(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي، وابو سعيد الاشج، قالا: حدثنا عبد السلام بن حرب، عن خصيف، عن ابي عبيدة، عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " في ثلاثين من البقر تبيع او تبيعة وفي كل اربعين مسنة ". وفي الباب عن معاذ بن جبل. قال ابو عيسى: هكذا رواه عبد السلام بن حرب، عن خصيف، وعبد السلام ثقة حافظ، وروى شريك هذا الحديث، عن خصيف، عن ابي عبيدة، عن امه عبد الله، وابو عبيدة بن عبد الله لم يسمع من عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ ". وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، وَعَبْدُ السَّلَامِ ثِقَةٌ حَافِظٌ، وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أُمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا، یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے (دانتی یعنی دو دانت والی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے، اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں، ۲- شریک نے بھی یہ حدیث بطریق: «خصيف عن أبي عبيدة عن أمه عن عبد الله» روایت کی ہے، ۳- اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے۔ ۴- اس باب میں معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 12 (1804)، (تحفة الأشراف: 9606) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ابو عبیدة کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نںیو ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1804)
قال الشيخ زبير على زئي: (622) إسناده ضعيف / جه 1804 خصيف ضعيف (تقدم:289) والسند منقطع وللحديث شواھد ضعيفة
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 622
اردو حاشہ: نوٹ: (شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ابو عبیدۃ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 622
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1804
´گائے بیل کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس گائے میں ایک «تبیع» یا ایک «تبیعہ» اور چالیس میں ایک «مسنة» ہے“[سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1804]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس باب کی مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار ديا ہے اور انہوں نے اس کے شواہد بھی بیان کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہیں۔ مذکورہ دونوں روایتوں کی اسنادی بحث اور ان میں مذکور مسئلہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 7؍21، 22، 23- 36؍341، 340، 339، و إرواء الغلیل: 3؍268، 271، رقم: 795، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1803، 1804) تیس سے کم گائے بیلوں میں زکاۃ واجب نہیں۔ گائے دو سال کی مسنہ (دو دانت والی) ہوتی ہے۔ گائے بیلوں کی زکاۃ کا حساب کرنے کے لیے دیکھنا چاہیے کہ ان کے تیس تیس یا چالیس چالیس کے کتنے گروہ بنتے ہیں، پھر اس کے مطابق ایک سال یا دو سال کے بچھڑے بچھڑیاں لے لی جائیں، یعنی تیس (30) پر ایک سال کا ایک جانور اور چالیس (40) پر دو سال کا ایک جانور واجب ہے۔ اس کے بعد ساتھ (60) پر ایک ایک سال کے دو جانور۔ ستر (70) پر دو سال کا ایک اور ایک سال کا ایک۔ اسی (80) پر دو سال کے دو۔ نوے (90) پر ایک سال کے تین۔ سو (100) پر دو سال کا ایک اور ایک ایک سال کے دو بچھڑے بچھڑیاں بطور زکاۃ ادا اور وصول کیے جائیں گے۔ بھینس عرب کا جانور نہیں، اس لیے حدیث میں اس کا ذکر نہیں آیا لیکن اپنے فوائد اور قدر وقیمت کے لحاظ سے اور شکل و شباہت کے لحاظ سے یہ گائے سے ملتا جلتا جانور ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسے بھی گائے کے حکم میں سمجھا جائے۔ امام ابن المنذر نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں۔ دیکھیئے: (فتاوی ابن تیمیة: 25؍37) اگر گائیں اور بھینسیں مل کر نصاب پورا ہوتا ہو تو زکاۃ ادا کردی جائے۔ زکاۃ کے طور پر وہ جانور دیا جائے جس کی تعداد ریوڑ میں زیادہ ہے، مثلاً: اگر بیس گائیں اور دس بھینسیں ہیں تو زکاۃ کے طور پر ایک سالہ بچھڑی دی جائے اور اگر دس گائیں اور بیس بھینسیں ہیں تو ایک سالہ کٹڑایا کٹڑی (بھینس کا نر یا مادہ بچہ) دے دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1804