فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4363
´چیونٹیوں کو مارنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے ایک نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دینے کا حکم دیا اور وہ جلا دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی: اگر تمہیں کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو (ایک ہی کو مارتے مگر) تم نے ایک ایسی امت (مخلوق) کو مار ڈالا جو (ہماری) تسبیح (پاکی بیان) کر رہی تھی“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4363]
اردو حاشہ:
(1) چیونٹی کے متعلق حکم شریعت یہ ہے کہ اگر وہ تکلیف پہنچائے تو اسے مارا جا سکتا ہے۔ ہر تکلیف دینے والی مخلوق کو قتل کیا جا سکتا ہے، البتہ اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ صرف اسے قتل کیا جائے جس نے تکلیف پہنچائی ہو۔ مذکورہ حدیث میں ایک نبی کا قصہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سابقہ شریعتوں میں سے کسی شریعت کی کوئی بات بتائیں تو وہ ہمارے لیے بھی شریعت ہی ہوتی ہے۔ ہاں، اگر ہماری شریعت میں اس کے منافی حکم آجائے تو پھر سابقہ شریعت کی بات ہمارے لیے حجت نہیں ہوگی۔
(2) معلوم ہوا حیوان بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے تو اس حد تک تصریح فرمائی ہے کہ ساتویں آسمان وزمین اور جو مخلوق ان (آسمانوں اور زمین) میں ہے، وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ مطلب بالکل واضح ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد سمیت اس کی تسبیح کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾ (بنی اسرائیل: 17: 44) اور یہ حقیقت ہے کہ ہر مخلوق ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ بعض لوگوں نے حیوانات وغیرہ کی تسبیح کو مجازی معنیٰ پر محمول کرنے کی کوشش کی ہے، یہ قطعاً درست نہیں۔
(3) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرامؓ کو بھی عام انسانوں کی طرح درد اور موذی چیزوں کے کاٹنے سے تکلیف محسوس ہوتی تھی۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ذوی العقول، یعنی صاحب شعور مخلوق ہی سے ظلم کا بدلا نہیں لیا جائے گا بلکہ غیر ذوی العقول، سے بھی اس کے ظلم وزیادتی کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
(5) شاید آگ سے جلانا ان کی شریعت میں جائز ہوگا، ہماری شریعت میں منع ہے۔
(6) چیونٹی کے قتل سے نہی اس کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4363