(مرفوع) حدثنا هارون بن عبد الله البزاز البغدادي، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا ابي، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها يعني النجم والمسلمون والمشركون والجن والإنس ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم يرون السجود في سورة النجم، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ليس في المفصل سجدة، وهو قول مالك بن انس، والقول الاول اصح، وبه يقول الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا يَعْنِي النَّجْمَ وَالْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ السُّجُودَ فِي سُورَةِ النَّجْمِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَيْسَ فِي الْمُفَصَّلِ سَجْدَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ، وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یعنی سورۃ النجم میں سجدہ کیا اور مسلمانوں، مشرکوں، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کی رائے میں سورۃ النجم میں سجدہ ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مفصل کی سورتوں میں سجدہ نہیں ہے۔ اور یہی مالک بن انس کا بھی قول ہے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہاں تفسیر اور شروحات حدیث کی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں پیش آنے والا ”غرانیق“ سے متعلق ایک عجیب وغریب قصہ مذکور ہوا ہے، جس کی تردید ائمہ کرام اور علماء عظام نے نہایت مدلل انداز میں کی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی، فتح الباری، مقدمۃ الحدیث، جلد اول)۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 575
اردو حاشہ: 1؎: یہاں تفسیر اور شروحات حدیث کی کتابوں میں نبی اکرم ﷺ کے مکی دور میں پیش آنے والا ”غرانیق“ سے متعلق ایک عجیب و غریب قصہ مذکور ہوا ہے، جس کی تردید آئمہ کرام اور علماء عظام نے نہایت مدلل انداز میں کی ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: تحفۃ الأحوذی، فتح الباری، مقدمۃ الحدیث، جلداوّل)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 575
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1071
1071. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ہمراہ اس وقت تمام اہل اسلام، مشرکین اور جن و انس نے سجدہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1071]
حدیث حاشیہ: ظاہر ہے کہ مسلمان بھی اس وقت سب باوضو نہ ہوں گے اور مشرکوں کے وضو کا تو کوئی سوال ہی نہیں پس بے وضو سجدہ کرنے کا جواز نکلا اور امام بخاری ؒ کا بھی یہی قول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1071
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1071
1071. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ہمراہ اس وقت تمام اہل اسلام، مشرکین اور جن و انس نے سجدہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1071]
حدیث حاشیہ: (1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اس حدیث سے سجدۂ تلاوت کے لیے وضو کے عدم وجوب کا استدلال کیا ہے۔ کیونکہ مشرکین کے وضو کا کوئی اعتبار نہیں اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں سجدہ کرنے سے منع نہیں کیا۔ حالانکہ امام بخاری ؒ اس قسم کے بے بنیاد استدلال کرنے سے بہت بالا ہیں کیونکہ سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت کی ضرورت کو شعبی کے علاوہ دیگر تمام اکابر امت نے تسلیم کیا ہے۔ (المغني: 358/2) مشرکین کا سجدہ سرے سے عبادت ہی نہیں تو ان کے لیے وضو اور غیر وضو برابر ہے۔ اگر حضرت ابن عمر ؓ سے بے وضو سجدۂ تلاوت ثابت بھی ہو، جیسا کہ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے تو ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ دوران سفر ہوں اور انہوں نے تیمم سے سجدہ کیا ہو۔ پھر ان سے یہ بات ثابت ہے کہ کوئی آدمی طہارت کے بغیر سجدہ نہ کرے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 325/2) اس تفصیل کے پیش نظر یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ امام بخاری ؒ طہارت کے بغیر جواز سجدۂ تلاوت کے قائل ہیں، بلکہ ان کا مشرکین کے متعلق نجس ہونے کی صراحت کرنا کہ ان کا وضو بھی صحیح نہیں اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ ابن عمر کے متعلق باوضو سجدہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، البتہ امام ابن تیمیہ ؒ بے وضو سجدۂ تلاوت کرنے کے قائل ہیں اور انہوں نے امام بخارى ؒ کو بھی اپنے ساتھ خیال کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے فتاوی الكبری، باب سجود التلاوة میں اس کی صراحت کی ہے۔ (2) امام ابن حزم ؒ اللہ فرماتے ہیں: جب سجدۂ تلاوت، نماز نہیں تو بغیر وضو جنبی کے لیے، حائضہ کے لیے اور غیر قبلہ کی طرف دیگر تمام اذکار کی طرح مباح اور جائز ہے۔ (المحلی لابن حزم: 105/5) البتہ ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں کہ ان سجدہ ہائے تلاوت کے لیے وہی شرط لگائی جائے گی جو نفل کے لیے لگائی جاتی ہے، یعنی حدث اور نجاست سے طہارت، ستر ڈھانپنا، قبلہ رخ ہونا اور نیت کرنا، ہمیں اس میں کسی اختلاف کا علم بھی نہیں۔ (المغني: 358/2) اس بحث کے متعلق تحفۃ الاحوذی (3/219) کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک کسی مشقت یا مجبوری کے پیش نظر سجدۂ تلاوت وضو کے بغیر کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے حالات میں اسے تیمم سے کام لے لینا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) ابراہیم بن طہمان کی روایت جسے انہوں نے ایوب سختیانی سے بیان کیا ہے، علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (فتح الباري: 781/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1071
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4862
4862. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے سورہ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں، مشرکوں، جنوں اور انسانوں سب نے سجدہ کیا۔ ابراہیم بن طہمان نے ایوب سے روایت کرتے ہوئے عبدالوارث کی متابعت کی ہے۔ اور ابن علیہ نے اپنی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4862]
حدیث حاشیہ: کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے وقت آپ کی زبان اطہرپرشیطان نے یہ کلمات جاری کر دیے تھے۔ ان بلند مرتبہ دیویوں کی سفارش کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ سن کر مشرکین بھی سجدے میں گر گئے۔ یہ بات عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کی تاثیر سے کافروں اور مشرکوں سب نے سجدہ کیا مشرکین کوغیبی تصرف کی وجہ سے طوعاً وكرهاً سر بسجود ہونا پڑا۔ صرف ایک بد بخت نے سجدہ نہ کیا کیونکہ اس کے دل پر مہر لگی ہوئی تھی جیسا کہ درج ذیل آیت میں اس صراحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4862