(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن زمعة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يوما يذكر الناقة والذي عقرها، فقال: " إذ انبعث اشقاها سورة الشمس آية 12 " انبعث لها رجل عارم عزيز منيع في رهطه مثل ابي زمعة. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثم سمعته يذكر النساء، فقال: " إلام يعمد احدكم فيجلد امراته جلد العبد ولعله ان يضاجعها من آخر يومه "، قال: ثم وعظهم في ضحكهم من الضرطة، فقال: " إلام يضحك احدكم مما يفعل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يَذْكُرُ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَهَا، فَقَالَ: " إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12 " انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ النِّسَاءَ، فَقَالَ: " إِلَامَ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ وَلَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ "، قَالَ: ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، فَقَالَ: " إِلَامَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: ”آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی“، انہوں نے کہا: پھر آپ نے کسی کے ہوا خارج ہو جانے پر ان کے ہنسنے پر انہیں نصیحت کی، آپ نے فرمایا: ”آخر تم میں کا کوئی کیوں ہنستا (و مذاق اڑاتا) ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے، ۱- اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ۲- مجلس میں کسی کی ریاح زور سے خارج ہو جانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابل غور ہے، «فداہ أبی وأمی» ۔
إذ انبعث أشقاها انبعث بها رجل عزيز عارم منيع في رهطه مثل أبي زمعة إلام يجلد أحدكم امرأته جلد الأمة ولعله يضاجعها من آخر يومه وعظهم في ضحكهم من الضرطة فقال إلام يضحك أحدكم مما يفعل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3343
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے۔ 1۔ اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور 2۔ مجلس میں کسی کی ریاح زورسے خارج ہو جانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپﷺ نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابلِ غور ہے، فداہ أبي وأمي۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3343
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7191
حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اور اس میں (حضرت صالح کی) اونٹنی کا ذکر کیا اور اس کی کونچیں کاٹنے والے کا تذکرہ کیا، چنانچہ فرمایا:"جب قوم کا سب سے بڑا بد بخت اٹھا، یعنی اس کے لیے وہ شخص اٹھا جو غالب سر کش و مفسد اور اپنے خاندان کی پناہ و حفاظت رکھنے والا اٹھا جیسے ابو زمعہ ہے۔" پھر آپ نے عورتوں کا ذکر کیا اور ان کو نصیحت فرمائی، پھر فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7191]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) عزيز، طاقت ور، سب پر غالب، معزز۔ (2) عارم: بدخلق، شریر، مفسدہ پرداز، (3) منيع: مضبوط، قوی جس پر کوئی قابونہ پاسکے، یہ آدمی قدار بن سالف نامی تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7191
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4942
4942. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے اپنے ایک خطبے میں حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے (إِذِ ٱنۢبَعَثَ أَشْقَىٰهَا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”اس اونٹنی کو مارنے کے لیے ایک بدبخت اور فسادی اٹھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا۔“ پھر آپ ﷺ نے اس مجلس میں عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا: ”تم میں سے کچھ لوگ اپنی بیویوں کو نوکروں اور غلاموں کی طرح پیٹتے ہیں، پھر دن کے اختتام پر اس سے ہم بستری بھی کرتے ہیں۔“ پھر آپ نے پادنے (انسانی ہوا کے خارج ہونے) پر ہنسنے سے منع کیا اور فرمایا: ”تم میں سے کوئی اس فعل پر کیوں ہنستا ہے جو وہ خود بھی کرتا ہے۔“ ابو معاویہ نے کہا: ہمیں ہشام نے بتایا: وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن زمعہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ابو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4942]
حدیث حاشیہ: کیونکہ ابو زمعہ مطلب بن اسد کا بیٹا تھا اور زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد کے بیٹے تھے تو ابو زمعہ عوام کا چچا زاد بھائی تھا جو زبیر کا چچا ہوا۔ اس روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں وصل کیا ہے۔ سورۃ والشمس مکہ میں اتری حدیث میں ہے آپ عشاء کی نماز میں یہ سورت اوراسی کے برابر کی سورت پڑھتے۔ (و القمرِ إِذَا تَلاھَا) اور چاند جب کہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے پھر دن کی قسم کھائی جب کہ وہ منور ہو جائے۔ امام جریر فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر ھا کا مرجع شمس ہے کیونکہ ا س کا ذکر چل رہا ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ جب رات آتی ہے تواللہ پاک فرماتا ہے میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپا لیا پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے، اس کے پیدا کرنے والے سے اور زیادہ ہیبت چاہئے پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے۔ یہاں جو ما ہے یہ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم اور ما بمعنی من کے بھی ہوسکتا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم۔ مترجم مرحوم مولانا وحید الزماں نے یہی ترجمہ اختیار فرمایا ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4942
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3377
3377. حضرت عبد اللہ بن زمعہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کو قتل کیا تھا تو فرمایا: ”اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے وہ شخص تیار ہوا جو غلبہ و طاقت اور مرتبے و عزت کے اعتبار سے اپنی قوم میں ابو زمعہ ؓ کی طرح تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3377]
حدیث حاشیہ: قرآن کریم نے اس اونٹنی کے قتل کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ﴿كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا (11) إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا (12) فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا (13) فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا﴾”(قوم) ثمود نے اپنی سر کشی کی وجہ سے جھٹلادیا۔ جب اس قوم کا سب سے بڑا بد بخت اٹھ کھڑا ہوا تو ان سے اللہ کے رسول (صالح) نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری کا خیال رکھو۔ انھوں نے اس (رسول) کو جھٹلایا اور اونٹنی کو مار ڈالاتو ان کے رب نے ان کے گناہ کی وجہ سے انھیں پیس کر ہلاک کردیا پھر اس (بستی) کو برابر یعنی ملیامیٹ کردیا۔ “(الشمس11- 13) روایات میں اس کا نام قدار بن سالف بتایا گیا ہے جو بڑا شریر اور مضبوط جسم والا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے عزت و قوت میں اسے ابو زمعہ جیسا قراردیا ہے جس کا نام اسود بن مطلب تھا جو اپنی قوم میں رسہ گیر تھا اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑانے والے ان لوگوں میں سےتھا جن کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾”قیناًآپ کی طرف سے ہم مذاق کرنے والوں کو کافی ہیں۔ “(الحجر: 95/15) حضرت جبرئیل ؑ نے اپنا پر مار کر اسے اندھا کردیا تھا۔ (عمدة القاري: 11/97۔ 98)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3377
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4942
4942. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے اپنے ایک خطبے میں حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے (إِذِ ٱنۢبَعَثَ أَشْقَىٰهَا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”اس اونٹنی کو مارنے کے لیے ایک بدبخت اور فسادی اٹھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا۔“ پھر آپ ﷺ نے اس مجلس میں عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا: ”تم میں سے کچھ لوگ اپنی بیویوں کو نوکروں اور غلاموں کی طرح پیٹتے ہیں، پھر دن کے اختتام پر اس سے ہم بستری بھی کرتے ہیں۔“ پھر آپ نے پادنے (انسانی ہوا کے خارج ہونے) پر ہنسنے سے منع کیا اور فرمایا: ”تم میں سے کوئی اس فعل پر کیوں ہنستا ہے جو وہ خود بھی کرتا ہے۔“ ابو معاویہ نے کہا: ہمیں ہشام نے بتایا: وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن زمعہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ابو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4942]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بےجا پیٹنے سے منع فرمایا ہے نیز پاد کی آواز کی طرف توجہ نہ دینے کی ترغیب دی ہے۔ دور جاہلیت میں لوگ پاد کی آواز سن کر ہنسا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ جب ایسی چیز واقع ہو تو اس کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں یہ حرکت عام تھی کہ وہ اپنی مجالس میں جان بوجھ کر پاد مارتے پھر اس پر ہنسا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4942