الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3035
´کافروں سے جنگ میں ہاتھ آ نے والی نیز سواد نامی علاقے کی زمینوں کو مصالح عامہ کے لیے روک رکھنے اور اسے غنیمت میں تقسیم نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک وقت آئے گا) جب عراق اپنے پیمانے اور روپے روک دے گا اور شام اپنے مدوں اور اشرفیوں کو روک دے گا اور مصر اپنے اردبوں ۲؎ اور اشرفیوں کو روک دے گا ۳؎ پھر (ایک وقت آئے گا جب) تم ویسے ہی ہو جاؤ گے جیسے شروع میں تھے ۴؎“، (احمد بن یونس کہتے ہیں:) زہیر نے یہ بات (زور دینے کے لیے) تین بار کہی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گوشت و خون (یعنی ان کی ذات) نے اس کی گواہی دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3035]
فوائد ومسائل:
1۔
(قفیز) اہل عراق کا غلہ بھرنے کا پیمانہ ہے جس میں بارہ صاع آتے ہیں۔
(مدی) میم کی پیش اور دال ساکن اس کے بعد ی اہل شام کا پیمانہ ہے۔
جس میں ساڑھے بایئس صاع آتے ہیں۔
(اردب) (ہمزہ کی زیر ساکن دال پر زبر اور با مشدد ہے۔
) اہل مصر کا پیمانہ ہے جس میں چوبیس صاع آتے ہیں۔
2۔
یہ حدیث علامات نبوت میں سے ہے جس میں پہلے تو یہ خوش خبری ہے۔
کہ یہ علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں گے۔
اور ان سے غنائم اور خراج حاصل ہوں گے۔
3۔
اور پھر ایک وقت کے بعد وہ اس کی ادایئگی روک دیں گے یا تو مطلقا انکار کردیں گے۔
یا مسلمان ہوجایئں گے۔
اور خراج ساقط ہوجائے گا۔
یا مرکز اسلام سے ٹوٹ کر سب الگ الگ اور مستقل ہوجایئں گے۔
جیساکہ آج کل ہے۔
4۔
پھر تم ادھر ہی لوٹ جائو گے جہاں سے تم نے ابتداء کی تھی۔
یعنی الگ الگ آزاد اور ایک دوسرے سےجدا ملک بن جائو گے۔
جیسے کہ ابتدائے اسلام میں تھے۔
5۔
امام ابودائود کا استدلال یہ ہے کہ مفتوحہ زمین لوگوں کی ذاتی ملکیت کی بجائے یا مجاہدین کے درمیان تقیسم کرنے کی بجائے بیت المال کی نگرانی میں رہنی چاہیے۔
تاکہ ان کی آمدنی سے مملکت اسلامی کے رفاہی امور اور مجاہدین وغیرہ کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں سوا د عراق کی بابت یہی فیصلہ کیا تھا اور اسے مجاہدین میں تقسیم کرنے کی بجائے اسلامی مملکت کی تحویل میں رکھا تاکہ اس کی آمدنی کو حسب ضرورت و مصلحت استعمال کیا جا سکے۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز کو تفصیلی مشاورت کے بعد بالاجماع قبول کیا تھا۔
اس لئے یہ حجت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3035