(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال احدكم في صلاة ما دام ينتظرها، ولا تزال الملائكة تصلي على احدكم ما دام في المسجد، اللهم اغفر له، اللهم ارحمه ما لم يحدث فقال رجل من حضرموت: وما الحدث يا ابا هريرة، قال: فساء او ضراط ". قال: وفي الباب عن علي , وابي سعيد , وانس , وعبد الله بن مسعود , وسهل بن سعد، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَ يَنْتَظِرُهَا، وَلَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي الْمَسْجِدِ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ مَا لَمْ يُحْدِثْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ: وَمَا الْحَدَثُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: فُسَاءٌ أَوْ ضُرَاطٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَنَسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتا ہے اور فرشتے اس کے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، کہتے ہیں «اللهم اغفر له» ”اللہ! اسے بخش دے“ «اللهم ارحمه»”اے اللہ! اس پر رحم فرما“ جب تک وہ «حدث» نہیں کرتا“، تو حضر موت کے ایک شخص نے پوچھا: «حدث» کیا ہے ابوہریرہ؟ تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: آہستہ سے یا زور سے ہوا خارج کرنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوسعید، انس، عبداللہ بن مسعود اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں «حدث» کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔
الملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه ما لم يحدث اللهم اغفر له اللهم ارحمه لا يزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 330
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں حدث کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 330
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 103
´نماز کے انتظار میں رہنا بہت عظیم عمل ہے` «. . . 329- مالك وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال: ”لا يزال أحدكم فى صلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر آدمی اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک نماز اسے (اپنے انتظار میں) روکے رکھتی ہے۔ وہ نماز کی وجہ سے اپنے گھر واپس نہیں جاتا۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 103]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 659، ومسلم 275/649 بعد ح661، من حديث مالك به] تفقه: ➊ نماز کا انتظار کرنا بڑے ثواب اور فضیلت کا کام ہے۔ ➋ فرض نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے۔ ➌ نیز دیکھئے آنے والی الموطأ حدیث: 330، اور حدیث سابق: 134 ➍ ابوبکر بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے تھے: جو شخص صبح یا شام کو مسجد صرف اس لئے جاتا ہے کہ علم سیکھے یا بھلائی حاصل کرے پھر وہ گھر واپس جاتا ہے تو اس کی مثال اس مجاہد جیسی ہے جو مالِ غنیمت لے کر گھر واپس آتا ہے۔ [الموطأ 1/161 ح383، وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 329
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 470
´مسجد میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان۔` اسی سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک شخص برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز اس کو روکے رہے یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے سے اسے نماز کے علاوہ کوئی اور چیز نہ روکے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 470]
470. اردو حاشیہ: یعنی مسجد میں رکنا صرف نماز اور اذکار کے لئے ہو نہ کہ کسی اور غرض سے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 470
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 471
´مسجد میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک اپنے مصلی میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا رہے، فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ! تو اسے بخش دے، اے اللہ! تو اس پر رحم فرما، جب تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر گھر نہ لوٹ جائے، یا حدث نہ کرے۔“ عرض کیا گیا: حدث سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حدث یہ ہے کہ وہ) بغیر آواز کے یا آواز کے ساتھ ہوا خارج کرے (یعنی وضو توڑ دے)۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 471]
471۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز کے بعد بیٹھنے کی احادیث اور ان کی فضیلت کو عموم پر محول کیا جاتا ہے۔ کہ انسان سنتوں کے بعد فرضوں کا انتظار کر رہا ہو، یا فرضوں کے بعد سنتوں کے لئے بیٹھا ہو، یا دوسری نماز کا انتظار کر رہا ہو۔ یا ذکر اذکار میں مشغول ہو۔ ان شاء اللہ اس فضیلت سے محروم نہیں ہو گا۔ چاہیے کہ مسلمان لا یعنی اور بےفائدہ مجالس و مشاغل کو چھوڑ کر مسجد کی مجلس اختیار کرے۔ ➋ «فساء»”بغیر آواز کے ہوا خارج ہونا ہے“ اور «ضراط» کہتے ہیں ”آواز کے ساتھ ہوا کے خارج ہونے کو“ اردو میں اسے پھسکی اور گوز یا پاد مارنا کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 471
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:176
176. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندہ اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک وہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے، بشرطیکہ اسے حدث لاحق نہ ہو۔“ ایک عجمی شخص نے سوال کیا: ابوہریرہ! حدث کیا ہے؟ فرمایا: حدث آواز، یعنی گوذ کو کہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:176]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس روایت میں صرف آواز کے ساتھ اخراج ریح کو حدث قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مختصر ہے۔ اس سے پہلے حدیث نمبر: 135 میں وضاحت ہے کہ حدث دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ آواز کے ساتھ بھی اور بغیر آواز کے بھی۔ چونکہ نماز اور مسجد کا ذکر ہو رہا تھا اور نماز میں اکثر وبیشتر یہی حدث لاحق ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اسی چیز کا ذکر کیا جو اس حالت میں زیادہ پیش آنے والی تھی۔ قبل ازیں ظاہری نجاست کا ذکر تھا، اب نجاست باطنی کو بیان کیا جارہا ہے، چونکہ سوال مسجد میں انتظار نماز سے متعلق تھا، اس لیے جواب بھی خاص دیا گیا اور جس ناقض وضو کا احتمال وقوعی ہوسکتا تھا اسے ذکر کردیا گیا، احتمال عقلی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ (فتح الباري: 370/1) 2۔ اس حدیث کے دیگرطرق سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے لیے فرشتے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں کسی دوسرے کی اذیت کا باعث نہیں بنتا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 477) اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استنباط ہوتا ہے: (الف) ۔ انتظار نماز کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ عبادت کاانتظار بھی عبادت ہی شمارہوتا ہے۔ (ب) ۔ جو نماز کے اسباب میں منہمک ہوتا ہے وہ بھی نمازی شمارہوتا ہے۔ (ج) یہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو بے وضو نہ ہو، خواہ اس کا نقض وضو کسی سبب بھی ہو۔ (د) انتظار نماز، نماز ہی سے ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اسے نماز کا ثواب ملتا ہے، کیونکہ نماز میں رہنے والے کو دوسرے سے بات چیت کرنا منع ہے، جبکہ انتظار کرنے والے پر بات چیت کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ (عمدة القاري: 507/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 176
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:659
659. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فرشتے تم میں سے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی جائے نماز پر رہے، بشرطیکہ بے وضو نہ ہو۔ (دعا یہ ہے:) اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما، نیز تم میں سے ہر ایک اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز نے اسے روک رکھا ہو اور اپنے گھر واپس آنے کے لیے نماز کے علاوہ اور کوئی چیز مانع نہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:659]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں دووچیزیں بیان کی ہیں: ٭مساجد کا شرف٭نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی فضیلت۔ نماز کے انتظار میں بیٹھنے والا اسی اجر و ثواب کا حق دار ہوتا ہے جو نماز ادا کرنے سے ملتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو تکلیف نہ دے، نیز نماز کے علاوہ اور کوئی چیز اسے گھر واپس جانے سے مانع نہ ہو۔ اگر مسجد میں نماز کے علاوہ کسی اور مقصد کےلیے ٹھہرا یا نماز کے انتظار کی نیت میں کسی اور مقصد کو بھی شامل کرلیا تو مذکورہ ثواب کا حق دار نہیں ہوگا۔ (2) اگر کوئی مسجد سے نکل جاتا ہے لیکن دوبارہ لوٹ کر مسجد میں ہی دوسری نماز ادا کرنے کی فکر میں رہتا ہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب نہیں ملے گا، ہاں!اس قسم کے آدمی کو اور نوعیت کا ثواب حاصل ہوگا جسے آئندہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ غالباً امام بخاری ؒ نے اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 186/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 659