علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی جرم کیا اور اسے اس کے جرم کی سزا دنیا میں مل گئی تو اللہ اس سے کہیں زیادہ انصاف پسند ہے کہ وہ اپنے بندے کو آخرت میں دوبارہ سزا دے اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس کی پردہ پوشی کر دی اور اس سے درگزر کر دیا تو اللہ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کر چکا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہی اہل علم کا قول ہے۔ ہم کسی شخص کو نہیں جانتے جس نے زنا کر بیٹھنے، چوری کر ڈالنے اور شراب پی لینے والے کو کافر گردانا ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 33 (2604) (تحفة الأشراف: 10313) (ضعیف) (سند میں حجاج بن محمد المصیصی اگرچہ ثقہ راوی ہیں، لیکن آخری عمر میں موت سے پہلے بغداد آنے پر اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، اور ابواسحاق السبیعی ثقہ لیکن مدلس اور مختلط راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2604) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (567) مع اختلاف في اللفظ، ضعيف الجامع الصغير (5423)، المشكاة (3629) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2626) إسناده ضعيف/ جه 2604 أبو إسحاق عنعن (تقدم:107)
من أصاب حدا فعجل عقوبته في الدنيا فالله أعدل من أن يثني على عبده العقوبة في الآخرة ومن أصاب حدا فستره الله عليه وعفا عنه فالله أكرم من أن يعود في شيء قد عفا عنه
من أصاب ذنبا في الدنيا فعوقب به فالله جل ذكره أعدل من أن يثني عقوبته على عبده في الآخرة ومن أصاب ذنبا في الدنيا فستره الله عليه وعفا عنه فالله أجود من أن يعود في شيء قد عفا عنه وستره
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2626
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں حجاج بن محمد المصیصی اگرچہ ثقہ راوی ہیں، لیکن آخر ی عمر میں موت سے پہلے بغداد آنے پر اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، اور ابواسحاق السبیعی ثقہ لیکن مدلس اور مختلط راوی ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2626