(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى، حدثنا شريك، عن ابي إسحاق، عن حبشي بن جنادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " علي مني , وانا من علي، ولا يؤدي عني إلا انا او علي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلِيٌّ مِنِّي , وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
حبشی بن جنادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان «إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا»(سورة التوبة: 28) کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی الله عنہ کو بھیجا تو آپ نے علی کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات فرمائی: «علی منی و أنا من علی و لا یؤدی عنی الا أنا أو علی» ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (119) (تحفة الأشراف: 3290)، و مسند احمد (4/164، 95) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ اور ابواسحاق سبیعی مدلس وصاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 1980، وتراجع الالبانی 378)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3719
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا﴾(سورة التوبة:28) کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو آپﷺ نے علیؓ کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات کہی: (عَلِیٌّ مِّنِّیْ وَ أَنَا مِنْ عَلِیْ وَ لَا یُؤَدِّیْ عَنِّیْ اِلَّا أَنَا أَوْ عَلِی)
نوٹ: (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ اور ابواسحاق سبیعی مدلس و صاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: (الصحیحة رقم:1980، وتراجع الألبانی: 378)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3719
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث119
´علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔` حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”علی مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، اور میری طرف سے اس پیغام کو سوائے علی کے کوئی اور پہنچا نہیں سکتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 119]
اردو حاشہ: (1) علی مجھ سے ہے۔ اس جملے سے مقصود انتہائی قرابت اور گہرے تعلق کا اظہار ہے، جیسے حضرت طالوت نے اپنے مومن ہمراہیوں سے فرمایا تھا: ﴿إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنهُ فَلَيسَ مِنّى وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّى﴾(البقرۃ: 249) اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس سے (پانی) پی لیا، وہ مجھ سے نہیں، اور جو اسے نہ چکھے، وہ مجھ سے ہے (میرا مخلص ساتھی ہے۔)
(2) ادا کرنے سے مراد پیغام پہنچانا اور اعلان کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورہ برأت نازل فرمائی اور اس میں کافروں کو چار مہینے کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اس عرصہ میں اسلام قبول کر لیں یا جزیرہ عرب سے نکل جائیں، تو ان آیات کا اعلان کرنے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ معاہدہ ختم کرنے کے لیے آپ کا قریبی رشتہ دار ہونا چاہیے کہ عرب اپنے رواج کے مطابق اس کے اعلان کو کما حقہ اہمیت دے سکیں، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا کہ آئندہ مشرک حرم مکی میں نہ آئیں اور کوئی شخص بے لباس ہو کر طواف نہ کرے اور یہ کہ مشرکین کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اس عرصہ میں اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ علی رضی اللہ عنہ کا مجھ سے قرابت کا تعلق زیادہ ہے، اس لیے یہ اہم اعلان وہی کریں گے۔
(3) اس سے زندگی میں مالی حقوق کی ادائیگی بھی مراد ہو سکتی ہے، یعنی انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خرید و فروخت وغیرہ کے معاملات نپٹائیں۔ وفات کے بعد ان حقوق کی ادائیگی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی کو کچھ عطا فرمانے کا دعدہ کیا تھا اور اسے پورا کرنے کا موقع نہ ملا یا کوئی اور مالی ذمہ داری تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان تمام کی ادائیگی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی۔ (صحيح البخاري، الكفالة، باب من تكفل عن ميت دينا فليس له ان يرجع، حديث: 2296)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 119