(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن عياض يعني ابن هلال، قال: قلت لابي سعيد احدنا يصلي فلا يدري كيف صلى، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى احدكم فلم يدر كيف صلى فليسجد سجدتين وهو جالس " قال: وفي الباب عن عثمان , وابن مسعود , وعائشة , وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن، وقد روي هذا الحديث عن ابي سعيد من غير هذا الوجه، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " إذا شك احدكم في الواحدة والثنتين فليجعلهما واحدة وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلهما ثنتين ويسجد في ذلك سجدتين قبل ان يسلم " والعمل على هذا عند اصحابنا، وقال بعض اهل العلم: إذا شك في صلاته فلم يدر كم صلى فليعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِيَاضٍ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ أَحَدُنَا يُصَلِّي فَلَا يَدْرِي كَيْفَ صَلَّى، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ كَيْفَ صَلَّى فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الْوَاحِدَةِ وَالثِّنْتَيْنِ فَلْيَجْعَلْهُمَا وَاحِدَةً وَإِذَا شَكَّ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالثَّلَاثِ فَلْيَجْعَلْهُمَا ثِنْتَيْنِ وَيَسْجُدْ فِي ذَلِكَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ " وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا شَكَّ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى فَلْيُعِدْ.
عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کہا: ہم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے؟) تو ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے“۔ (یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد)
امام ترمذی کہتے ہیں: ا- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عثمان، ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ وغیرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے، ۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہو جائے تو اسے ایک ہی مانے اور جب دو اور تین میں شک ہو تو اسے دو مانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے“۔ اسی پر ہمارے اصحاب (محدثین) کا عمل ہے ۱؎ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کو اپنی نماز میں شبہ ہو جائے اور وہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ تو وہ پھر سے لوٹائے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اور یہی راجح مسئلہ ہے۔
۲؎: یہ مرجوح قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 198 (1029)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 129 (1204)، (تحفة الأشراف: 4396)، مسند احمد (3/12، 37، 50، 51، 54) (صحیح) (ہلال بن عیاض یا عیاض بن ہلال مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
إذا شك أحدكم في صلاته فلم يدر كم صلى ثلاثا أم أربعا فليطرح الشك وليبن على ما استيقن ثم يسجد سجدتين قبل أن يسلم فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته وإن كان صلى إتماما لأربع كانتا ترغيما للشيطان
إذا شك أحدكم في صلاته فليلق الشك وليبن على اليقين فإذا استيقن التمام سجد سجدتين فإن كانت صلاته تامة كانت الركعة نافلة والسجدتان وإن كانت ناقصة كانت الركعة تماما لصلاته وكانت السجدتان مرغمتي الشيطان
إذا شك أحدكم في صلاته فليلغ الشك وليبن على اليقين فإذا استيقن التمام سجد سجدتين فإن كانت صلاته تامة كانت الركعة نافلة وإن كانت ناقصة كانت الركعة لتمام صلاته وكانت السجدتان رغم أنف الشيطان
إذا شك أحدكم في صلاته فليلغ الشك وليبن على اليقين فإذا استيقن بالتمام فليسجد سجدتين وهو قاعد فإن كان صلى خمسا شفعتا له صلاته وإن صلى أربعا كانتا ترغيما للشيطان
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1239
´جب نمازی کو (نماز میں) شک ہو جائے تو جو یقینی طور پر یاد ہو اس پر بنا کرے۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں شک ہو جائے تو وہ شک کو چھوڑ دے، اور یقین پر بنا کرے، جب اسے نماز کے پورا ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے، (اب) اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھیں ہوں گی تو (یہ) دونوں سجدے اس کی نماز کو جفت بنا دیں گے، اور اگر اس نے چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو (یہ) دونوں سجدے شیطان کی ذلت و خواری کے موجب ہوں گے۔“[سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1239]
1239۔ اردو حاشیہ: ➊ ”شک دور کرے۔“ اگر تین اور چار میں شک ہو تو تین سمجھے کیونکہ کم کا یقین اور زائد میں شک ہوتا ہے۔ ➋ ”جفت بنا دیں گے۔“ یعنی دو سجدے ایک رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے اور پانچویں رکعت سے مل کر دو نفل بن جائیں گے اور پہلی چار رکعتیں فرض ہوں گی، البتہ احناف کے نزدیک اس صورت میں ضروری ہے کہ ہر اس رکعت کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھے جس کا چوتھی ہونا ممکن ہو، یعنی آخری اور اس سے پہلی دونوں میں بیٹھے اور تشہد پڑھے ورنہ ساری نماز نفل ہو جائے گی۔ محدثین اور جمہور اہل علم کے نزدیک یہ ضروری نہیں کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چوتھی کو تیسری سمجھ کر سیدھا اٹھ کھڑا ہوا ہو اور شک بعد میں پڑا ہو۔ اس صورت میں آخری سے پہلی میں بیٹھنے کا امکان ہی نہیں۔ اور اکثر ایسے ہی ہوتا ہے، لہٰذا احناف کا قول غیر ضروری تشہد ہے جس کی دلیل سنت سے نہیں ملتی، صرف قیاس کے زور سے اتنا سخت فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ ➌ ”شیطان کی رسوائی اور ذلت“ کیونکہ سہو شیطان کی کوششوں ہی سے ہوا تھا مگر نمازی نے مزید دو سجدے کیے۔ گویا شیطان کا وسوسہ نمازی کے لیے دو سجدوں کے اضافے کا ذریعہ بن گیا جب کہ سجدے کے انکار ہی سے شیطان زاندۂ درگاہ ہوا تھا، لہٰذا اس کا رسوا اور ذلیل ہونا لازمی امر ہے۔ شاید اسی نکتے کی بنا پر سہو کا تدارک سجدے سے مشروع کیا گیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1239
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1024
´جب دو یا تین رکعت میں شک ہو جائے تو شک کو دور کرے (اور کم کو اختیار کرے) اس کے قائلین کی دلیل کا ذکر۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) تو شک دور کرے اور یقین کو بنیاد بنائے، پھر جب اسے نماز پوری ہو جانے کا یقین ہو جائے تو دو سجدے کرے، اگر اس کی نماز (درحقیقت) پوری ہو چکی تھی تو یہ رکعت اور دونوں سجدے نفل ہو جائیں گے، اور اگر پوری نہیں ہوئی تھی تو اس رکعت سے پوری ہو جائے گی اور یہ دونوں سجدے شیطان کو ذلیل و خوار کرنے والے ہوں گے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشام بن سعد اور محمد بن مطرف نے زید سے، زید نے عطاء بن یسار سے، عطاء نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، اور ابوسعید نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوخالد کی حدیث زیادہ مکمل ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1024]
1024۔ اردو حاشیہ: شک کو دور کر کے یقین پر بنیاد یوں ہے کہ دو یا تین میں شبہ ہو تو کم تعداد یعنی دو رکعات یقینی ہیں۔ تین یا چار میں شبہ ہو تو تین یقینی ہیں اور چوتھی مشکوک۔ لہٰذا پہلی صورت میں دو رکعات مان کر اور دوسری صورت میں تین رکعت مان کر باقی نماز پوری کرے، یہی صورت سے سے راحج اور محتاط ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1024
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1029
´غالب گمان کے مطابق رکعات پوری کرے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ زیادہ پڑھی ہے یا کم تو بیٹھ کر دو سجدے کر لے ۱؎ پھر اگر اس کے پاس شیطان آئے اور اس سے کہے (یعنی دل میں وسوسہ ڈالے) کہ تو نے حدث کر لیا ہے تو اس سے کہے: تو جھوٹا ہے مگر یہ کہ وہ اپنی ناک سے بو سونگھ لے یا اپنے کان سے آواز سن لے ۲؎۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1029]
1029۔ اردو حاشیہ: شیطان کا کام اللہ کے بندوں ہی کو پریشان کرنا ہے۔ لہٰذا نمازی کو اپنا وہم دور کرنے کے لئے سوچنا چاہیے اور جو یقین ہو اس پر بنا کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1029
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1204
´نماز میں سہو (بھول چوک) کا بیان۔` عیاض نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کوئی شخص نماز ادا کرتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں ادا کر لیں؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے، اور اسے یاد نہ رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1204]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) بیٹھے بیٹھے سجدے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے نماز یا رکعت دوبارہ پڑھنے کے لئے اٹھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف سہو کے دوسجدے کرلینا کافی ہیں۔
(2) اس میں اشارہ ہے کہ سجدہ سلام سے پہلے کیا جاوے گا۔
(3) یہ حدیث مزید تفصیل کے ساتھ آگے آ رہی ہے دیکھئے: (حدیث: 1210)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1204
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1210
´نماز میں شک کی صورت میں یقینی بات پر عمل کرنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنی نماز میں شبہ کرے تو شبہ کو ختم کر کے یقین پر بنا کرے، اور جب نماز کے مکمل ہو جانے کا یقین ہو جائے تو دو سجدے کرے، اگر اس کی نماز پوری تھی تو جو رکعت زائد پڑھی وہ نفل ہو جائے گی، اور اگر ناقص تھی تو یہ رکعت نماز کو پوری کر دے گی، اور یہ دونوں سجدے شیطان کی تذلیل و تحقیر کے لیے ہوں گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1210]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر نمازکے دوران میں شک ہوجائے۔ کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو غور کرنا اورسوچنا چاہیے جس عدد پر دل زیادہ مطمئن ہو اسی کا اعتبار کرکے نماز مکمل کرکے سجدہ سہو ادا کرنا چاہیے جیسے کہ اگلے با ب میں آ رہا ہے۔
(2) اگر شک میں دونوں پہلوں برابر ہوں۔ تو کم پر یقین کرے۔ جیسے کہ حدیث 1209 میں مذکور ہے۔ کیونکہ کم تعداد میں شک نہیں زیادہ میں شک ہے۔
(3) اگر غلطی سے ایک رکعت زیادہ پڑھی گئی ہے۔ توسجدہ سہو ایک رکعت کے قائم مقام ہوکر دو نفل کا ثواب مل جائےگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس نے ہماری کوتاہی کو بھی ہمارے لئے باعث ثواب بنا دیا۔ اوردو سجدوں کو اس موقع پر پوری رکعت کے برابر کردیا۔
(4) شک کی صورت میں اگر نماز پوری پڑھی گئی تھی۔ اور سجدہ سہو بھی کرلیا تو یہ شیطان کی ذلت کا باعث ہے۔ کیونکہ شیطان نے چاہا تھا کہ بندے کی نماز خراب ہو۔ اور وہ پریشان ہوجائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سجدوں کی وجہ سے اس کی نماز کوخراب ہونے سے بچا لیا۔ اور قبول فرما لیا۔ اس طرح شیطان کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ اور وہ ذلیل ہوا۔
(5) ناک پر مٹی لگنا محاورہ ہے۔ جس کا مطلب ذلت اور خواری ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1210