(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" قرصت نملة نبيا من الانبياء فامر بقرية النمل فاحرقت، فاوحى الله إليه ان قرصتك نملة احرقت امة من الامم تسبح".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أن أبا هريرة رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الْأُمَمِ تُسَبِّحُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ایک چیونٹی نے ایک نبی (عزیر یا موسیٰ علیہ السلام) کو کاٹ لیا تھا۔ تو ان کے حکم سے چیونٹیوں سے سارے گھر جلا دئیے گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ اگر تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو تم نے ایک ایسی خلقت کو جلا کر خاک کر دیا جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی۔
Narrated Abu Hurairah (ra): I heard Allah's Messenger (saws) saying, "An ant bit a Prophet amongst the Prophets, and he ordered that the place of the ants be burnt. So, Allah inspired to him, 'It is because one ant bit you that you burnt a nation amongst the nations that glorify Allah?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 261
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3019
حدیث حاشیہ: کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر ایک ایسی بستی پر سے گزرے جس کو اللہ پاک نے بالکل تباہ کردیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا پروردگار! اس بستی میں تو قصور بے قصور ہر طرح کے لوگ‘ لڑکے‘ بچے‘ جانور سب ہی تھے‘ تو نے سب کو ہلاک کردیا۔ پھر ایک درخت کے تلے اترے‘ ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا‘ انہوں نے غصہ ہو کر چیونٹیوں کا سارا بل جلا دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے معروضہ کا جواب ادا کیا کہ تو نے کیوں بے قصور چیونٹیوں کو ہلاک کردیا۔ حضرت امام بخاریؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ آگ سے عذاب کرنا درست ہے‘ جیسے ان پیغمبر نے کیا۔ قسطلانی ؒنے کہا اس حدیث سے دلیل لی اس نے جو موذی جانور کا جلانا جائز سمجھتا ہے۔ اور ہماری شریعت میں تو چیونٹی اور شہد کی مکھی کو مار ڈالنے سے ممانعت ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3019
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3019
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ باب بلا عنوان ہے گویا عنوان سابقہ کاتکملہ ہے۔ ان کے درمیان مناسبت اس طرح ہے کہ جلانے میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے،صرف مستحق کو سزادی جائے۔ کسی بے گناہ کو سزادینا درست نہیں۔ اس حدیث میں ارشاد ہے: اگرصرف اسی چیونٹی کو جلایاجاتا جس نے کاٹاتھا تو اس نبی کو عتاب نہ ہوتا،لیکن یہ استدلال اس امر پر موقوف ہے کہ ہم سے پہلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں۔ (فتح الباری: 186/6) 2۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺنے چیونٹی اور شہد کی مکھی کومارڈالنے سے منع فرمایا ہے،البتہ موذی جانور کو مارنا یا جلاناجائز ہے۔ (عون الباری: 565/3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حیوانات اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی ہے: ”ہرچیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ “(بنی اسرایل 44/17)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3019
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 18
´ایک نبی کا چیونٹیوں کا جلانا` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی ایک درخت کے سائے میں اترے، وہاں انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، تو انہوں نے حکم دیا، چنانچہ ان کا سارا سامان درخت کے نیچے سے اٹھا لیا گیا، پھر چیونٹیوں کو آگ لگوا کر جلا ڈالا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا، فقط اسی کو جلانا تھا۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 18]
شرح الحديث: "فتح الباری" میں ہے کہ یہ پیغمبر ایک بستی پر سے گزرے جس کو الله تعالیٰ نے بالکل تباہ کر دیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: پروردگار! اس بستی میں تو قصور بے قصور ہر طرح کے لوگ، لڑکے، بچے اور جانور سب ہی تھے۔ تو نے سب کو ہلاک کر دیا۔ پھر ایک درخت کے سائے میں اترے، وہاں انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے غصہ ہوکر چیونٹیوں کا سارا بل جلا دیا، تب الله تعالیٰ نے ان کے معروضہ کا جواب ادا کیا کہ تونے کیوں باقی بے قصور چیونٹیوں کو بھی ہلاک کر دیا؟ ایک دوسری روایت میں ہے کہ الله تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی: «أَنْ قَرْصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الْأُمَمِ تُسَبِّحُ اللهَ .» "تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا لیکن تم نے ایک ایسی خلقت کو جلا کر راکھ کر دیا جو الله کی تسبیح بیان کرتی تھی۔ " [صحيح بخاري، كتاب الجهاد والسير، رقم: 3019] امام بخاری رحمة الله علیہ نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ بوقت ضرورت چیونٹیوں کو مارنا درست ہے، جیسے اس پیغمبر نے کیا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ عذاب آگ سے نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ الله کی مخلوق کو آگ سے عذاب دینے کی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ یاد رہے کہ بلاوجہ چیونٹی کو مارنا ممنوع ہے۔ چناچہ سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے چار جانداروں کو مارنے سے منع فرمایا ہے: چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور لٹورا۔ [سنن ابو داود، باب فى قتل الذر، رقم: 5267 _ سنن ابن ماجة، رقم: 3224 _ الباني رحمه الله نے اسے صحيح كها هے۔]
ان جانداروں کے قتل کی ممانعت کی حکمت: * چیونٹی کو مارنے سے رسول کریم علیه الصلوة والسلام نے اس لیے منع فرمایا ہے کہ وہ الله کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ [صحيح بخاري، رقم: 3019] * حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ چونکہ ہدہد نے صرف ایک الله کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور غیر الله کو سجدہ کرنے سے روکا اسی لیے اس کا قتل ممنوع ہے۔ [بحواله تيسير الرحمن: 1075/2] * شہد کی مکھی قدرت الہی کا نمونہ ہے اور نیز شہد قابل شفا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اسے مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ * لٹورا، ممولا کو کہتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا پرندہ ہے جس کا سر بڑا، پیٹ سفید اور پیٹھ سبز ہوتی ہے۔ چھوٹے پرندوں اور حشرات وغیرہ کا شکار کرتا ہے۔ *ابن ماجہ از محمد فواد الباقی بحوالہ المنجد ابن اثیر رحمه الله نے فرمایا: "یہ بڑے سر اور بڑی چونچ والا ایک پرندہ ہے۔ اس کے پر آدھے سفید اور آدھے سیاہ ہوتے ہیں۔ [النهاية، ماده صرد] * مولانا عطا الله ساجد رقمطراز ہیں: "قتل نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان چیزوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرنا منع ہے۔ «والله اعلم»[سنن ابن ماجه: 360/4، _ مطبوعه دارالسلام، مزيد تفصيل كے ليے ديكهئے: ألارواء: 143/8] اس سے معلوم ہوا کہ دین اسلام نے جانوروں کے بھی حقوق بتلائے ہیں، لہذا ان کو بلا وجہ مارنا درست نہیں، البتہ موذی جانور، جیسے سانپ اور بچھو وغیرہ کو ہر حال میں مار دینا چاہیے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 18
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4363
´چیونٹیوں کو مارنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے ایک نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دینے کا حکم دیا اور وہ جلا دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی: اگر تمہیں کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو (ایک ہی کو مارتے مگر) تم نے ایک ایسی امت (مخلوق) کو مار ڈالا جو (ہماری) تسبیح (پاکی بیان) کر رہی تھی“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4363]
اردو حاشہ: (1) چیونٹی کے متعلق حکم شریعت یہ ہے کہ اگر وہ تکلیف پہنچائے تو اسے مارا جا سکتا ہے۔ ہر تکلیف دینے والی مخلوق کو قتل کیا جا سکتا ہے، البتہ اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ صرف اسے قتل کیا جائے جس نے تکلیف پہنچائی ہو۔ مذکورہ حدیث میں ایک نبی کا قصہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سابقہ شریعتوں میں سے کسی شریعت کی کوئی بات بتائیں تو وہ ہمارے لیے بھی شریعت ہی ہوتی ہے۔ ہاں، اگر ہماری شریعت میں اس کے منافی حکم آجائے تو پھر سابقہ شریعت کی بات ہمارے لیے حجت نہیں ہوگی۔ (2) معلوم ہوا حیوان بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے تو اس حد تک تصریح فرمائی ہے کہ ساتویں آسمان وزمین اور جو مخلوق ان (آسمانوں اور زمین) میں ہے، وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ مطلب بالکل واضح ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد سمیت اس کی تسبیح کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾(بنی اسرائیل: 17: 44) اور یہ حقیقت ہے کہ ہر مخلوق ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ بعض لوگوں نے حیوانات وغیرہ کی تسبیح کو مجازی معنیٰ پر محمول کرنے کی کوشش کی ہے، یہ قطعاً درست نہیں۔ (3) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرامؓ کو بھی عام انسانوں کی طرح درد اور موذی چیزوں کے کاٹنے سے تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ذوی العقول، یعنی صاحب شعور مخلوق ہی سے ظلم کا بدلا نہیں لیا جائے گا بلکہ غیر ذوی العقول، سے بھی اس کے ظلم وزیادتی کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم (5) شاید آگ سے جلانا ان کی شریعت میں جائز ہوگا، ہماری شریعت میں منع ہے۔ (6) چیونٹی کے قتل سے نہی اس کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4363
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5266
´چیونٹی مارنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کی پوری بستی کو جلا ڈالنے کا حکم دے دیا، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انہیں تنبیہ فرمائی کہ ایک چیونٹی کے تجھے کاٹ لینے کے بدلے میں تو نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والی پوری ایک جماعت کو ہلاک کر ڈالا۔“[سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5266]
فوائد ومسائل: 1: چیونٹیوں کو اللہ کی تسبیح کرنے والی امت کہا گیا ہے، ویسے اللہ کی سب مخلوق اس کی تسبیح کرتی ہے، مگر ان کا تسبیح کرنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اللہ تعالی فرماتا: (وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا)(بنی اسرائیل:44) 2: کاٹنے والی چیونٹی کو اگر انسان بطور سزا مارڈالے تو کچھ اجازت ہے ورنہ عمومی طور پر اجازت نہیں ہے۔
3: جب ایک چیونٹی کو بلا وجہ قتل کرنا ناجائز ہے تو کسی صاحب ایمان آدمی کا قتل کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔
4: جب چیونٹیاں کسی گھرمیں بہت زیادہ ہو جائیں اور اذیت کا باعث ہوں تو کسی دوا وغیرہ سے ہلاک کرنا جائز ہے۔
5: حدیث میں مذکور جس کسی نبی کا ذکر آیا ہے، وہ غالبا اس مسئلے سے آگاہ نہیں تھے، اس لئے انہوں نے یہ کام کیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5266
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3225
´جن جانوروں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا، تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر جلا دینے کا حکم دیا، تو وہ جلا دیئے گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی نازل کی کہ آپ نے ایک چیونٹی کے کاٹنے کی وجہ سے امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق) کو تباہ کر دیا، جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی تھی“؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3225]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حشرات کو قتل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے البتہ جن سے انسانوں کوزیادہ نقصان پہنچتا ہے اور بظاہر کوئی فائدہ نہیں پہنچتا انہیں قتل کرنا جائز ہے جیسے چوہا وغیرہ۔
(2) اللہ کی ہر مخلوق اللہ کی تسبیح اورعبادت کرتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3225
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5850
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک درخت کے نیچے انبیاء میں سے کوئی نبی اترا تو اسے ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، سو اس نے اپنے سامان کو اس کے نیچے سے نکال لینے کا حکم دیا۔ پھر اس کو جلانے کا حکم دیا تو اسے جلا دیا گیا، اس پر اللہ نے اس کی طرف وحی کی، ایک ہی چیونٹی کو سزا کیوں نہیں دی؟“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5850]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ نبی حضرت عزیر یا حضرت موسیٰ علیہما السلام تھے، ان کی شریعت کی رو سے جاندار کو جلانا جائز ہو گا، اس لیے جلانے پر اعتراض نہیں ہوا، اعتراض اس پر ہوا کہ کاٹا تو ایک چیونٹی نے تھا، باقی چیونٹیوں کو کیوں جلایا گیا، چیونٹی کا گھر سامان کے نیچے ہو گا، اس لیے بعض چیونٹیاں سامان پر پھر گھوم رہی ہوں گی، اس لیے اپنے سامان کی حفاظت کی، اس کو الگ کیا، پھر ان کا گھر جلایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5850
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5851
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمام بن منبہ کو سنائی ہوئی حدیثوں میں سے ایک یہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیا تو اسے ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے اپنے سامان کو اس کے نیچے سے نکالنے کا حکم دیا اور اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے آگ میں جلا دیا گیا، سو اللہ نے اس کی طرف وحی کی، ایک ہی چیونٹی کو کیوں قتل نہ کروایا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5851]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: سنن ابی داؤد میں ایک روایت ہے کہ آپ نے شہد کی مکھی، چیونٹی، ہد ہد اور صراد (لٹویا) جس کا سر موٹا، پیٹ سفید اور پشت سبز ہوتی ہے، چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے کو مارنے سے منع فرمایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5851
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3319
3319. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سابقہ انبیاء ؑ میں سے کسی نبی نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیا تو انھیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ انھوں نے اپنے سامان کے متعلق حکم دیا کہ اسے درخت کے نیچے سے نکال لیاجائے۔ پھر چیونٹیوں کے جتھے کے متعلق حکم دیا کہ اسے آگ سے جلادیا جائے، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں وحی آئی کہ آپ نے صرف ایک ہی چیونٹی کو کیوں نہ جلایا؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3319]
حدیث حاشیہ: غلط ترجمہ کا ایک نمونہ: بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل ہمارے معزز علماءکرام بخاری شریف کے تراجم کئی عدد نکال رہے ہیں۔ مگر ان کے تراجم اور تشریحات میں لفظی اور معنوی بہت سی غلطیاں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جگہ حدیث کا مفہوم کچھ ہوتا ہے اور یہ حضرات اس کے برعکس ترجمہ کرجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہاں بھی موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ فأمر بجهازہ فأخرج من تحتها کا ترجمہ تفہیم البخاری (دیوبندی) میں یوں کیاگیا ہے: ”تو انہوں نے اس کے چھتے کو درخت کے نیچے سے نکالنے کا حکم دیا۔ وہ نکالا گیا۔ “ یہ ترجمہ بالکل غلط ہے، صحیح وہ ہے جو ہم نے کیا ہے، جیسا کہ اہل علم پر روشن ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3319
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3319
3319. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سابقہ انبیاء ؑ میں سے کسی نبی نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیا تو انھیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ انھوں نے اپنے سامان کے متعلق حکم دیا کہ اسے درخت کے نیچے سے نکال لیاجائے۔ پھر چیونٹیوں کے جتھے کے متعلق حکم دیا کہ اسے آگ سے جلادیا جائے، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں وحی آئی کہ آپ نے صرف ایک ہی چیونٹی کو کیوں نہ جلایا؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3319]
حدیث حاشیہ: 1۔ سابقہ شریعتوں میں چیونٹی کو قتل کرنا اور اسے آگ سے جلانا جائز تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آپ نے صرف ایک ہی چیونٹی کو کیوں نہ جلایا؟“ یعنی صرف اسی کو عذاب دینا تھا جس نے تکلیف پہنچائی تھی، لیکن ہماری شریعت میں جانداروں کو آگ سے جلانا جائز نہیں۔ اگرچہ موذی جانور کو مارنا جائزہے لیکن آگ سے جلانے کی ممانعت ہے۔ 2۔ چیونٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر وہ تھوڑی سی چیز بھی دیکھ لے تو دوسری چیونٹیوں کو بلا لاتی ہے اور اسے کھینچ کر اپنے بل میں لے جاتی ہے اور گرمیوں میں سردیوں کی خوراک جمع کرلیتی ہے اور جب اسے معلوم ہو کہ دانا وغیرہ بدبودار ہوجائے گا تو اس کو باہر نکال پھینکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3319