طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تھے تو کہتے تھے: «اللهم أهلله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله»”اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے“۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1816)، الكلم الطيب (161 / 114)
قال الشيخ زبير على زئي: (3451) إسناده ضعيف سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما
الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 3451
فقہ الحدیث: یہ حدیث: سنن الترمذی، مسند احمد 1397، سنن الدارمی 1730،امام طبرانی رحمہ اللہ نے الدعاء 903،امام ابوبکر ابن السنی رحمہ اللہ نے عمل الیوم واللیلۃ میں روایت کی ہے۔ شیخ الالبانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث شواہد کے سبب صحیح ہے، اور شیخ زبیر علی زئی کے نزدیک ضعیف ہے، جیسا کہ انوارالصحیفہ میں انہوں نے لکھا ہے: «قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:» «(3451) إسناده ضعيف سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما» ------------------ «قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1816)، الكلم الطيب (161 / 114)» «وقال الشیخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف سليمان بن سفيان» ”یعنی سنن دارمی کی تحقیق میں علامہ حسین سلیم اسد حفظہ اللہ اسے سلیمان کے سبب ضعیف کہتے ہیں۔“ ------------------ اور عصر حاضر کے نامور محقق ابو اسامہ عید بن سلیم الھلالی (عمل الیوم واللیلۃ) کی تخریج میں اس حدیث کے ذیل میں بہترین تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اس کے مجموعی طرق سے یہ حدیث حسن ہے،) «إسناده ضعيف؛ (وهو حسن)؛ أخرجه أبو يعلى في مسنده (2/ 25 - 26/ 661، 662) -وعنه ابن عدي في الكامل في الضعفاء (3/ 112)، والضياء المقدسي في الأحاديث المختارة (3/ 22/ 820) - بسنده سواء. لكن الضياء رواه من طريق أبي يعلى عن هارون بن عبد الله وحده ولم يقرن معه موسى بن محمد. وأخرجه الطبراني في الدعاء (2/ 1223/ 903) عن موسى بن هارون بن عبد الله الحمال عن أبيه به. وأخرجه الترمذي (5/ 504/ 3451)، وأحمد في مسنده (1/ 162) -ومن طريقه الضياء المقدسي في الأحاديث المختارة (3/ 22 - 23/ 821)، والطبراني في الدعاء (2/ 1223/ 903) -، وعبد بن حميد في مسنده (1/ 153/ 103 - منتخب)، وإسحاق بن راهويه في مسنده، كما في الأحاديث المختارة (3/ 23)، و الفتوحات الربانية (4/ 329) -وعنه الدارمي في سننه (7/ 255/ 1811 - فتح المنان)، والبخاري في التاريخ الكبير (2/ 109)، والطبراني في الدعاء (2/ 1223/ 903) -، وابن أبي عاصم في السُّنة (1/ 165/ 376)، والبخاري في التاريخ الكبير (2/ 109)، والدارمي في سننه (7/ 255/ 1811)، والبزار في البحر الزخار (3/ 161 - 162/ 947)، والعقيلي في الضعفاء الكبير (2/ 136)، والحاكم (4/ 285)، والخطيب في تاريخ بغداد (14/ 324 - 325)، والبغوي في شرح السُّنة (5/ 128/ 1335)، والبيهقي في الدعوات الكبير (2/ 242/ 467) بطرق كثيرة عن أبي عامر العقدي به. قال الترمذي: هذا حديث حسن غريب . وقال الحافظ ابن حجر؛ كما في الفتوحات الربانية (4/ 329) -: هذا حديث حسن؛ أخرجه أحمد وإسحاق في مسنديهما، وأخرجه الترمذي وقال: حديث حسن غريب . وأخرجه الحاكم، وقال: صحيح الإسناد!، وغلط في ذلك، فإن سليمان ضعفوه، وإنما حسنه الترمذي؛ لشواهده. وقوله: غريب، أي: بهذا السند أ. هـ. قلت: الذي رأيته في مطبوع المستدرك: أن الحاكم سكت عليه هو والذهبي؛ فلعله سقط من المطبوع. وقال شيخنا العلامة الألباني - رحمه الله - في ظلال الجنة (1/ 165): حديث حسن، وإسناده ضعيف من أجل سليمان بن سفيان وبلال بن يحيى؛ فإنهما ضعيفان، لكن له شاهد من حديث ابن عمر صححه ابن حبان . قلت: وهو كما قال، ونحوه في الصحيحة (4/ 431). وله شاهد من حديث ابن عمر - رضي الله عنهما - وهو الذي أشار إليه شيخنا - رحمه الله - آنفًا: أخرجه الدارمي في سننه (7/ 254/ 1810 - فتح المنان)، والطبراني في المعجم الكبير (12/ 273/ 13330)، وابن حبان في صحيحه (2374 - موارد) من طريق عبد الرحمن بن عثمان بن إبراهيم: حدثني أبي عن أبيه وعمه عن ابن عمر به. قلت: هذا إسناد ضعيف؛ فإن عبد الرحمن وأباه ضعيفان. قال الهيثمي في مجمع الزوائد (10/ 139): وعثمان بن إبراهيم الحاطبي فيه ضعف، وبقية رجاله ثقات!! . وتعقبه شيخنا العلامة الألباني - رحمه الله - في الصحيحة (4/ 431) بقوله: كذا قال، وعبد الرحمن بن عثمان، قال الذهبي: مُقِلّ، ضعّفه أبو حاتم الرازي، وأما ابن حبان فذكره في الثقات أ. هـ. وبالجملة، فالحديث بمجموعهما حسن - إن شاء الله -.» ------------------ اور اس کے دو راویوں (سلیمان اور بلال) کا ترجمہ یعنی جرح و تعدیل میں درجہ اور حالت درج ذیل ہے: امام ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں: «سليمان بن سفيان، [ت] أبو سفيان المدني. عن عبد الله بن دينار، وبلال بن يحيى. قال ابن معين: ليس بشئ. وقال - مرة: ليس بثقة. وكذا قال النسائي. وقال أبو حاتم والدارقطني: ضعيف. العقدى، حدثنا سليمان بن سفيان، حدثنا بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن أبيه، عن جده - أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رأى الهلال قال: اللهم أهله علينا بالامن والايمان والإسلام، ربى وربك الله.» یعنی سلیمان بن سفیان جن کی کنیت ابوسفیان ہے اور مدنی ہیں، وہ عبداللہ بن دینار اور بلال بن یحیٰ سے روایت کرتے ہیں، امام ابن معین فرماتے ہیں کہ سلیمان بن سفیان (کوئی شئی نہیں) اور فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں،امام نسائی بھی یہی کہتے ہیں،امام ابو حاتمؒ اور امام دارقطنی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں ؛ آگے امام ذھبیؒ نے ان کی چاند دیکھ پڑھی جانے والی دعاء کی روایت لکھی ہے، ------------------ اور علامہ ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں: «سليمان بن سفيان التيمي أبو سفيان المدني مولى آل طلحة بن عبيد الله روى عن بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله وعبد الله بن دينار وعنه سليمان التيمي وابنه معتمر بن سليمان وأبو داود الطيالسي قال الدوري عن ابن معين روى عنه أبو عامر العقدي حديث الهلال وليس بثقة وقال ابن أبى خيثمة عن ابن معين ليس بشيء وقال ابن المديني روى أحاديث منكرة وقال أبو حاتم ضعيف الحديث يروي عن الثقات أحاديث مناكير وقال أبو زرعة منكر الحديث روى عن عبد الله بن دينار ثلاثة أحاديث كلها يعني مناكير قال وإذا روى المجهول المنكر عن المعروفين فهو كذا كلمة ذكرها وقال الدولابي ليس بثقة وذكره ابن حبان فى الثقات وقال كان يخطىء قلت وقال يعقوب بن شيبة له أحاديث مناكير وقال الترمذي فى العلل المفرد عن البخاري منكر الحديث وقال النسائي ليس بثقة وقال الدارقطني ضعيف.» حافظ ابن حجرؒ ان کا ابتدائی تعارف کروانے کے بعد لکھتے ہیں: سلیمان بن سفیان سے ابو عامر العقدی نے رؤیت ھلال (کی دعاء والی) روایت نقل کی ہے لیکن وہ ثقہ نہیں، اور ابن معین کا دوسرا قول ان کے متعلق یہ ہے کہ سلیمان ( «لیس بشئی») اور ابوزرعہ ؒ فرماتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہیں،اس نے عبداللہ بن دینار سے تین احادیث روایت کی ہیں جو سب منکر ہیں، اور فرماتے ہیں کہ جب مجہول معروفین سے روایت کرتا ہے تو وہ ایسی ہوتی ہیں، دولابی بھی ان کے متعلق کہتے ہیں وہ ثقہ نہیں، امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ وہ خطا کرتے ہیں، اور یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: اس کی کچھ منکر احادیث ہیں، امام ترمذی علل الکبیر میں امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ سلیمان منکر الحدیث ہے اور نسائی کہتے ہیں کہ ثقہ نہیں،اور امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ ضعیف ہیں ت [ھذیب التھذیب] ------------------ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں ان کے متعلق لکھتے ہیں: «بلال ابن يحيى ابن طلحة ابن عبيد الله التيمي المدني لين من السابعة ت» ”یعنی بلال بن یحی کمزور، ضعیف راوی ہیں، اور ساتویں رتبہ سے تعلق رکھتے ہیں، ترمذی کے رواۃ میں سے ہیں۔“ اور حافظ صاحب تقریب کے مقدمہ میں ساتویں رتبہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: «من روى اكثر من واحد ولم يوثق و اليه الاشارة بلفظ:مستور، مجهول الحال» کہ ساتویں طبقہ میں وہ راوی ہیں جن کی کسی نے توثیق نہیں کی، اور اسی درجہ کے راوی کیلئے مستور اور مجہول الحال کے الفاظ سے اشارہ ہے۔ ------------------ لیکن تقریب التھذیب کی تحریر میں ڈاکٹر بشار عواد اور شیخ شعیب ارناؤط نے بلال بن یحی کے ترجمہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ: «بل مجهول، تفرد سليمان بن سفيان المديني-- وهو ضعيف -- بالرواية عنه،ولم يوثقه سوى ابن حبان،وحديثه الواحد الذي اخرجه الترمذي ضعيف» ”یعنی بلال بن یحی (صرف کمزور نہیں) بلکہ مجہول ہے،کیونکہ اس سے سوائے سلیمان بن سفیان کے۔۔ جو خود ضعیف ہے۔۔اور کسی نے روایت نقل نہیں کی، اور ابن حبان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی، اس کی ترمذی میں اکیلی منقول روایت ضعیف ہے۔“ ------------------ یہ آخر والا گمان درست ہے، اس کے تمام طرق ضعف سے خالی نہیں، امام ابو جعفر العقیلی ”الضعفاء الکبیر“ میں لکھتے ہیں: «وفي الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كان هذا عندي من أصلحها إسنادا، وكلها لينة الأسانيد» کہ رؤیت ہلال کی دعاء میں منقول تمام احادیث میں یہی (سلیمان بن سفیان) والی کچھ بہتر اسناد کی تھی، ویسے اس کے تمام طرق کمزور اسانید پر مبنی ہیں۔ ------------------ اس میں نیا چاند کس لفظ کا ترجمہ ہے، تو امام عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: «قوله (كان إذا رأى الهلال) وهو يكون من الليلة الأولى والثانية والثالثة ثم هو قمر»[تحفہ الاحوذی] ”کہ اس حدیث میں جو کہا کہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ھلال دیکھتے) تو واضح رہے کہ صرف پہلی، دوسری اور تیسری رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں، اس کے بعد وہ قمر کہلاتا ہے۔“
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 36523
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3451
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3451