ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کے رسول ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی قسم پر اصرار کرے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کفارے سے زیادہ گنہگار ہو گا، جس کی ادائیگی کا اسے حکم دیا گیا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14798)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأیمان 1 (6625)، صحیح مسلم/الأیمان 6 (1655)، مسند احمد (2/278، 317) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کفارہ ہمیشہ گناہ کا ہوتا ہے، تو قسم کا توڑنا بھی ایک گناہ ہے، اس لئے کہ اس میں اللہ کے نام کی بے حرمتی ہے، اسی کے نام پر کفارہ مقرر ہوا ہے، لیکن بری قسم کا نہ توڑنا، توڑنے سے زیادہ گناہ ہے۔
It was narrated that Hammam heard Abu Hurairah saying that 'Abul-Qasim (ﷺ) said:
"If anyone of you insists on fulfilling what he swore to (after learning that it is wrong) then it is more sinful before Allah than (breaking the oath for which) the expiation that has been enjoined upon him."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2114
´قسم پر اصرار کرنے اور کفارہ نہ دینے کی ممانعت۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کے رسول ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی قسم پر اصرار کرے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کفارے سے زیادہ گنہگار ہو گا، جس کی ادائیگی کا اسے حکم دیا گیا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2114]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قسم پر اصرار کرنے کا مطلب ایسی قسم پوری کرنے کا عزم ہے جو کسی گناہ یا مکروہ کام پر مشتمل ہو۔ ایسی قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے (2) بری بات پر قسم کھا کر اس پر قائم رہنا بھی گنا ہے، اس لیے بہتر ہے قسم توڑنے کا گناہ کر لیا جائے کیونکہ وہ کفارہ ادا کرنے سے معاف ہو جائے گا جبکہ غلطی پر قائم رہنے سے گناہ بڑھتا چلا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2114