عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت
«الم غلبت الروم في أدنى الأرض» کے بارے میں کہتے ہیں:
«غَلَبَتْ» اور
«غُلِبَتْ» دونوں پڑھا گیا ہے، کفار و مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آ جائیں، اس لیے کہ کفار و مشرکین اور وہ سب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آ جائیں، اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے، انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر رضی الله عنہ سے کیا اور ابوبکر رضی الله عنہ نے رسول اللہ سے، آپ نے فرمایا:
”وہ
(رومی) (مغلوب ہو جانے کے بعد پھر) غالب آ جائیں گے، ابوبکر رضی الله عنہ نے جا کر انہیں یہ بات بتائی، انہوں نے کہا:
(ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کر لو، اگر ہم غالب آ گئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا، اور اگر تم غالب آ گئے
(جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی، لیکن وہ
(رومی) اس مدت میں غالب نہ آ سکے، ابوبکر رضی الله عنہ نے یہ بات بھی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ نے فرمایا:
”تم نے اس کی مدت اس سے کچھ آگے کیوں نہ بڑھا دی؟
“ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ کی مراد اس سے دس
(سال) تھی، ابوسعید نے کہا کہ
«بضع» دس سے کم کو کہتے ہیں، اس کے بعد رومی غالب آ گئے۔
(ابن عباس رضی الله عنہما) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے قول
«الم غلبت الروم» سے
«ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله ينصر من يشاء» تک کا یہی مفہوم ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ وہ
(رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف سفیان ثوری کی اس روایت سے جسے وہ حبیب بن ابو عمرہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، جانتے ہیں۔