الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6669
´اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ نَاسِيًا وَهُوَ صَائِمٌ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے روزہ رکھا ہو اور بھول کر کھا لیا ہو تو اسے اپنا روزہ پورا کر لینا چاہئے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے۔“ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6669]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6669 کا باب: «بَابُ إِذَا حَنِثَ نَاسِيًا فِي الأَيْمَانِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں بھولے سے قسم کے توڑنے پر کفارے کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ اس پر کفارہ لازم ہو گا کہ نہیں جبکہ تحت الباب سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی، اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واضح فرمایا کہ حج کے کاموں میں بھول چوک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کے کفارے کا کوئی حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی فدیہ کا، تو اسی مسئلے پر قیاس کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ یہ مسئلہ اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ اگر قسم بھول چوک کی وجہ سے توڑ ڈالے تو اس پر کفارہ نہ ہو گا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے باب اور حدیث کی مناسبت پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب گیارہ احادیث ذکر فرمائی ہیں، کسی نہ کسی طریقے سے ہر حدیث کا ترجمۃ الباب سے خفی یا جلی طور پر ربط موجود ہے، چنانچہ ان تمام احادیث پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«قال المهلب: حاول البخاري فى إثبات العزر بالجهل و النسيان يسقط الكفارة، و الذى يلائم مقصوده من أحاديث الباب الأول و حديث ”من أكل ناسيًا“ و حديث نسيان تشهد الأول و قصة موسى فان الخضر . . . . . و أما بقية أحاديث ففي مساعدتها على مراده نظر قلت: قد يساعده أيضا حديث عبدالله بن عمرو و حديث ابن عباس فى تقديم بعض النسك على بعض فانه لم يأمر فيه بالاعادة بل عذر فاعله بجهل الحكم.» (2)
”امام بخاری رحمہ اللہ نے جہل و نسیان کے ساتھ اثبات عزر کی کوشش فرمائی ہے، تاکہ کفارہ ساقط ہو، احادیث باب میں سے ان کے اس مقصود کے مناسبت پہلی اور یہ حدیث ہے: «من أكل ناسيًا»، اسی طرح تشہد اول بھول جانے کی ذکر والی حدیث اور قصہ حضرت موسی علیہ السلام والی روایت ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں نسیان کی وجہ سے معذور سمجھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باہم مختلف احادیث اس کے تحت نقل فرمائی ہیں، تاکہ فریقین کی ادلہ کے اصول کی طرف اشارہ کریں، سیدنا ابن عمرو اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کی بعض نسک کی بعض پر تقدیم کے بارے میں بھی مساعد ہیں، کیوں کہ آپ نے اعادہ کاحکم نہیں دیا تھا، بلکہ حکم سے نابلد ہونے کی وجہ سے فاعل کو معذور باور کیا۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام مہلب رحمہ اللہ کے اقتباسات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث اور سیدنا ابن عباسی رضی اللہ عنہما کی حدیث میں سائل کو بھول کی وجہ سے معذور قرار دیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھولے میں قسم توڑ ڈالے تو اس پر کفارہ نہ ہو گا۔
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمہ میں کسی قسم کا کوئی حکم مراد نہیں واضح کیا، بلکہ مراد حکم ان اصول کا افادہ کیا ہے، جن پر قیاس کرنا درست اور ممکن ہو گا، یعنی قاری کو نظر و غور و تامل کا موقع ملے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«أورد الأحاديث المتجازبة ليفيد الناظر مظان النظر، ومن ثم لم يذكر الحكم فى الترجمة بل أفاد مراد الحكم والأصول التى تصلح أن يقاس عليها.» (1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلقا عدم کفارہ کے قائل ہیں، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«و الذى يظهر لي أن البخاري يقول بعدم الكفارة مطلقًا، و توجيه الدلالة من الأحاديث التى ساقها.» (2)
”میرے نزدیک یہ بات ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلقا عدم کفارہ کے قائل ہیں، نقل کردہ احادیث سے دلالت کی توجیہ ممکن ہے۔“
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جتنی بھی احادیث پیش فرمائی ہیں، ان سب کی تطبیق ترجمہ سے اس امر پر موقف ہے کہ چاہے وہ جہل ہو، نسیان ہو، اس عذر کے تحت کفارہ ساقط ہو گا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور تحت الباب احادیث میں مطابقت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 236