فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1389
´جمعہ کے وقت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ (جمعہ میں شریک ہونے کے لیے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا، تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا، اور جو چوتھی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک انڈا پیش کیا، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آ جاتے ہیں، اور خطبہ سننے لگتے ہیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1389]
1389۔ اردو حاشیہ:
➊ ان ساعات یا اوقات سے مراد قبل از زوال کی وہ گھڑیاں ہیں جن کا آغاز سورج چڑھنے کے بعد ہوتا ہے جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ اور یہی موقف دلائل کی رو سے درست ہے۔ واللہ أعلم۔ جس کی تفصیل گزشتہ حدیث [1386] کے فوائد میں گزر چکی ہے۔
➋ باب کے عنوان سے لگتا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کا موقف ممکن ہے یہ ہو کہ نماز جمعہ کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ سمیت اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے اس مسئلے کا استنباط محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں پانچ گھڑیوں کا ذکر ہے، اور پانچویں کے اختتام اور چھٹی گھڑی کے آغاز میں خروج امام کا ذکر ہے اور یہ قبل از زوال کا وقت ہے، اس طرح یہ حدیث ان اہل علم کی دلیل بنتی ہے جو قبل از زوال بھی نماز جمعہ کے قائل ہیں۔ ہاں اگر ان پانچ گھڑیوں کا شمار دوسری گھڑی سے ہو اور پہلی گھڑی غسل اور جمعے کی تیاری کے لیے ہو، جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے توجیہ کی ہے تو پھر یہ حدیث قبل از زوال جمعہ کے موقف کے حاملین کی دلیل نہیں بنتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مذکورہ حدیث سے استدلال تب محل نظر ہو گا جب احادیث میں «بطۃ» بطخ اور «عصفور» ”چڑیا“ کا ذکر شاذ اور ضعیف تصور کیا جائے اور حق بھی یہی ہے کہ یہ دونوں اضافے ضعیف ہیں، لیکن اگر انہیں صحیح سمجھا جائے تو پھر مذکورہ اشکال وارد نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں کل چھ گھڑیاں بنتی ہیں جس سے خطیب کا نکلنا ساتویں گھڑی کے آغاز میں لازم ٹھہرتا ہے اور یہ وقت بعد از زوال کا ہوتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا یہ ذہن ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے مذکورہ اضافات والی روایات کے بعد یہ عنوان قائم کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1389