها رقية، ثم قال: قد اصبتم اقسموا واضربوا لي معكم سهما، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم"، قال ابو عبد الله: وقال شعبة: حدثنا ابو بشر، سمعت ابا المتوكل بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ، لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ، فَقَالُوا: يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ، إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَعَمْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ، وَيَقْرَأُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ، قَالَ: فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اقْسِمُوا، فَقَالَ: الَّذِي رَقَى، لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ، فَقَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ شُعْبَةُ: حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ بِهَذَا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا، اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور «الحمد لله رب العالمين» پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ شعبہ نے کہا کہ ابوالبشر نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے ابوالمتوکل سے ایسا ہی سنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id: Some of the companions of the Prophet went on a journey till they reached some of the 'Arab tribes (at night). They asked the latter to treat them as their guests but they refused. The chief of that tribe was then bitten by a snake (or stung by a scorpion) and they tried their best to cure him but in vain. Some of them said (to the others), "Nothing has benefited him, will you go to the people who resided here at night, it may be that some of them might possess something (as treatment)," They went to the group of the companions (of the Prophet ) and said, "Our chief has been bitten by a snake (or stung by a scorpion) and we have tried everything but he has not benefited. Have you got anything (useful)?" One of them replied, "Yes, by Allah! I can recite a Ruqya, but as you have refused to accept us as your guests, I will not recite the Ruqya for you unless you fix for us some wages for it." They agrees to pay them a flock of sheep. One of them then went and recited (Surat-ul-Fatiha): 'All the praises are for the Lord of the Worlds' and puffed over the chief who became all right as if he was released from a chain, and got up and started walking, showing no signs of sickness. They paid them what they agreed to pay. Some of them (i.e. the companions) then suggested to divide their earnings among themselves, but the one who performed the recitation said, "Do not divide them till we go to the Prophet and narrate the whole story to him, and wait for his order." So, they went to Allah's Apostle and narrated the story. Allah's Apostle asked, "How did you come to know that Suratul- Fatiha was recited as Ruqya?" Then he added, "You have done the right thing. Divide (what you have earned) and assign a share for me as well." The Prophet smiled thereupon.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 476

حدیث نمبر: 5007
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا وهب، حدثنا هشام، عن محمد، عن معبد، عن ابي سعيد الخدري، قال:" كنا في مسير لنا، فنزلنا فجاءت جارية، فقالت: إن سيد الحي سليم، وإن نفرنا غيب، فهل منكم راق؟ فقام معها رجل ما كنا نابنه برقية فرقاه، فبرا فامر له بثلاثين شاة وسقانا لبنا، فلما رجع، قلنا له: اكنت تحسن رقية، او كنت ترقي؟ قال: لا ما رقيت إلا بام الكتاب، قلنا: لا تحدثوا شيئا حتى ناتي او نسال النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قدمنا المدينة ذكرناه للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: وما كان يدريه انها رقية، اقسموا واضربوا لي بسهم"، وقال ابو معمر: حدثنا عبد الوارث، حدثنا هشام، حدثنا محمد بن سيرين، حدثني معبد بن سيرين، عن ابي سعيد الخدري، بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" كُنَّا فِي مَسِيرٍ لَنَا، فَنَزَلْنَا فَجَاءَتْ جَارِيَةٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ سَيِّدَ الْحَيِّ سَلِيمٌ، وَإِنَّ نَفَرَنَا غَيْبٌ، فَهَلْ مِنْكُمْ رَاقٍ؟ فَقَامَ مَعَهَا رَجُلٌ مَا كُنَّا نَأْبُنُهُ بِرُقْيَةٍ فَرَقَاهُ، فَبَرَأَ فَأَمَرَ لَهُ بِثَلَاثِينَ شَاةً وَسَقَانَا لَبَنًا، فَلَمَّا رَجَعَ، قُلْنَا لَهُ: أَكُنْتَ تُحْسِنُ رُقْيَةً، أَوْ كُنْتَ تَرْقِي؟ قَالَ: لَا مَا رَقَيْتُ إِلَّا بِأُمِّ الْكِتَابِ، قُلْنَا: لَا تُحْدِثُوا شَيْئًا حَتَّى نَأْتِيَ أَوْ نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ذَكَرْنَاهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَمَا كَانَ يُدْرِيهِ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ"، وَقَالَ أَبُو مَعْمَرٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي مَعْبَدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، بِهَذَا.
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے معبد بن سیرین نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک فوجی سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ایک صحابی (خود ابوسعید) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہو گئی۔ اس نے اس کے شکرانے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے۔ (جاؤ یہ مال حلال ہے) اسے تقسیم کر لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگانا۔ اور معمر نے بیان کیا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، کہا ہم سے معبد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہی واقعہ بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: While we were on one of our journeys, we dismounted at a place where a slave girl came and said, "The chief of this tribe has been stung by a scorpion and our men are not present; is there anybody among you who can treat him (by reciting something)?" Then one of our men went along with her though we did not think that he knew any such treatment. But he treated the chief by reciting something, and the sick man recovered whereupon he gave him thirty sheep and gave us milk to drink (as a reward). When he returned, we asked our friend, "Did you know how to treat with the recitation of something?" He said, "No, but I treated him only with the recitation of the Mother of the Book (i.e., Al-Fatiha)." We said, "Do not say anything (about it) till we reach or ask the Prophet so when we reached Medina, we mentioned that to the Prophet (in order to know whether the sheep which we had taken were lawful to take or not). The Prophet said, "How did he come to know that it (Al-Fatiha) could be used for treatment? Distribute your reward and assign for me one share thereof as well."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 529

حدیث نمبر: 5736
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه:" ان ناسا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم اتوا على حي من احياء العرب فلم يقروهم، فبينما هم كذلك إذ لدغ سيد اولئك، فقالوا: هل معكم من دواء او راق، فقالوا: إنكم لم تقرونا ولا نفعل حتى تجعلوا لنا جعلا، فجعلوا لهم قطيعا من الشاء، فجعل يقرا بام القرآن، ويجمع بزاقه، ويتفل، فبرا فاتوا بالشاء، فقالوا: لا ناخذه حتى نسال النبي صلى الله عليه وسلم، فسالوه فضحك، وقال: وما ادراك انها رقية خذوها واضربوا لي بسهم".(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ فَلَمْ يَقْرُوهُمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ لُدِغَ سَيِّدُ أُولَئِكَ، فَقَالُوا: هَلْ مَعَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رَاقٍ، فَقَالُوا: إِنَّكُمْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَا نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَجَعَلُوا لَهُمْ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَيَجْمَعُ بُزَاقَهُ، وَيَتْفِلُ، فَبَرَأَ فَأَتَوْا بِالشَّاءِ، فَقَالُوا: لَا نَأْخُذُهُ حَتَّى نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ فَضَحِكَ، وَقَالَ: وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ خُذُوهَا وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے ابوبشر نے، ان سے ابوالمتوکل نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ در حالت سفر عرب کے ایک قبیلہ پر گزرے۔ قبیلہ والوں نے ان کی ضیافت نہیں کی کچھ دیر بعد اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا، اب قبیلہ والوں نے ان صحابہ سے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی دوا یا کوئی جھاڑنے والا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ تم لوگوں نے ہمیں مہمان نہیں بنایا اور اب ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اس کی مزدوری نہ مقرر کر دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے چند بکریاں دینی منظور کر لیں پھر (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) سورۃ فاتحہ پڑھنے لگے اور اس پر دم کرنے میں منہ کا تھوک بھی اس جگہ پر ڈالنے لگے۔ اس سے وہ شخص اچھا ہو گیا۔ چنانچہ قبیلہ والے بکریاں لے کر آئے لیکن صحابہ نے کہا کہ جب تک ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھ لیں یہ بکریاں نہیں لے سکتے پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ مسکرائے اور فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ سورۃ فاتحہ سے دم بھی کیا جا سکتا ہے، ان بکریوں کو لے لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Some of the companions of the Prophet came across a tribe amongst the tribes of the Arabs, and that tribe did not entertain them. While they were in that state, the chief of that tribe was bitten by a snake (or stung by a scorpion). They said, (to the companions of the Prophet ), "Have you got any medicine with you or anybody who can treat with Ruqya?" The Prophet's companions said, "You refuse to entertain us, so we will not treat (your chief) unless you pay us for it." So they agreed to pay them a flock of sheep. One of them (the Prophet's companions) started reciting Surat-al-Fatiha and gathering his saliva and spitting it (at the snake-bite). The patient got cured and his people presented the sheep to them, but they said, "We will not take it unless we ask the Prophet (whether it is lawful)." When they asked him, he smiled and said, "How do you know that Surat-al-Fatiha is a Ruqya? Take it (flock of sheep) and assign a share for me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 632

حدیث نمبر: 5749
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد:" ان رهطا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم انطلقوا في سفرة سافروها حتى نزلوا بحي من احياء العرب، فاستضافوهم، فابوا ان يضيفوهم، فلدغ سيد ذلك الحي، فسعوا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فقال بعضهم: لو اتيتم هؤلاء الرهط الذين قد نزلوا بكم لعله ان يكون عند بعضهم شيء، فاتوهم، فقالوا: يا ايها الرهط إن سيدنا لدغ، فسعينا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فهل عند احد منكم شيء، فقال بعضهم: نعم والله إني لراق، ولكن والله لقد استضفناكم فلم تضيفونا، فما انا براق لكم حتى تجعلوا لنا جعلا، فصالحوهم على قطيع من الغنم، فانطلق فجعل يتفل ويقرا الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، حتى لكانما نشط من عقال، فانطلق يمشي ما به قلبة، قال: فاوفوهم جعلهم الذي صالحوهم عليه، فقال بعضهم: اقسموا، فقال الذي رقى: لا تفعلوا حتى ناتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فنذكر له الذي كان، فننظر ما يامرنا، فقدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له، فقال: وما يدريك انها رقية اصبتم اقسموا واضربوا لي معكم بسهم".(موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ:" أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ قَدْ نَزَلُوا بِكُمْ لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ، فَأَتَوْهُمْ، فَقَالُوا: يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ، فَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَرَاقٍ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَانْطَلَقَ فَجَعَلَ يَتْفُلُ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، حَتَّى لَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَانْطَلَقَ يَمْشِي مَا بِهِ قَلَبَةٌ، قَالَ: فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اقْسِمُوا، فَقَالَ الَّذِي رَقَى: لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ، فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ، فَقَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر (جعفر) ان سے ابوالمتوکل علی بن داؤد نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ (300 نفر) ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے جسے انہیں طے کرنا تھا راستے میں انہوں نے عرب کے ایک قبیلہ میں پڑاؤ کیا اور چاہا کہ قبیلہ والے ان کی مہمانی کریں لیکن انہوں نے انکار کیا، پھر اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا اسے اچھا کرنے کی ہر طرح کی کوشش انہوں نے کر ڈالی لیکن کسی سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ آخر انہیں میں سے کسی نے کہا کہ یہ لوگ جنہوں نے تمہارے قبیلہ میں پڑاؤ کر رکھا ہے ان کے پاس بھی چلو، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی منتر ہو۔ چنانچہ وہ صحابہ کے پاس آئے اور کہا لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے ہم نے ہر طرح کی بہت کوشش اس کے لیے کر ڈالی لیکن کسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیا تم لوگوں میں سے کسی کے پاس اس کے لیے منتر ہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ہاں واللہ میں جھاڑنا جانتا ہوں لیکن ہم نے تم سے کہا تھا کہ ہماری مہمانی کرو (ہم مسافر ہیں) تو تم نے انکار کر دیا تھا اس لیے میں بھی اس وقت تک نہیں جھاڑوں گا جب تک تم میرے لیے اس کی مزدوری نہ ٹھہرا دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ بکریوں (30) پر معاملہ کر لیا۔ اب یہ صحابی روانہ ہوئے۔ یہ زمین پر تھوکتے جاتے اور «‏‏‏‏الحمد لله رب العالمين» ‏‏‏‏ پڑھتے جاتے اس کی برکت سے وہ ایسا ہو گیا جیسے اس کی رسی کھل گئی ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔ بیان کیا کہ پھر وعدہ کے مطابق قبیلہ والوں نے ان صحابی کی مزدوری (30 بکریاں) ادا کر دی بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو تقسیم کر لو لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں، پہلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں پوری صورت حال آپ کے سامنے بیان کر دیں پھر دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں۔ چنانچہ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ اس سے دم کیا جا سکتا ہے؟ تم نے اچھا کیا جاؤ ان کو تقسیم کر لو اور میرا بھی اپنے ساتھ ایک حصہ لگاؤ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id: A group of the companions of Allah's Apostle proceeded on a journey till they dismounted near one of the Arab tribes and requested them to entertain them as their guests, but they (the tribe people) refused to entertain them. Then the chief of that tribe was bitten by a snake (or stung by a scorpion) and he was given all sorts of treatment, but all in vain. Some of them said, "Will you go to the group (those travelers) who have dismounted near you and see if one of them has something useful?" They came to them and said, "O the group! Our leader has been bitten by a snake (or stung by a scorpion) and we have treated him with everything but nothing benefited him Has anyone of you anything useful?" One of them replied, "Yes, by Allah, I know how to treat with a Ruqya. But. by Allah, we wanted you to receive us as your guests but you refused. I will not treat your patient with a Ruqya till you fix for us something as wages." Consequently they agreed to give those travellers a flock of sheep. The man went with them (the people of the tribe) and started spitting (on the bite) and reciting Surat-al-Fatiha till the patient was healed and started walking as if he had not been sick. When the tribe people paid them their wages they had agreed upon, some of them (the Prophet's companions) said, "Distribute (the sheep)." But the one who treated with the Ruqya said, "Do not do that till we go to Allah's Apostle and mention to him what has happened, and see what he will order us." So they came to Allah's Apostle and mentioned the story to him and he said, "How do you know that Surat-al-Fatiha is a Ruqya? You have done the right thing. Divide (what you have got) and assign for me a share with you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 645


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.