(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا بكر بن مضر، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم بن عبد الرحمن وهو عبد الرحمن مولى عبد الرحمن، عن ابي امامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن ولا خير في تجارة فيهن وثمنهن حرام، وفي مثل هذا انزلت عليه هذه الآية: ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله سورة لقمان آية 6 إلى آخر الآية ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب إنما يروى من حديث القاسم، عن ابي امامة، والقاسم ثقة، وعلي بن يزيد يضعف في الحديث، قال: سمعت محمد بن إسماعيل، يقول: القاسم ثقة، وعلي بن يزيد يضعف.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ، وَفِي مِثْلِ هَذَا أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سورة لقمان آية 6 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَالْقَاسِمُ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: الْقَاسِمُ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ يُضَعَّفُ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گانے والی لونڈیاں نہ بیچو، نہ انہیں خریدو اور نہ انہیں گانا بجانا سکھاؤ، ان کی تجارت میں کوئی بہتری نہیں ہے، ان کی قیمت حرام ہے“، ایسے ہی مواقع کے لیے آپ پر آیت «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله»”بعض لوگ ایسے ہیں جو لہو و لعب کی چیزیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں“(لقمان: ۶)، آخر تک نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ حدیث قاسم سے ابوامامہ کے واسطہ سے مروی ہے، قاسم ثقہ ہیں اور علی بن یزید میں ضعیف سمجھے جاتے ہیں، یہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1282 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: حسن ومضى برقم (1305)
قال الشيخ زبير على زئي: (3195) إسناده ضعيف / تقدم:1282
لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن ولا خير في تجارة فيهن ثمنهن حرام في مثل هذا أنزلت عليه هذه الآية ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2168
´حرام اور ناجائز چیزوں کی خرید و فروخت حلال نہیں ہے۔` ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغنیہ (گانے والی عورتوں) کی خرید و فروخت، ان کی کمائی اور ان کی قیمت کھانے سے منع کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2168]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر دلائل سے بھی ان اشیاء کی خرید و فروخت اور ان کی کمائی کے حرام ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني، رقم: 2922) بنابریں اہل عرب دور جاہلیت میں بھی گانا بجانا معیوب سمجھتے تھے، اس لیے معزز خاندان کی عورتیں اس سے پرہیز کرتی تھیں، البتہ لونڈیاں اپنے آقاؤں اور ان کے دوستوں کا دل بہلانے کے لیے، یا گانا سنا کر انعام حاصل کرنے کے لیے گا بجا لاتی تھیں۔ دور جاہلیت کے عرب اپنی لونڈیوں سے کہتے تھے کہ کماکر لاؤ۔ وہ ساز اور گانے کے ذریعے سے یا عصمت فروشی کے ذریعے سے پیسے کما کر مالکوں کو دیتی تھیں۔ اسلام نے یہ کمائی حرام قرار دی ہے۔ نہ لونڈیوں کو اس طرح کمانا جائز ہے۔
(3) آج کل ساز و نغمہ کو فن کا نام دے کر کمائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ شرعی نقطۂ نظر سے یہ جائز نہیں۔ فلموںمیں غیر شریفانہ کردار ادا کرنا اور ماڈلنگ کا پیشہ اختیار کرنا بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔
(4) گانے والی لونڈیاں اگر گانا سننے سنانے کےلیے نہ خریدی جائیں بلکہ گھر کے کام کاج اور دوسری جائز خدمت کے لیے خریدی جائیں تو منع نہیں، اس طرح اگر بیچتے وقت انہیں فنکار ظاہر کرکے زیادہ قیمت طلب نہ کی جائے بلکہ عام لونڈی کی حیثیت سے بیچاجائے تو حرام نہیں ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2168
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1282
´گانے والی لونڈی کی بیع کی حرمت کا بیان۔` ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو اور نہ انہیں خریدو، اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ ۱؎، ان کی تجارت میں خیر و برکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔ اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے: «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله»”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لغو باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں“(لقمان: ۶)۔“[سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1282]
اردو حاشہ: 1؎: کیونکہ یہ فسق اورگناہ کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔ نوٹ:
(سند میں عبیداللہ بن زحر اور علی بن یزید بن جدعان دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن ماجہ کی سند حسن درجے کی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1282
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:934
934- سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”گانے والی عورت کا معاوضہ حلال نہیں ہے اسے فروخت کرنا اور خرید نا بھی حلال نہیں ہے نہ ہی اسے سننا جائز ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:934]
فائدہ: اس حدیث میں گانا گانے والی عورت کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ اپنی عورت کے گانے سننے کے عوض میں پیسے دینا، اور اس کی کیسٹیں اور سی ڈیز بیچنا یا خریدنا اور میموری کارڈ بھرنا یا بھرانا سب حرام ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 933