علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اور سب سے آخر میں
«قل هو الله أحد» پڑھتے تھے
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عمران بن حصین، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے
(براہ راست) روایت کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے
«ابی» کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور بعض نے
«ابی» کے واسطے کا ذکر کیا ہے۔
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے،
۳- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو، اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اور میں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے،
۴- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وتر کبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے، کبھی تین اور کبھی ایک، وہ ہر ایک کو مستحسن سمجھتے تھے
۲؎۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذی 460
محدثین کے ابواب ”پہلے اور بعد؟!“
سوال:
الیاس گھمن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اہلحدیث جو ہیں وہ منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم دیوبندی ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں۔
اور وہ ایک قاعدہ و قانون بتاتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین اپنی احادیث کی کتابوں میں پہلے منسوخ روایات کو یا اعمال کو لائے ہیں پھر اُنھوں نے ناسخ روایات کو جمع کیا ہے۔
کیا واقعی یہ بات درست ہے؟
اور وہ مثال دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر نہ کرنے کی روایات ذکر کی ہیں یعنی رفع الیدین منسوخ ہے اور رفع الیدین نہ کرنا ناسخ ہے، اسی طرح محدثین نے پہلے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں، اہلِ حدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم ناسخ پر۔
کیا …… الیاس گھمن صاحب نے جو قاعدہ و قانون بیان کیا ہے وہ واقعی محدثینِ جمہور کا قاعدہ ہے اور دیوبندیوں کا اس قانون پر عمل ہے اور اہل حدیث اس قانون کے مخالف ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
الجواب:
گھمن صاحب کی مذکورہ بات کئی وجہ سے غلط ہے، تاہم سب سے پہلے تبویبِ محدثین کے سلسلے میں دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:
1) امام ابو داود نے باب باندھا:
”بَابُ مَنْ لَمْ یَرَ الْجَہْرَ بِبِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ“
(سنن ابی داود ص 122، قبل ح 782)
اس کے بعد امام ابو داود نے دوسرا باب باندھا:
”بَابُ مَنْ جَہَرَ بِہَا“
(سنن ابی داود ص 122، قبل ح 786)
یعنی امام ابو داود نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدمِ جہر (سراً فی الصلوٰۃ) والا باب لکھا اور بعد میں بسم اللہ بالجہر والا باب باندھا تو کیا گھمن صاحب اور اُن کے ساتھی اس بات کے لئے تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اور اگر نہیں تو پھر اُن کا اُصول کہاں گیا؟!
تنبیہ:
امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (ص 67۔68 قبل ح 244، 245)
2) امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب باندھا:
”بَابُ مَا جَاءَ فِی الوِتْرِ بِثَلَاثٍ“
(سنن الترمذی ص 122، قبل ح 459)
پھر بعد میں باب باندھا:
”بَابُ مَا جَاء َ فِی الوِتْرِ بِرَکْعَۃٍ“
(سنن الترمذی قبل ح 461)
کیا گھمن صاحب اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رُو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟!
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 250 تا 259) تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 482 تا 488) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 482
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 460
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث حارث اعور کی وجہ سے ضعیف ہے،
مگر اس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے،
نہ کہ تین رکعت وتر پڑھنے کی بات ضعیف ہے،
کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑتے تھے،
پہلی میں ﴿سبح اسم ربك الاعلى﴾ دوسری میں ﴿قل ياأيها الكافرون﴾ اور تیسری میں ﴿قل هو الله أحد﴾ پڑھتے تھے۔
2؎:
سارے آئمہ کرام و علماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے،
چاہے تین،
یا ایک،
سب کے سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہیں،
اور یہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وتر جائز ہے نہ تین سے کم (ایک) تو اس بات کے قائل صرف آئمہ احناف ہیں،
وہ بھی دو رکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وتر کی مغرب سے مشابہت ہو جاتی ہے،
جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔
نوٹ:
(سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 460