سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
62. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْوِصَالِ لِلصَّائِمِ
62. باب: افطار کیے بغیر مسلسل روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Al-Wisal (Continuous) Fasting Is Disliked
حدیث نمبر: 778
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا بشر بن المفضل، وخالد بن الحارث، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تواصلوا "، قالوا: فإنك تواصل يا رسول الله، قال: " إني لست كاحدكم، إن ربي يطعمني ويسقيني ". قال: وفي الباب عن علي، وابي هريرة، وعائشة، وابن عمر، وجابر، وابي سعيد، وبشير ابن الخصاصية. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا الوصال في الصيام، وروي عن عبد الله بن الزبير انه كان يواصل الايام ولا يفطر.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُوَاصِلُوا "، قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ، إِنَّ رَبِّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا الْوِصَالَ فِي الصِّيَامِ، وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ كَانَ يُوَاصِلُ الْأَيَّامَ وَلَا يُفْطِرُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صوم وصال ۱؎ مت رکھو، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو رکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابوہریرہ، عائشہ، ابن عمر، جابر، ابو سعید خدری، اور بشیر بن خصاصیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ بغیر افطار کیے لگاتار روزے رکھنے کو مکروہ کہتے ہیں،
۴- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ وہ کئی دنوں کو ملا لیتے تھے (درمیان میں) افطار نہیں کرتے تھے۔

وضاحت:
۱؎: صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دو یا دو سے زیادہ دن تک افطار نہ کرے، مسلسل روزے رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اور نہ سحری ہی کے وقت، صوم وصال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائز نہیں۔
۲؎: میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے، اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مراد لیا ہے، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے معارف کی ایسی غذا کھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے، اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اور اللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے، یہ ہے وہ غذا جو آپ کو اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے، یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذا سے کئی کئی دنوں تک کے لیے بے نیاز کر دیتی تھی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1215) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري7241أنس بن مالكإني لست مثلكم إني أظل يطعمني ربي ويسقين
   صحيح البخاري1961أنس بن مالكلا تواصلوا لست كأحد منكم إني أطعم وأسقى أو إني أبيت أطعم وأسقى
   صحيح مسلم2571أنس بن مالكإني لست مثلكم إني أظل يطعمني ربي ويسقيني
   صحيح مسلم2570أنس بن مالكإنكم لستم مثلي أما والله لو تماد لي الشهر لواصلت وصالا يدع المتعمقون تعمقهم
   جامع الترمذي778أنس بن مالكإني لست كأحدكم إن ربي يطعمني ويسقيني
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 778 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 778  
اردو حاشہ:
1؎:
صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دو یا دو سے زیادہ دن تک افطار نہ کرے،
مسلسل روزے رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اور نہ سحری ہی کے وقت،
صوم وصال نبی اکرم ﷺ کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائز نہیں۔

2؎:
میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے،
اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مراد لیا ہے،
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے معارف کی ایسی غذا کھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے،
اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اور اللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے،
یہ ہے وہ غذا جو آپ کو اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے،
یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذا سے کئی کئی دنوں تک کے لیے بے نیاز کر دیتی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 778   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2571  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے شروع میں وصال کیا تو کچھ مسلمانوں نے بھی وصال کرنا شروع کر دیا۔ آپﷺ تک بھی اطلاع پہنچ گئی۔ تو آپﷺ نے فرمایا: اگر ہمارا ماہ طویل کر دیا جاتا تو ہم اس اندازسے وصال کرتے کہ انتہا پسند اپنی انتہا پسندی سے رک جائے، تم میرے جیسے نہیں ہو، یا فرمایا: میں تمھارے مثل نہیں ہوں کیونکہ میں دن اس حال میں گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2571]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
التَعَمِّقُ:
عمق و گہرائی میں اترنا،
معاملہ میں مبالغہ،
شدت اور انتہا پسندی اختیار کرنا۔
حد سے تجاوز کرنا۔
اول شهر رمضان راوی کا وہم ہے کیونکہ یہ بعد والے الفاظ سے مناسبت اور مطابقت نہیں رکھتا،
اور مذکورہ بالا روایت کے بھی مخالف ہے۔
اس لیے یہاں بھی في آخر شهر رمضان ہونا چاہیے،
جیسا کہ بعض نسخوں میں ہے۔
(2)
أَظَلُّ:
میں دن گزارتا ہوں۔
ابيت:
میں رات گزارتا ہوں۔
(3)
تمادلنا:
مدلنا:
لمبا ہو جاتا دن بڑھ جاتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2571   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7241  
7241. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے رمضان کے آخری دونوں میں وصال کے روزے رکھے تو کچھ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے بھی روزوں میں وصال کیا۔ نبی ﷺ کو جب اطلاع پہنچی تو آپ نے فرمایا: اگر اس مہینے کے دن مزید بڑھ جاتے تو میں اتنے دنوں تک وصال کے روزے رکھتا کہ ہوس کرنے والے اپنی ہوس چھوڑ دیتے۔ میں تم لوگوں جیسا نہیں ہوں۔ میں اس طرح دن گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ سلیمان بن مغیرہ نے سیدنا ثابت سے، انہوں نے سیدنا انس ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث بیان کرنے میں سیدنا حمید کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7241]
حدیث حاشیہ:
یعنی حقیقت میں جنت کا کھانا پانی اس صورت میں آپ کا وصالی روزہ ظاہری ہوگا نہ کی حقیقت میں۔
مگر بعض نے کہا کہ کھانے پینے سے مجازی معنی مراد ہے کہ وہ مجھ کو قوت دیتا رہتا ہے جو تم کو کھانے پینے سے حاصل ہوتی ہے۔
صوم ومال اس روزے کو کہتے ہیں جس میں افطار وسحر کے وقت میں بھی نہیں کھایا جاتا اور روزے کو مسلسل جاری رکھا جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7241   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.