عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے ایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: علم دین اس لیے سیکھا جاتا ہے ہے کہ اس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جائے، لیکن اگر اس علم سے اللہ کی رضا و خوشنودی مقصود نہیں بلکہ اس سے جاہ و منصب یا حصول دنیا مقصود ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 33 (258) (تحفة الأشراف: 6712) (ضعیف) (سند میں خالد اور ابن عمر رضی الله عنہما کے درمیان انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (258) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (54)، ضعيف الجامع (5530 و 5687) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2655) إسناده ضعيف / جه 258 خالد بن دريك لم يدرك ابن عمر رضى الله عنه (تحفة الاشراف 342/5)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2655
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: علم دین اس لیے سیکھا جاتا ہے ہے کہ اس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جائے، لیکن اگر اس علم سے اللہ کی رضا و خوشنودی مقصود نہیں بلکہ اس سے جاہ ومنصب یا حصول دنیا مقصود ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔
نوٹ: (سند میں خالد اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2655
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث253
´علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے علم سیکھا تاکہ بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے، یا علماء پر فخر کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، تو وہ جہنم میں ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 253]
اردو حاشہ: (1) جو شخص بغیر اخلاص کے علم حاصل کرتا ہے اس کا مقصد عام طور پر یہی باتیں ہوتی ہیں جو حدیث میں مذکورہ ہوئیں۔ ایسا شخص نیت کی خرابی کے جرم میں جہنم کی سزا کا مستحق ہو گا۔
(2) بے عمل علماء عام طور پر نئے نئے مسئلے نکالتے رہتے ہیں تاکہ عوام انہیں عالم سمجھیں۔ خصوصا ایسے اجتہادی مسائل جن میں سلف کے درمیان اختلاف رہا ہے یا ایک عمل دو طریقوں سے جائز ہے اور ان میں سے ایک طریقہ رائج ہو گیا ہے، ان میں نئے سرے سے اختلاف پیدا کرنا مستحسن نہیں، البتہ اگر کوئی مسنون عمل معاشرہ میں متروک ہو گیا ہے یا کوئی بدعت رائج ہو گئی ہے تو اس سنت کا احیاء اور بدعت کی تردید ضروری ہے۔
(3) اگر کسی مقام پر اختلافی مسئلہ بیان کرنے کی ضرورت ہو تو اسے اس انداز سے بیان کرنا چاہیے جس سے دوسرا موقف رکھنے والے علماء کی تحقیر اور توہیں نہ ہو۔ اور اگر کسی عالم سے بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو مخاطب کا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ادب کے دائرے میں بات چیت ہونی چاہیے، گالی گلوچ علماء کی شان کے لائق نہیں بلکہ ایسی حرکتیں عدم خلوص کی علامت ہیں۔
(4) بعض لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام میں ان کا نام زیادہ مشہور ہو اور ان کے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القاب لکھے اور بولے جائیں یا کسی مذہبی اور سیاسی تنظیم میں ان کو اونچا عہدہ اور منصب ملے، اس مقصد کے لیے وہ اپنی تشہیر اور دوسرے علماء کی تحقیر کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ یہ سب کام خلوص سے محرومی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ اپنی ذات کا کڑا احتساب کرتے رہیں تاکہ شیطان کے داؤ سے محفوظ رہ سکیں۔ اس سلسلہ میں ”تلبیس ابلیس“(مصنفه علامہ ابن الجوزی رحمة اللہ علیه) امام ابن القیم کی ”الداءوالدواء“ اور اس قسم کی دوسری کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔
(5) بعض محققین نے شواہد کی بنا پر اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاة للألبانی، حدیث: 226، 225) علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی تحقیق میں اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے لیکن ان کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ بہرحال روایت شواہد کی وجہ سے قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 253