362- وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا تسال المراة طلاق اختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها.“362- وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ (اپنے لئے) خالی کرائے اور خود نکا ح کر لے، پس اسے وہی ملے گا جو اس کے لئے مقدر ہے۔“
इसी सनद के साथ (हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से) रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “कोई औरत अपनी बहन की तलाक़ की मांग न करे ताकि उस का प्याला (अपने लिए) ख़ाली कराए और ख़ुद निकाह करले, बस उसे वही मिले गा जो उस की तक़दीर में है।”
تخریج الحدیث: «362- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 900/2 ح 1731، ك 46 ب 2 ح 7) التمهيد 165/18، الاستذكار: 1663 وأخرجه البخاري (6601)، من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 6
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6601، من حديث مالك به] تفقه: ➊ کوئی عورت اپنے شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی دوسری بیوی یعنی اس عورت کی سوکن کو طلاق دے اور نہ عام عورت کسی دوسری عورت کو طلاق دلوا کر اپنا گھر آباد کرنے کے سپنے دیکھئے۔ ➋ تقدیر برحق ہے۔ ➌ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا» کہہ دو! ہمیں وہی پہنچتا ہے جو اللہ نے ہمارے لئے لکھا ہوتا ہے۔ [التوبه: 51] ➍ عورت کے ولی کے لئے یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے کہ نکاح کرنے والا شخص بعد میں دوسرا نکاح نہیں کرسکتا۔ ➎ اگر نکاح کے وقت دولہا سے یہ شرط منوالی جائے کہ وہ اس شادی کے بعد جو نکاح بھی کرے گا تو اس کی بیوی کو تین طلاق یا طلاقِ بائن ہے وغیرہ تو یہ شرط فاسد وباطل ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے اسی کو اختیار کرکے راجح قرار دیا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 18/166] بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ قسم کے حکم میں ہے لہٰذا اُسے قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ ➏ جس حدیث میں آیا ہے کہ نکاح کے وقت جو شرطیں مقرر کی جائیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے تو اس سے مراد جائز شرطیں ہیں۔ [التمهيد 18/168] معلوم ہوا کہ ہر وہ شرط جو کتاب و سنت کے مطابق ہے، اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ ➐ ابوالزناد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ یہ شرط مقرر کی تھی کہ میرا گھر اس کا ہو گا پھر وہ بعد میں اسے نکالنے لگا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ گھر اس عورت کا ہے، وہ اپنی بیوی کو اس گھر سے نہیں نکال سکتا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2٠٠/4 ح16448، وسنده صحيح] ➑ اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا انتہائی مذموم عمل ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 362
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2176
´عورت اپنے (ہونے والے) شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیدے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) اور خود نکاح کر لے، جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اسے ملے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2176]
فوائد ومسائل: یعنی کسی مسلمان بہن کو طلاق دلوانا بہت بری بات ہے بلکہ چاہیے کہ رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرے۔ اس کو طلاق دلوا کر یہ نہ اپنے لیے کچھ اضافہ کرسکتی ہے اور نہ اسکا کچھ نقصان کر سکتی ہے. لہذا اگر اسی مرد کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کرلے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2176
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6601
6601. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی عورت اپنی کسی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے پیالے کو بالکل خالی کر دے بلکہ چاہیئے وہ نکاح کرلے کیونکہ اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس کا مقدر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6601]
حدیث حاشیہ: یہ حکم اس وقت ہے جب کہ عدل و انصاف کے ساتھ ہر دو کے حق ادا کرسکے ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾(النساء: 3) اگر ہر دو بیویوں کے حقوق ادا نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6601
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5152
5152. سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی کسی بہن (سوکن) کی طلاق کی شرط لگائے تاکہ اس کا حصہ خود سمیٹ لے کیونکہ اسے تو وہ کچھ ملے گا جو اس کے مقدر میں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5152]
حدیث حاشیہ: دولہا کے زردی لگانا حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک مطلق منع ہے اور مالکیہ نے صرف کپڑے میں لگانا دولہا کے لئے جائز رکھا ہے نہ کہ بدن میں۔ ان کی دلیل ابو موسیٰ کی حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے بدن میں زرد خوشبوئیں ہوں۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ عبد الرحمن کی حدیث سے مرد کے لئے زردی لگانے کا جواز نہیں نکلتا کیونکہ عبدالرحمن نے زردی نہیں لگائی تھی بلکہ ان کی دولہن کی زردی ان کے بدن یا کپڑے سے لگ گئی ہوگی۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5152
5152. سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی کسی بہن (سوکن) کی طلاق کی شرط لگائے تاکہ اس کا حصہ خود سمیٹ لے کیونکہ اسے تو وہ کچھ ملے گا جو اس کے مقدر میں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5152]
حدیث حاشیہ: اس سے پہلے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ شرائط جنھیں پورا کرنا انتہائی ضروری ہے، وہ ہیں جن کی بدولت شرمگاہوں کو حلال کیا گیا ہے۔ اس عنوان میں کچھ استثنائی صورتیں بیان کی گئی ہیں، یعنی جن شرائط سے کسی دوسرے کے حقوق متأثر ہوتے ہوں انھیں پورا کرنا ضروری نہیں ہے، مثلاً: ٭ کوئی عورت اس شرط پر شادی کرتی ہے کہ خاوند اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے گا۔ اس شرط سے پہلی بیوی کے حقوق متأثر ہوتے ہیں، لہٰذا اس کا پورا کرنا ضروری نہیں۔ ٭کوئی عورت اس شرط پر شادی کرتی ہے کہ خاوند اس سے ہم بستری نہیں کرے گا۔ اس سے خاوند کا حق صحبت متأثر ہوتا ہے، لہٰذا اسے بھی پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔ ٭کوئی مرد اس شرط پر کسی عورت سے شادی کرتا ہے کہ وہ اسے اپنے پاس نہیں رکھے گا۔ اس شرط سے خود بیوی کا حق معاشرت متأثر ہوتا ہے، لہٰذا اسے پورا نہیں کیا جائے گا۔ ٭مرد اور عورت اس شرط پر شادی کریں کہ دونوں اپنے والدین سے بائیکاٹ کریں گے۔ اس شرط سے دونوں کے والدین کے حقوق متأثر ہوتے ہیں، لہٰذا اسے بھی پورا نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ایسی کسی بھی شرط کی خلاف ورزی پر عقد نکاح متأثر نہیں ہوگا۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6601
6601. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی عورت اپنی کسی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے پیالے کو بالکل خالی کر دے بلکہ چاہیئے وہ نکاح کرلے کیونکہ اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس کا مقدر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6601]
حدیث حاشیہ: (1) اگر کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ شرط نہ لگائے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے دے تاکہ یہ اس کی تنہا بیوی ہو اور مباشرت میں کوئی عورت اس کی شریک نہ ہو۔ انسانی پست ہمتی اور خود غرضی کی یہ بدترین مثال ہے کہ کوئی عورت دوسری عورت کی طلاق کا مطالبہ اس لیے کرے کہ اس کی اسلامی بہن کا حصہ بھی اسے مل جائے۔ اسلام اپنے نفع کی خاطر دوسرے کو نقصان پہنچانے کی اس بدترین صورت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس مشکل کام کو یہ کہہ کر آسان کر دیتا ہے کہ سرے سے لالچ کا یہ تصور ہی غلط ہے کہ کسی کے مقدر کا رزق دوسرے کو مل جائے۔ یہ ممکن ہی نہیں، تو پھر مفت میں خود غرضی پر مبنی اس غیر شرعی اور غیر اخلاقی مطالبے کی کیا ضرورت ہے۔ (2) بہرحال تقدیر کا مسئلہ بہت سی مشکلات کا حل ہے۔ زندگی کا کوئی بھی گوشہ جب انسان کے لیے مشکل بن رہا ہو تو تقدیر کا سبق اسے بڑی آسانی سے حل کر دیتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6601