فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1473
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی سورج گرہن کی نماز کی ایک اور قسم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، اور تکبیر کہی، اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی لمبی قرآت کی، پھر «اللہ اکبر» کہا، اور ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، تو «سمع اللہ لمن حمده ربنا لك الحمد» کہا، پھر آپ کھڑے رہے، اور ایک لمبی قرآت کی مگر پہلی قرآت سے کم، پھر تکبیر کہی، اور ایک لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے چھوٹا، پھر آپ نے «سمع اللہ لمن حمده ربنا لك الحمد» کہا، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدے پورے کیے، آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہو گیا، پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کیا، تو اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی جو اس کے شایان شان تھی، پھر فرمایا: بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے، نہ کسی کے پیدا ہونے سے، جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھو، جب تک کہ وہ تم سے چھٹ نہ جائے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ میں ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا، میں نے چاہا کہ جنت کے پھلوں میں سے ایک گچھا توڑ لوں، جب تم نے مجھے دیکھا میں آگے بڑھا تھا، اور میں نے جہنم کو دیکھا، اس حال میں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو توڑ رہا تھا جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا، اور میں نے اس میں ابن لحی کو دیکھا ۱؎، یہی ہے جس نے سب سے پہلے سائبہ چھوڑا ۲؎۔“ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1473]
1473۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت میں نماز کسوف کے دوران جنت و جہنم اور دوسری پوشیدہ چیزیں دیکھنے کا بھی ذکر ہے۔ آپ کا یہ دیکھنا بیدار میں تھا۔ اور صرف آپ کے ساتھ خاص تھا، یعنی صحابہ کو وہ چیزیں نظر نہ آتی تھیں۔ اس قسم کے دیکھنے کو تصوف کی اصطلاح میں کشف کہا جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو یہ اکثر ہوتا تھا۔ کبھی کبھار غیر انبیاء کے ساتھ بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ معتبر روایت کی صورت میں ایسا واقعہ تسلیم کیا جائے گا۔ یہ ان کی کرامت اور اس کا شمار اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں ہو گا۔ اس صورت میں صاحب کشف کے علاوہ باقی لوگوں کو وہ چیزیں نظر نہیں آرہی ہوتیں، اس لیے انہیں تعجب ہوتا ہے، جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ کے آگے بڑھنے ا ور پیچھے ہٹنے پر تعجب ہوا۔ ان کے لیے آپ نے وضاحت فرمائی۔
➋ ”ہر چیز“ بعض شارحین نے اس میں اللہ تعالیٰ کو بھی داخل سمجھا ہے، مگر صراحت کے بغیر اتنی بڑی بات کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں ہے: (لن ترانی) (الاعراف7: 143) اور (لاتدرکہ الابصار) (الانعام6: 103) یعنی اللہ تعالیٰ کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہاں اگلے جہاں مومنین کواللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1473