الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3135
3135. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کوئی چھوٹا لشکر بھیجتے تو بعض خاص آدمیوں کو عام لشکریوں کے حصے سے زیادہ حصہ دیاکرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3135]
حدیث حاشیہ:
1۔
شرعی اصطلاح میں "نفل" اس عطیے کو کہتے ہیں جو امام ایسے شخص کو دیتا ہے جس نے جنگ میں کوئی کارنامہ دکھایا ہو۔
2۔
پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ غنیمت کے مال سے حصے کے علاوہ نفل دینا جائز ہے کیونکہ اس میں صراحت ہے کہ مجاہدین کو مال غنیمت کے حصے کے علاوہ مزید ایک ایک اونٹ بطور انعام دیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس تقسیم پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
3۔
دوسری حدیث کے مطابق کچھ مجاہدین کو ان کی اچھی کار کردگی کی بنا پر دوسروں سے زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
البتہ یہ اضافی حصہ خمس سے دیا جائے گا۔
(عمدة القاري: 404/10)
4۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ امام مال خمس کو اپنی صوابدید کے مطابق تقسیم کرنے کا مجاز ہے۔
وہ کسی کو نمایاں خدمات کی وجہ سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3135