(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، حدثنا بشر بن المفضل، عن برد بن سنان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: " جئت ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في البيت، والباب عليه مغلق، فمشى حتى فتح لي ثم رجع إلى مكانه ". ووصفت الباب في القبلة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " جِئْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْبَيْتِ، وَالْبَاب عَلَيْهِ مُغْلَقٌ، فَمَشَى حَتَّى فَتَحَ لِي ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ ". وَوَصَفَتِ الْبَاب فِي الْقِبْلَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں گھر آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور دروازہ بند تھا، تو آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھولا۔ پھر اپنی جگہ لوٹ گئے، اور انہوں نے بیان کیا کہ دروازہ قبلے کی طرف تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: سنت و نفل کے اندر اس طرح سے چلنا کہ قبلہ سے انحراف واقع نہ ہو جائز ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 169 (922)، سنن النسائی/السہو 14 (1207)، (تحفة الأشراف: 16417)، مسند احمد (6/183، 2340) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (855)، المشكاة (1005)، الإرواء (386)
قال الشيخ زبير على زئي: (601) إسناده ضعيف / د 922، ن 1207
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 922
´نماز میں کون سا کام جائز اور درست ہے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے ۱؎۔ اور عروہ نے ذکر کیا کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 922]
922۔ اردو حاشیہ: یہ روایت سند اً ضعیف ہے، تاہم اگر دروازہ قبلہ رخ ہو اور چند قدم کے فاصلے پر ہو اور گھر میں کوئی جواب دینے والا بھی نہ ہو، تو چند قدم چل کر دروازہ کھول دینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا بلکہ ایک تو یہ عمل قلیل ہے۔ دوسرے نمازی قبلے سے منحرف بھی نہیں ہوتا۔ تیسرے اس سے اس کا خشوع فی الصلاۃ بھی زیادہ متاثر نہیں ہو گا۔ «والله اعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 922