اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: انبانا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن شريك، عن خصيف، عن مجاهد، قال:" الخمس الذي لله وللرسول كان للنبي صلى الله عليه وسلم , وقرابته لا ياكلون من الصدقة شيئا، فكان للنبي صلى الله عليه وسلم خمس الخمس , ولذي قرابته خمس الخمس، ولليتامى مثل ذلك، وللمساكين مثل ذلك، ولابن السبيل مثل ذلك". قال ابو عبد الرحمن: قال الله جل ثناؤه: واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل سورة الانفال آية 41 , وقوله عز وجل: لله سورة الانفال آية 41 ابتداء كلام لان الاشياء كلها لله عز وجل ولعله، إنما استفتح الكلام في الفيء , والخمس بذكر نفسه لانها اشرف الكسب ولم ينسب الصدقة إلى نفسه عز وجل , لانها اوساخ الناس، والله تعالى اعلم، وقد قيل يؤخذ من الغنيمة شيء , فيجعل في الكعبة , وهو السهم الذي لله عز وجل , وسهم النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإمام , يشتري الكراع منه والسلاح ويعطي منه من راى ممن راى فيه غناء ومنفعة لاهل الإسلام , ومن اهل الحديث , والعلم , والفقه , والقرآن , وسهم لذي القربى وهم بنو هاشم , وبنو المطلب بينهم الغني منهم والفقير , وقد قيل: إنه للفقير منهم دون الغني , كاليتامى , وابن السبيل، وهو اشبه القولين بالصواب عندي , والله تعالى اعلم , والصغير والكبير والذكر والانثى سواء، لان الله عز وجل جعل ذلك لهم، وقسمه رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم، وليس في الحديث انه فضل بعضهم على بعض، ولا خلاف نعلمه بين العلماء في رجل لو اوصى بثلثه لبني فلان انه بينهم، وان الذكر والانثى فيه سواء إذا كانوا يحصون فهكذا كل شيء صير لبني فلان، انه بينهم بالسوية، إلا ان يبين ذلك الآمر به , والله ولي التوفيق , وسهم لليتامى من المسلمين , وسهم للمساكين من المسلمين، وسهم لابن السبيل من المسلمين، ولا يعطى احد منهم سهم مسكين , وسهم ابن السبيل، وقيل له: خذ ايهما شئت , والاربعة اخماس يقسمها الإمام بين من حضر القتال من المسلمين البالغين". أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:" الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَرَابَتِهِ لَا يَأْكُلُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ شَيْئًا، فَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ , وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِلْيَتَامَى مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْمَسَاكِينِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الأنفال آية 41 , وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: لِلَّهِ سورة الأنفال آية 41 ابْتِدَاءُ كَلَامٍ لِأَنَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَعَلَّهُ، إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْكَلَامَ فِي الْفَيْءِ , وَالْخُمُسِ بِذِكْرِ نَفْسِهِ لِأَنَّهَا أَشْرَفُ الْكَسْبِ وَلَمْ يَنْسِبِ الصَّدَقَةَ إِلَى نَفْسِهِ عَزَّ وَجَلَّ , لِأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنَ الْغَنِيمَةِ شَيْءٌ , فَيُجْعَلُ فِي الْكَعْبَةِ , وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْإِمَامِ , يَشْتَرِي الْكُرَاعَ مِنْهُ وَالسِّلَاحَ وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَى مِمَّنْ رَأَى فِيهِ غَنَاءً وَمَنْفَعَةً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ , وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَالْعِلْمِ , وَالْفِقْهِ , وَالْقُرْآنِ , وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ , وَبَنُو الْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمُ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ وَالْفَقِيرُ , وَقَدْ قِيلَ: إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ , كَالْيَتَامَى , وَابْنِ السَّبِيلِ، وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي , وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ , وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالذَّكَرُ وَالْأُنْثَى سَوَاءٌ، لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ ذَلِكَ لَهُمْ، وَقَسَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ، وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلَا خِلَافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلَانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ، وَأَنَّ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى فِيهِ سَوَاءٌ إِذَا كَانُوا يُحْصَوْنَ فَهَكَذَا كُلُّ شَيْءٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلَانٍ، أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ، إِلَّا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِكَ الْآمِرُ بِهِ , وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ , وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ , وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِابْنِ السَّبِيلِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا يُعْطَى أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْكِينٍ , وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقِيلَ لَهُ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ , وَالْأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الْإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ".
مجاہد کہتے ہیں کہ(قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لیے آیا ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رشتہ داروں کے لیے تھا، وہ لوگ صدقہ و زکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لیے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لیے اور اتنا ہی مسافروں کے لیے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت سے ملے تو: اللہ کے لیے، رسول کے لیے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» میں اللہ کا قول «لِلَّهِ»”یعنی اللہ کے لیے ہے“ ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مال فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ”اپنے ذکر“ سے شاید اس لیے کی ہے کہ وہ سب سے اعلیٰ درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لیے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لیے ہو گا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لیے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مالدار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لیے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔ اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لیے رکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لیے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہو گا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لیے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہو گی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ «واللہ ولی التوفیق» ۔ اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لیے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لیے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لیے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19261) (ضعیف الإسناد مرسل) (خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مرسل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، خصيف: ليس بالقوي،كما قال النسائي فى كتاب الضعفاء والمتروكين (177) وضعفه الجمهور (انظر سنن أبى داود: 266 بتحقيقي) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 352
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4152
اردو حاشہ: غنیمت اور خمس کے بارے میں تفصیلی بحث سابقہ حدیث میں ہوچکی ہے۔ ملا حظہ فرمائیں۔ باقی رہا امام صاحب کا فرمانا کہ خمس میں فلاں فلاں کے حصے مقرر ہیں اور برابر ہیں۔ یہ فرمانا درست نہیں بلکہ خمس کا اور خمس کے مستحقین کا تعین ہے مقدار کا تعین نہیں۔ جس مصرف میں ضرورت ہو‘ خرچ کرے اور جس قدر ضرورت ہو‘ خرچ کرے۔ یہ نہیں کہ فقراء مساکین اور قرابت داروں کو عین برابر حصے دے بلکہ ان کو ان کی حاجت کے مطابق ملے گا‘ یعنی اﷲ تعالیٰ نے خمس، یعنی بیت المال کے مصارف بیان فرمائے ہیں نہ کہ ان کے حسے بیان کیے ہیں کہ سب کے برابر ہیں یا کم وبیش۔ یہ کہیں منقول نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے رشتے داروں یا دوسرے مستحقین میں عین برابر مال تقسیم کیا ہو بلکہ غزوہ حنین کے خمس سے آپ نے بعض لوگوں کو سوسواونٹ دیے تھے اور بعض کو کچھ بھی نہیں دیا تھا‘ نیز یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی علاقے میں اہل بیت ہی نہ ہوں۔ تو پھر ان کا حصہ کن کو دیا جائے گا؟اصل یہی ہے کہ مستحقین متعین ہیں لیکن حصہ متعین نہیں جوبھی مستحق پایا جائے گا اس کا حاجت کے مطابق اسے دیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4152