سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
68. باب مَا جَاءَ فِي قَضَاءِ الْحَائِضِ الصِّيَامَ دُونَ الصَّلاَةِ
68. باب: حائضہ عورت روزہ کی قضاء کرے گی نماز کی نہیں۔
Chapter: What Has Been Related About The Woman Who Menstruated Makes Up The Fasts But Not The Salat
حدیث نمبر: 787
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا علي بن مسهر، عن عبيدة، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: كنا نحيض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم نطهر " فيامرنا بقضاء الصيام ولا يامرنا بقضاء الصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روي عن معاذة، عن عائشة ايضا، والعمل على هذا عند اهل العلم لا نعلم بينهم اختلافا، إن الحائض تقضي الصيام ولا تقضي الصلاة. قال ابو عيسى: وعبيدة هو ابن معتب الضبي الكوفي يكنى ابا عبد الكريم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ " فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا، إِنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصِّيَامَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعُبَيْدَةُ هُوَ ابْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ الْكُوفِيُّ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہو جاتے تو آپ ہمیں روزے قضاء کرنے کا حکم دیتے اور نماز قضاء کرنے کا حکم نہیں دیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- یہ معاذہ سے بھی مروی ہے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے،
۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، ہم ان کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ حائضہ عورت روزے کی قضاء کرے گی، نماز کی نہیں کرے گی۔

وضاحت:
۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضاء اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی قضاء ہے کیونکہ یہ پورے سال میں صرف ایک بار کی بات ہوتی ہے اس کے برخلاف نماز حیض کی وجہ سے ہر مہینے چھ یا سات دن کی نماز چھوڑنی پڑتی ہے، اور کبھی کبھی دس دس دن کی نماز چھوڑنی پڑ جاتی ہے، اس طرح سال کے تقریباً چار مہینے نماز کی قضاء کرنی پڑے گی جو انتہائی دشوار امر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 13 (1670)، سنن الدارمی/الطہارة 101 (1019)، (تحفة الأشراف: 15974) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحیض 15 (335)، سنن ابی داود/ الطہارة 105 (263)، سنن النسائی/الصیام 64 (2320)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 119 (631)، مسند احمد (6/23، 231- 232)، سنن الدارمی/الطہارة 101 (1020) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (631)

   صحيح البخاري321عائشة بنت عبد اللهنحيض مع النبي فلا يأمرنا به
   صحيح مسلم763عائشة بنت عبد اللهيصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم لا نؤمر بقضاء الصلاة
   صحيح مسلم762عائشة بنت عبد اللهنساء رسول الله يحضن أفأمرهن أن يجزين
   صحيح مسلم761عائشة بنت عبد اللهتحيض على عهد رسول الله ثم لا تؤمر بقضاء
   جامع الترمذي787عائشة بنت عبد اللهيأمرنا بقضاء الصيام لا يأمرنا بقضاء الصلاة
   سنن أبي داود262عائشة بنت عبد اللهنحيض عند رسول الله فلا نقضي ولا نؤمر بالقضاء
   سنن النسائى الصغرى2320عائشة بنت عبد اللهيأمرنا بقضاء الصوم لا يأمرنا بقضاء الصلاة
   سنن النسائى الصغرى382عائشة بنت عبد اللهنحيض عند رسول الله فلا نقضي ولا نؤمر بقضاء
   سنن ابن ماجه631عائشة بنت عبد اللهنحيض عند النبي ثم نطهر ولم يأمرنا بقضاء الصلاة
   سنن ابن ماجه1670عائشة بنت عبد اللهيأمرنا بقضاء الصوم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 787 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی 787  
رمضان کے روزوں کی قضا اور تسلسل
تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
سوال: ایک خاتون کے ذمے رمضان کے کچھ روزے تھے، وہ اگلے مہینے یہ گنتی پوری کرنے لگی۔ وہ روزہ رکھ کر رشتہ داروں کے گھر گئی تو انھوں نے اس سے روزہ تڑوا دیا، اس خاتون نے لاعلمی کی بنیاد پر (اس کے ذمے جو فرض روزہ تھا) توڑ دیا۔ اب اس کے لئے کیا حکم ہے نیز یہ مسلسل رکھنے پڑیں گے؟
الجواب:
راجح تحقیق میں، شرعی عذر سے رمضان کے قضاء شدہ روزوں کے لئے تسلسل اور ترتیب ضروری نہیں ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إن شئت فاقض رمضان متتابعًا وإن شئت متفرقًا
(مصنف ابن ابی شیبہ، مرقمہ نسخہ ج 1 ص 293 ح 9115، دوسرا نسخہ ج 3 ص 32 وسندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ج 4 ص 258)
یعنی اگر تُو چاہے تو رمضان کی قضاء مسلسل اور ترتیب سے رکھ اور اگر چاہے تو بغیر تسلسل و بغیر ترتیب کے رکھ۔
اس کی سند صحیح ہے۔
سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
احص العدۃ وصم کیف شئت
تعداد کا شمار کرلو اور جس طرح چاہو روزے رکھو۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ح 9133، سنن دارقطنی ج 2 ص 192 ح 2295، السنن الکبریٰ للبیہقی ج 4 ص 258)
اس کی سند حسن ہے۔
اس مفہوم کے اقوال معاذ بن جبل، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ اور جمہور صحابہ سے مروی ہیں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
قرآن مجید کا عموم بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ تاہم اگر تسلسل سے روزے رکھے تو یہ بہتر ہے مگر ضروری نہیں ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ اس عورت کا ایک فرض، قضاء روزہ لاعلمی کی بنیاد پر ٹوٹ گیا تو وہ دوبارہ یہی قضاء روزہ دوسرے کسی دن رکھے گی۔ اس کے لئے اس قضاء روزے کا کوئی کفار ہ نہیں ہے۔ واللہ اعلم
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 139 اور 140)
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 139   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 787  
اردو حاشہ:
1؎:
اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضا اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی قضا ہے کیونکہ یہ پورے سال میں صرف ایک بار کی بات ہوتی ہے اس کے بر خلاف نماز حیض کی وجہ سے ہر مہینے چھ یا سات دن کی نماز چھوڑنی پڑتی ہے،
اور کبھی کبھی دس دس دن کی نماز چھوڑنی پڑ جاتی ہے،
اس طرح سال کے تقریباً چار مہینے نماز کی قضاء کرنی پڑے گی جو انتہائی دشوار امر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 787   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 321  
´حائضہ عورت نماز قضاء نہ کرے`
«. . . حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: " أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ " . . . .»
. . . ہم سے قتادہ نے، کہا مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ (حیض سے) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ لاَ تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلاَةَ:: 321]
تشریح:
شیخنا المکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: «الحروري منسوب الي حرورابفتح وضم الراءالمهملتين وبعدالواو الساكنة راءايضاً بلدة على ميلين من الكوفة و يقال من يعتقد مذهب الخوارج حروري لان اول فرقة منهم خرجواعلي على بالبلدة المذكورة فاشتهروا بالنسبة اليها وهم فرق كثيرة لكن من اصولهم المتفق عليها بينهم الاخذ بما دل عليه القرآن وردما زاد عليه من الحديث مطلقا .» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 123]
یعنی حروری حرورا گاؤں کی طرف نسبت ہے جو کوفہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھا۔ یہاں پر سب سے پہلے وہ فرقہ پیدا ہوا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔ یہ خارجی کہلائے، جن کے کئی فرقے ہیں مگر یہ اصول ان سب میں متفق ہے کہ صرف قرآن کو لیا جائے اور حدیث کو مطلقاً رد کر دیا جائے گا۔

چونکہ حائضہ پر فرض نماز کا معاف ہو جانا صرف حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے مخاطب کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم حروری تو نہیں جو اس مسئلہ کے متعلق تم کو تامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 321   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 321  
321. حضرت معاذہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے عرض کیا: جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو کیا وہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ادا کرے؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: کیا تو حروریہ (خارجی) ہے؟ ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں حیض آتا تھا اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے یا فرمایا: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:321]
حدیث حاشیہ:
شیخنا المکرم حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں:
''الْحَرُورِيُّ مَنْسُوبٌ إِلَى حَرُورَا بِفَتْحِ الْحَاءِ وَضَمِّ الرَّاءِ الْمُهْمَلَتَيْنِ وَبَعْدَ الْوَاوِ السَّاكِنَةِ رَاءٌ أَيْضًا بَلْدَةٌ عَلَى مِيلَيْنِ مِنَ الْكُوفَةِ وَيُقَالُ لِمَنْ يَعْتَقِدُ مَذْهَبَ الْخَوَارِجِ حَرُورِيٌّ لِأَنَّ أَوَّلَ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ خَرَجُوا عَلَى عَلِيٍّ بِالْبَلْدَةِ الْمَذْكُورَةِ فَاشْتُهِرُوا بِالنِّسْبَةِ إِلَيْهَا وَهُمْ فِرَقٌ كَثِيرَةٌ لَكِنْ مِنْ أُصُولِهِمِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهَا بَيْنَهُمِ الْأَخْذُ بِمَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ وَرَدُّ مَا زَادَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَدِيثِ مُطْلَقًا۔
'' (تحفة الأحوذي،ج1، ص: 123)
یعنی حروری حرورا گاؤں کی طرف نسبت ہے جو کوفہ سے دومیل کے فاصلہ پر تھا۔
یہاں پر سب سے پہلے وہ فرقہ پیداہوا جس نے حضرت علی ؓ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔
یہ خارجی کہلائے، جن کے کئی فرقے ہیں، مگریہ اصول ان سب میں متفق ہے کہ صرف قرآن کو لیا جائے اور حدیث کو مطلقاً رد کردیا جائے گا۔
چونکہ حائضہ پر فرض نماز کا معاف ہوجانا صرف حدیث سے ثابت ہے۔
قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
اس لیے مخاطب کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ کیاتم حروری تو نہیں جو اس مسئلہ کے متعلق تم کو تامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 321   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 321  
´حائضہ عورت دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں دے`
«. . . حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: " أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ " . . . .»
. . . مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ (حیض سے) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ لاَ تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلاَةَ: 321]
تخريج الحديث:
[192۔ البخاري فى: 6 كتاب الحيض: 20 باب لا تقضي الحائض الصلاة 321، مسلم 335، ابن ماجه 631]
لغوی توضیح:
«اَحَرُوْرِيَّة» کیا حروریہ ہو۔ یہ حروراء کی طرف نسبت ہے، یہ وہ بستی ہے جہاں خوارج ابتدائی طور پر اکٹھے ہوئے تھے، تو اس جملے سے مراد یہ ہوئی کہ کیا تم خارجی ہو؟ کیونکہ خوارج کا ایک گروہ حائضہ عورت پر دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازیں بھی فرض قرار دیتا تھا جو کہ اجماع کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہے کہ حائضہ عورت دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں دے گی بلکہ صرف روزوں کی قضا دے گی، جیسا کہ امام نووی، امام شوکانی اور امام ابن منذر رحمہم اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ [المجموع 351/2، السيل الجرار 148/1، الإجماع لابن المنذر ص: 37]
اور یہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ [صحيح: صحيح أبوداود 236، أبوداود 263، بخاري 321، مسلم 335، ترمذي 130]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 192   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 262  
´حائضہ عورت نماز قضاء نہ کرے۔`
معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ تو اس پر آپ نے کہا: کیا تو حروریہ ہے ۱؎؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہم نماز کی قضاء نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 262]
262۔ اردو حاشیہ:
خوارج کو حروراء مقام کی طرف نسبت کرتے ہوئے حروری بھی کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کے بعد سب سے پہلا اجتماع مقام حروراء میں کیا تھا جو کوفہ کے قریب تھا۔ وہ حائضہ کے لیے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنے کے قائل بھی تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو کچھ قرآن سے ثابت ہو وہی قابل عمل ہے اور جو امور زائدہ احادیث میں آئے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور مرتکب کبیرہ کافر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 262   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 382  
´حائضہ سے نماز ساقط ہونے کا بیان۔`
معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا حائضہ اپنی نماز قضاء کرے گی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ (خارجیہ) ہے؟ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حائضہ ہوتی تھیں، تو نہ ہم قضاء کرتے اور نہ ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 382]
382۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت کو خارجی اس لیے کہا کہ خوارج کے نزدیک حیض کے دنوں کی نماز کی قضا ادا کرنا ضروری ہے۔
➋ عورت کو حیض کے دنوں کی نماز کی قضا ادا کرنا اس لیے معاف ہے کہ ہر ماہ تیس پینتیس نمازوں کی قضا کافی مشکل ہے جب کہ ساتھ ساتھ وقتی نمازوں کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔ بخلاف اس کے گیارہ مہینوں میں چھ سات روزوں کی ادائیگی آسان ہے جب کہ ساتھ وقتی روزے بھی نہیں، اس لیے حائضہ کو روزوں کی قضا ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ گویا اس مسئلے میں تنگی دور کرنے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 382   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2320  
´حائضہ کو روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ کا بیان۔`
معاذہ عدویہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا عورت جب حیض سے پاک ہو جائے تو نماز کی قضاء کرے؟ انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ ہے؟ ہم عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حیض سے ہوتی تھیں، پھر ہم پاک ہوتیں تو آپ ہمیں روزہ کی قضاء کا حکم دیتے تھے، اور نماز کی قضاء کے لیے نہیں کہتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2320]
اردو حاشہ:
(1) حیض کی حالت میں نماز اور روزے سے شرعاً روک دیا گیا ہے۔ نماز سے تو اس لیے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے، البتہ روزے سے روکنے کی کوئی خصوصی وجہ بیان نہیں کی گئی، مگر یہ مسئلہ متفق علیہ اور قطعی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔
(2) حیض ختم ہونے کے بعد فرض روزے کی قضا ادا کرنا بھی قطعی مسئلہ ہے اور متفق علیہ ہے، لہٰذا معافی سے مراد وقتی معافی ہے، البتہ نماز کی قضا نہیں، شاید اس لیے کہ مدت حیض کی تمام نمازوں کی ہر مہینے قضا ادا کرنا عورت کے لیے شدید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے جبکہ چند روزوں کی قضا ادا کرنا سارے سال کے دوران میں آسان ہے اور شریعت لوگوں کی آسانی کو مدنظر رکھتی ہے۔
(3) کیا تو خارجی عورت ہے؟ کیونکہ خوارج عورت پر حیض کے دنوں کی نمازوں کی قضا ادا کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔ خارجی فرقہ انتہائی متشدد اور دینی حکمتوں سے بے بہرہ افراد کا گروہ تھا، جو صحابہ کے دور میں ظاہر ہوا۔ یہ اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر دین اسلام کا پابند اور محافظ سمجھتا تھا حتیٰ کہ ان بے وقوف لوگوں کے ہاتھوں کئی صحابہ شہید ہوئے اور انہوں نے کثیر صحابہ پر (جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے) کفر کے فتوے لگائے۔ آخر کار امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے جنگ کرنی پڑی، تب ان کا زور ٹوٹا۔
(4) خارجیوں کو حروری اس لیے کہا جاتا تھا کہ ان کے فتنے کی ابتدا کوفے کے قریب ایک بستی حرورا ء سے ہوئی۔ مجازاً پورے فرقے کو حروری کہہ لیا جاتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2320   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث631  
´حائضہ عورت نماز کی قضاء نہ پڑھے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ان سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ (خارجیہ) ہے؟ ۱؎ ہمیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہو جاتے تھے، آپ ہمیں نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 631]
اردو حاشہ:
(1)
عورت حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔ (صحيح البخاري، الحيض، باب ترك الحائض الصوم، حديث: 304)
 اس مسئلہ پر بعض خوارج کے سوا تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
اس لیے حضرت عائشہ نے اس خاتون کے سوال پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے سوال تو خارجی کرتے ہیں۔

(2)
یہ اللہ کا عورتوں پر احسان ہے کہ اس نے ان ایام کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیا ورنہ ہر مہینے آٹھ دس دن کی مسلسل قضاء نمازیں ادا کرنا بہت مشکل ہوتا۔
اس کے برعکس روزے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں لہٰذا چھوٹے ہوئے آٹھ دس روزے سال کے گیارہ مہینوں میں کسی بھی وقت رکھ لینا مشکل نہیں۔

(3)
عبادات میں یہ اصول ہے کہ کوئی عمل اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک اس کا حکم نہ دیا جائے اس سے حضرت عائشہ نے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان نمازوں کی قضاء واجب ہوتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حکم فرماتے۔
اس کے برعکس معاملات میں جواز اور اباحت اصل ہے۔
جب تک کسی کام کی ممانعت کی دلیل نہ ہو وہ جائز ہی سمجھا جائے گا، اس اصول کو برات اصلية کہتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 631   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1670  
´رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا تو آپ ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1670]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حیض روزے کے منافی ہے۔
اس لئےان ایام میں روزہ رکھنا منع ہے۔

(2)
اگر روزہ رکھا ہوا ہو اور دن کے وقت حیض شروع ہوجائے تو روزہ ختم ہوجائے گا۔
وہ روزہ شمار نہیں ہوگا۔

(3)
حیض ونفاس کے عذر کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح بیماری یا سفر کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزے بعد میں رکھے جاتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1670   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 761  
حضرت معاذہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا کہ ہمیں حیض کے دنوں کی نماز قضائی دینی ہو گی؟ تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: کیا تو حروریہ سے تعلق رکھتی ہے؟ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے دور میں حیض آتا تھا، اس کے باوجود کسی کو قضاء کا حکم نہیں دیا گیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:761]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آئمہ دین کا احادیث کی روشنی میں اس بات پر اتفاق ہے کہ حیض والی عورت روزہ کی قضائی دے گی اور یہی حکم نفاس کا ہے لیکن نماز کی قضاء نہیں ہے صرف خوارج کا یہ نظریہ ہے کہ نماز کی بھی قضائی دے گی،
اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس عورت سے کہا کیا تو حروریہ سے تعلق رکھتی ہے خارجیوں کا ظہور چونکہ حروراء نامی بستی سے ہوا تھا،
جو کوفہ سے دومیل کے فاصلہ پر واقع تھی۔
اس لیے خارجیوں کو حروری بھی کہتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 761   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 763  
معاذہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا، کہ کیا وجہ ہے حائضہ روزہ کی قضائی دیتی ہے اور نماز کی قضائی نہیں دیتی؟ تو انہوں نے پوچھا: کیا تو حروریہ سے ہے؟ میں نے کہا، میرا حروریہ سے تعلق نہیں ہے، میں تو صرف پوچھنا چاہتی ہوں۔ تو انہوں نے جواب دیا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزہ کی قضائی کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضائی کا نہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:763]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کسی مسئلہ کا حکم کیا ہے اس کا اصل دارومدار قرآن و سنت کی نصوص پر ہے اس کی حکمت اور مصلحت یا فلاسفی کیا ہے اس کا بتانا جاننا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب میں صرف یہ کہا کہ ہمیں روزہ کی قضا کا حکم ملا ہے نماز کی قضاء کا حکم نہیں آئمہ دین عام طور پر اس فرق کی وجہ یا علت یہ بیان کرتے ہیں نمازیں ہر روز پڑھتی ہوتی ہیں اس لیے ان کی قضا و حرج اور تنگی کا باعث ہے جبکہ روزے صرف ایک ماہ میں رکھنے ہوتے ہیں باقی گیارہ مہینے روزے فرض نہیں ہیں اس لیے ان کی قضائی کسی دن بھی دی جا سکتی ہے۔
اس لیے یہ مشقت یا کلفت کا باعث نہیں ہے اگرچہ اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ نماز اپنے پورے وقت کا استیعاب نہیں کرتی اس لیے ایک وقت میں کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور روزہ پورے دن کا رکھنا ہوتا ہے اس لیے ایک دن میں ایک سے زائد روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے نماز کے لیے طہارت ضروری ہے اور حیض و نفاس میں عورت پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتی اس لیے اس پر نماز فرض نہیں ہے تو قضائی کیسے فرض ہو سکتی ہے اور روزہ کے لیے طہارت شرط نہیں ہے اس لیے حائضہ روزہ فرض سے تخفیف و آسانی کے لیے اس پر ادا کی بجائے قضا لازم ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 763   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:321  
321. حضرت معاذہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے عرض کیا: جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو کیا وہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ادا کرے؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: کیا تو حروریہ (خارجی) ہے؟ ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں حیض آتا تھا اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے یا فرمایا: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:321]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؓ نے حائضہ کے لیے قضائے صلوات کے متعلق عدم واجب پر اجماع نقل کیا ہے صرف خوارج کے ایک گروہ کا موقف ہے کہ حائضہ کو فراغت کے بعد فوت شدہ نمازوں کی قضا دینا ضروری ہے غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی لیے سائلہ کو حروریہ کہا یہ ایک ایسے مقام کی طرف نسبت ہے جہاں خوارج حضرت علی ؓ کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے اور علم بغاوت بلند کیا تھا ان کے بے شمار فرقے ہیں، البتہ یہ عقیدہ سب میں مشترک ہے کہ جو مسئلہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے، اسی پر عمل کرنا ضروری ہے، ان کی نظر میں احادیث کی کوئی اہمیت نہیں۔
اس دور کے خوارج یعنی منکرین حدیث کا بھی یہی نظریہ ہے ان کے نزدیک احادیث "أسفارلهو الحدیث" اور عجمی سازش ہے، چونکہ حائضہ سے فرضیت نماز کا ساقط ہونا صرف حدیث سے ثابت ہے، قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی ہدایت نہیں، اس لیے وہ حائضہ کے لیے فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری قراردیتے ہیں۔
(فتح الباري: 546/1)

روایت میں حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرنے والی ایک گمنام عورت ہے، دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود حضرت معاذه بنت عبد اللہ العدویہ ہیں۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کے سوال کرنے پر اس نے عرض کیا کہ میں حرویہ نہیں ہوں بلکہ صرف مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 763 (335)
حضرت عائشہ ؓ نے حائضہ کے لیے عدم قضائے نماز کی دلیل تو پیش کردی، لیکن اس کی علت بیان نہیں فرمائی۔
علمائے امت نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ نماز کا وجوب یا بار بار اور زیادہ ہے، اتنی زیادہ نمازوں کی قضا میں کافی تنگی اور دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ روزے میں ایسا نہیں ہے، وہ سال میں ایک مرتبہ آتے ہیں۔
(فتح الباري: 547/1)
امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کی تعلیمات کا بالمعنی ذکر کیا ہے، کیونکہ حدیث جابر کے الفاظ یہ ہیں کہ حائضہ طواف نہیں کرے گی اور نہ نماز ہی پڑھے گی۔
(صحیح البخاري، التمینی حدیث 7230)
اور حدیث ابوسعید خدری ؓ کے الفاظ یہ ہیں کہ عورت کو جب حیض آتا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزے ہی رکھتی ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 304)
یہاں ایک اشکال ہے کہ عنوان تو عدم قضا سے متعلق ہے، لیکن تعلیقات سے عدم ایقاع ثابت ہوتا ہے، لہٰذا عنوان اور تعلیقات میں تقریب نام نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عنوان کے دو جز ہیں۔
حائضہ نماز چھوڑے۔
اسے بطور قضا نپ پڑھے پہلے جز کے اثبات کے لیے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کی تعلیقات کو پیش کیا ہے کہ حائضہ نماز چھوڑدے اور دوسرا جز کہ وہ طہارت کے بعد قضا بھی نہ کرے، اسے حدیث عائشہ ؓ سے ثابت کیا ہے۔
علامہ اسماعیلی ؒ نے اس روایت کو بایں الفاظ نقل کیا ہے۔
ہم ان نمازوں کی قضا نہیں دیتی تھیں اور نہ ہمیں اس کے متعلق کہا ہی جاتا تھا۔
گویا امام بخاری ؒ نے تعلیقات کو موصول حدیث کے لیے ایک مقدمے کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
(فتح الباري: 546/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 321   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.