83- وبه: عن ابى هريرة انه كان يقول: شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الاغنياء ويترك المساكين. ومن لم يات الدعوة فقد عصى الله ورسوله.83- وبه: عن أبى هريرة أنه كان يقول: شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الأغنياء ويترك المساكين. ومن لم يأت الدعوة فقد عصى الله ورسوله.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ (لوگوں کا) سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں امیروں کو دعوت دی جاتی ہے اور مسکینوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس نے (بغیر شرعی عذر کے) دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते थे कि सब से बुरा खाना उस वलीमे का खाना है जिस में अमीरों को दावत दी जाती है और ग़रीबों को छोड़ दिया जाता है और जिस ने (बिना शरई कारण के) दाअवत स्वीकार न की तो उस ने अल्लाह और उस के रसूल की आज्ञा का पालन नहीं किया।
تخریج الحدیث: «83- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 546/2 ح 1187، ك 28 ب 21 ح 50) التمهيد 175/10، الاستذكار: 1107، و أخرجه البخاري (5177) ومسلم (1432/107) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 365
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5177، ومسلم 107/1432، من حديث مالك به]
تفقه ➊ اگر ولیمے میں منکرات اور لہو و لعب نہ ہو تو صحیح العقیدہ بھائی کے ولیمے کی دعوت قبول کرنا واجب یعنی فرض ہے۔ ➋ اگر شرعی عذر ہو تو دعوت سے معذرت کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيُجِبْ فَاِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ وَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا فَلْيَطْعَمْ»”جب تم میں سے کسی کو (کھانے کی) دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے پھر اگر وہ روزے سے ہے تو دعا کر دے اور اگر روزے سے نہیں ہے تو کھانا کھا لے۔“[صحيح مسلم: 1431/3520] ایک روایت میں ہے کہ اگر تمہیں تمہارا بھائی دعوت دے تو قبول کرو چاہے شادی ہو یا اس جیسی کوئی دوسری دعوت ہو۔ [صحيح مسلم 1429 [3513] ] ➌ سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مہمان بنا تو انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔ تو انہوں نے آپ کو دعوت دی، آپ تشریف لائے اور اپنا ہاتھ دروازے کی چوکھٹ پر رکھا تو گھر کے ایک کونے میں پردہ لٹکا ہوا دیکھا پھر آپ (بغیر کھانا کھائے) واپس چلے گئے۔ سیدہ فاطمہ نے علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جائیں دیکھیں آپ کیوں واپس جا رہے ہیں؟ (علی رضی اللہ عنہ نے کہا) میں گیا اور پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیوں واپس گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے یا کسی نبی کے واسطے یہ لائق نہیں کہ کسی ایسے گھر میں داخل ہو جہاں نقش و نگار ہو۔“
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 83
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5177
5177. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہا کرتے تھے، بد ترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس کے لیے دولت مند کو دعوت دی جاتی ہے اور فقراء کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور جس نے دعوت ترک کر دی (قبول نہ کی) اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5177]
حدیث حاشیہ: اس سے جائز دعوت کی قبولیت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسے ضرور قبو ل کرنا ہی چاہئے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں میں میل جول رکھنا نہیں چاہتا جو اسلام کا ایک بڑا رکن ہے۔ ہدیہ اور دعوت سے میل جول پیدا ہوتا ہے اوردین دنیا کی بھلائیاں باہمی میل جول اور اتفاق میں منحصر ہیں جن لوگوں نے تقویٰ اسے سمجھا کہ لوگوں سے دور رہا جائے اور کسی کی بھی دعوت نہ قبول کی جائے یہ تقویٰ نہیں ہے بلکہ خلاف سنت حرکت ہے۔ مگر بعض سادہ لوح حضرات اسی کو کمال تقویٰ سمجھتے ہیں اللہ ان کو نیک سمجھ بخشے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5177
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5177
5177. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہا کرتے تھے، بد ترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس کے لیے دولت مند کو دعوت دی جاتی ہے اور فقراء کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور جس نے دعوت ترک کر دی (قبول نہ کی) اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5177]
حدیث حاشیہ: (1) مطلق طور پر طعام ولیمہ برا نہیں بلکہ جب اس میں یہ وصف ہو کہ امیروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے تو ولیمے کا کھانا بدترین کھانا ہوگا، اس لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ جب کسی دعوت میں امیروں کو خاص طور پر مدعو کیا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے تو ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم ایسی دعوت قبول نہ کریں۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: تم دعوت میں نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہو کیونکہ ایسے لوگوں کو بلاتے ہو جو نہیں آنا چاہتے اور جو آنا چاہتے ہیں تم انھیں نظر انداز کردیتے ہو۔ (فتح الباري: 305/9) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: وہ دعوت ولیمہ انتہائی بری ہے جس میں ان لوگوں کو بلایا جائے جن کے پیٹ بھرے ہوں اور بھوکوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 123/12، رقم: 12754)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمے کی دعوت ضرور قبول کرنی چاہیے کیونکہ عصیان کا اطلاق کسی واجب اور ضروری حکم کو چھوڑنے پر ہوتا ہے۔ (عمدة القاري: 134/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5177