سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
23. باب مَا جَاءَ فِي الْكَفَّارَةِ فِي الصَّوْمِ
23. باب: میت کے چھوڑے ہوئے روزے کے کفارہ کا بیان۔
Chapter: (What Has Been Related About The Atonement)
حدیث نمبر: 718
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبثر بن القاسم، عن اشعث، عن محمد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من مات وعليه صيام شهر فليطعم عنه مكان كل يوم مسكينا ". قال ابو عيسى: حديث ابن عمر لا نعرفه مرفوعا إلا من هذا الوجه، والصحيح عن ابن عمر موقوف قوله، واختلف اهل العلم في هذا الباب، فقال بعضهم، يصام عن الميت، وبه يقول احمد، وإسحاق، قالا: إذا كان على الميت نذر صيام يصوم عنه، وإذا كان عليه قضاء رمضان اطعم عنه، وقال مالك، وسفيان، والشافعي: لا يصوم احد عن احد، قال: واشعث هو ابن سوار، ومحمد هو عندي ابن عبد الرحمن بن ابي ليلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفٌ قَوْلُهُ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَاب، فَقَالَ بَعْضُهُمْ، يُصَامُ عَنِ الْمَيِّتِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَا: إِذَا كَانَ عَلَى الْمَيِّتِ نَذْرُ صِيَامٍ يَصُومُ عَنْهُ، وَإِذَا كَانَ عَلَيْهِ قَضَاءُ رَمَضَانَ أَطْعَمَ عَنْهُ، وقَالَ مَالِكٌ، وَسُفْيَانُ، وَالشَّافِعِيُّ: لَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، قَالَ: وَأَشْعَثُ هُوَ ابْنُ سَوَّارٍ، وَمُحَمَّدٌ هُوَ عِنْدِي ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا روزہ باقی ہو تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،
۲- صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما سے موقوف ہے یعنی انہیں کا قول ہے،
۳- اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے۔ یہ قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں: جب میت پر نذر والے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزہ رکھا جائے گا، اور جب اس پر رمضان کی قضاء واجب ہو تو اس کی طرف سے مسکینوں اور فقیروں کو کھانا کھلایا جائے گا، مالک، سفیان اور شافعی کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 50 (1757) (تحفة الأشراف: 8423) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار کندی ضعیف ہیں، نیز اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1757) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (389)، المشكاة (2034 / التحقيق الثاني)، ضعيف الجامع الصغير (5853) //

قال الشيخ زبير على زئي: (718) إسناده ضعيف /جه 1757
أشعت بن سوار ومحمد بن أبى ليلي ضعيفان: (تقدما:194،649)

   جامع الترمذي718عبد الله بن عمرمن مات وعليه صيام شهر فليطعم عنه مكان كل يوم مسكينا
   سنن ابن ماجه1757عبد الله بن عمرمن مات وعليه صيام شهر فليطعم عنه مكان كل يوم مسكين

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 718 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 718  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں اشعث بن سوار کندی ضعیف ہیں،
نیز اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 718   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1757  
´کوتاہی سے میت کے رہ جانے والے روزوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مر جائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1757]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اما م ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتوی تو ہے، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے طو ر پر صحیح سند سے مروی نہیں (جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء في الکفارۃ، حدیث: 718)
۔

(2)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر جو عنوان لکھا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ان کی رائے میں اگر روزوں کی قضا نہ دینے میں مرنے والے کی کوتاہی کو دخل نہ بلکہ اسے قضا ادا کرنے کا مو قع ہی نہ ملا ہو تو اس کی طرف سے کھانا کھلانے کی ضرورت نہیں اس مسئلے کی بابت مزید دیکھیے: حدیث 1759 کے فوائد و مسا ئل۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1757   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.