علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1352
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب صبح ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے «اللهم بك أصبحنا وبك أمسينا وبك نحيا وبك نموت وإليك النشور» ” اے اللہ! تیرے ذریعہ سے ہم نے صبح کی اور تیرے ذریعہ سے شام کی اور تیرے ہی ذریعے ہماری زندگی ہے اور تیرے ہی ذریعہ ہماری موت ہے اور تیری ہی طرف دوبارہ اٹھنا ہے۔“ جب شام ہوتی تب بھی یہ دعا پڑھتے اور «وإليك النشور» تیری طرف اٹھایا جانا ہے کی بجائے «وإليك المصير» تیری طرف واپس آنا ہے کے الفاظ ادا فرماتے۔ اسے چاروں ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1352»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب ما يقول إذا أصبح، حديث:5068، والترمذي، الدعوات، حديث:3391، وابن ماجه، الدعاء، حديث:3868، والنسائي في الكبرٰي:6 /5، 145، حديث:9836، 10399.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو انعام بھی انسان کو حاصل ہے وہ سب اللہ کی جانب سے ہے‘ اس میں کسی ولی‘ فرشتے حتیٰ کہ کسی نبی کا بھی دخل نہیں ہے۔
یہ سب خود اسی کے محتاج ہیں۔
2. یہ بھی معلوم ہوا کہ نیند اور موت کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
انسان کا نیند سے بیدار ہونا ایک طرح کا موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
اسی وجہ سے شام کے ذکر میں اَلْمَصِیر کا لفظ ہے‘ اس لیے کہ وہ نیند کا وقت ہے اور اٹھنے کا وقت صبح ہے۔
اسی مناسبت سے اس کے ذکر میں اَلنُّشُور کا لفظ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1352