(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا زكريا بن إسحاق، حدثنا عمرو بن دينار، قال: سمعت عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة " قال: وفي الباب عن ابن بحينة , وعبد الله بن عمرو، وعبد الله بن سرجس , وابن عباس , وانس، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن، وهكذا روى ايوب , وورقاء بن عمر , وزياد بن سعد , وإسماعيل بن مسلم , ومحمد بن جحادة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروى حماد بن زيد , وسفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار فلم يرفعاه، والحديث المرفوع اصح عندنا، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إذا اقيمت الصلاة ان لا يصلي الرجل إلا المكتوبة، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وقد روي هذا الحديث عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، رواه عياش بن عباس القتباني المصري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَى أَيُّوبُ , وَوَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ , وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ , وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ، وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ عِنْدَنَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ أَنْ لَا يُصَلِّيَ الرَّجُلُ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ الْمِصْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جماعت کھڑی ہو جائے ۱؎ تو فرض نماز ۲؎ کے سوا کوئی نماز (جائز) نہیں“۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اسی طرح ایک دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابن بحینہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن سرجس، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے بھی عمرو بن دینار سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور مرفوع حدیث ہی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۵- سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۶- اس کے علاوہ اور (ایک تیسری) سند سے بھی یہ حدیث بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے - (جیسے) عیاش بن عباس قتبانی مصری ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اقامت شروع ہو جائے۔
۲؎: یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔
۳؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہو جائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں، خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں، اس لیے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے مزید وارد ہے، «قيل يا رسول الله ولا ركعتي الفجر قال ولا ركعتي الفجر» اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اور ابوہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں «إلا ركعتي الصبح» کا اضافہ ہے: کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں «هذه الزيادة لا أصل لها» یعنی یہ اضافہ بےبنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں، اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 421
اردو حاشہ: 1؎: یعنی اقامت شروع ہو جائے۔
2؎: یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔
3؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہو جائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں، خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں، اس لیے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے مزید وارد ہے، ((قِيْلَ يَارَسُوْلَ اللهِ وَلَا رَكَعَتَي الْفَجْرَ قَالَ وَلَا رَكَعَتَي الْفَجْرِ)) اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اور ابو ہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں ((إلَّا رَكَعَتَي الصُّبْحَ)) کا اضافہ ہے: کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں ”هذِهِ الزِّيَادَةُ لَا أَصْلَ لَهَا“ یعنی یہ اضافہ بے بنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں، اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 421
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 866
´اقامت کے بعد نفل یا سنت پڑھنے کی کراہت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 866]
866 ۔ اردو حاشیہ: جب کسی فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو کوئی نفل یا کوئی فرض نماز شروع نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ جماعت کے اصول کے خلاف ہے اور اس سے جماعت کی اہمیت ختم ہو جائے گی، البتہ اگر کوئی شخص پہلے سے سنتیں وغیرہ پڑھ رہا ہے اور اسے جاری رکھنے میں فرض سے کچھ بھی فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے (جیسے وہ تشہد میں ہو) تو علماء کی ایک رائے کے مطابق وہ نماز جاری رکھے اور جلد مکمل کرنے کی کوشش کرے تاکہ فرض نماز باجماعت پڑھ سکے۔ اگر اسے خطرہ ہے کہ جاری رکھنے کی صورت میں کچھ فرض نماز جماعت سے رہ جائے گی یا کوئی رکعت فوت ہو جائے گی تو نماز منقطع کر دے اور جماعت کے ساتھ مل جائے جبکہ بہتر یہ ہے کہ جونہی اقامت شروع ہو، نماز ترک کر دی جائے، خواہ نماز کے کسی بھی مرحلے میں ہو کیونکہ «فَلَا صَلَاةَ» کی واضح نص سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جاتا اگرچہ بزعم خویش نماز جاری رکھے ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 866
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1266
´امام فجر پڑھا رہا ہو اور آدمی نے سنت نہ پڑھی ہو تو اس وقت نہ پڑھے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی ہو جائے تو سوائے فرض کے کوئی نماز نہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1266]
1266۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے بھی جماعت کے ہوتے ہوئے سنتیں پڑھنے کی ممانعت کا اثبات ہوتا ہے اور بیہقی کی یہ روایت کہ ”جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے الا یہ کہ صبح کی سنتیں ہوں۔“ بالکل بے اصل اور ضعیف ہے۔ دیکھیے: [عون المعبود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1266
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1151
´فرض نماز کی اقامت کے بعد کوئی اور نماز نہ پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی بھی نماز نہیں ہوتی۔“ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے ہم مثل حدیث مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1151]
اردو حاشہ: فائدہگ: جب جماعت کھڑی ہو تو اس کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ اس وقت کوئی سنتیں یا نفل پڑھنا درست نہیں۔ بنا بریں اگرکوئی شخص سنتیں پڑھ رہا ہو۔ اورجماعت کھڑی ہو جائے تو سنتیں چھوڑ کرجماعت کے ساتھ مل جاناچاہیے۔ یہی بات راحج اور أقرب إلی الصواب ہے۔ البتہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگرسنتیں یا نوافل جو وہ ادا کررہا ہے تکبیر تحریمہ سے قبل مکمل ہونے کا یقین ہو تو وہ مکمل کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1151