حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”علی مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، اور میری طرف سے اس پیغام کو سوائے علی کے کوئی اور پہنچا نہیں سکتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے بطور عذر، اور علی رضی اللہ عنہ کی تکریم کے لئے اس وقت فرمائے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ امیر حج تھے، اور سورۃ براءت میں مشرکین سے کئے گئے معاہدہ کے توڑنے کے اعلان کی ضرورت پڑی، چونکہ دستور عرب کے مطابق سردار یا سردار کا قریبی رشتہ دار ہی یہ اعلان کر سکتا تھا، لہذا علی رضی اللہ عنہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، رضی اللہ عنہم۔
It was narrated that Hubshi bin Junadah said:
"I heard the Messenger of Allah say: ''Ali is part of me and I am part of him, and no one will represent me except 'Ali.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث119
اردو حاشہ: (1) علی مجھ سے ہے۔ اس جملے سے مقصود انتہائی قرابت اور گہرے تعلق کا اظہار ہے، جیسے حضرت طالوت نے اپنے مومن ہمراہیوں سے فرمایا تھا: ﴿إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنهُ فَلَيسَ مِنّى وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّى﴾(البقرۃ: 249) اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس سے (پانی) پی لیا، وہ مجھ سے نہیں، اور جو اسے نہ چکھے، وہ مجھ سے ہے (میرا مخلص ساتھی ہے۔)
(2) ادا کرنے سے مراد پیغام پہنچانا اور اعلان کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورہ برأت نازل فرمائی اور اس میں کافروں کو چار مہینے کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اس عرصہ میں اسلام قبول کر لیں یا جزیرہ عرب سے نکل جائیں، تو ان آیات کا اعلان کرنے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ معاہدہ ختم کرنے کے لیے آپ کا قریبی رشتہ دار ہونا چاہیے کہ عرب اپنے رواج کے مطابق اس کے اعلان کو کما حقہ اہمیت دے سکیں، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا کہ آئندہ مشرک حرم مکی میں نہ آئیں اور کوئی شخص بے لباس ہو کر طواف نہ کرے اور یہ کہ مشرکین کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اس عرصہ میں اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ علی رضی اللہ عنہ کا مجھ سے قرابت کا تعلق زیادہ ہے، اس لیے یہ اہم اعلان وہی کریں گے۔
(3) اس سے زندگی میں مالی حقوق کی ادائیگی بھی مراد ہو سکتی ہے، یعنی انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خرید و فروخت وغیرہ کے معاملات نپٹائیں۔ وفات کے بعد ان حقوق کی ادائیگی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی کو کچھ عطا فرمانے کا دعدہ کیا تھا اور اسے پورا کرنے کا موقع نہ ملا یا کوئی اور مالی ذمہ داری تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان تمام کی ادائیگی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی۔ (صحيح البخاري، الكفالة، باب من تكفل عن ميت دينا فليس له ان يرجع، حديث: 2296)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 119
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3719
´باب` حبشی بن جنادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3719]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا﴾(سورة التوبة:28) کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو آپﷺ نے علیؓ کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات کہی: (عَلِیٌّ مِّنِّیْ وَ أَنَا مِنْ عَلِیْ وَ لَا یُؤَدِّیْ عَنِّیْ اِلَّا أَنَا أَوْ عَلِی)
نوٹ: (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ اور ابواسحاق سبیعی مدلس و صاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: (الصحیحة رقم:1980، وتراجع الألبانی: 378)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3719